جہادِ ذات و جہادِ جہاتِ ذات !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالعادیات ، اٰیت 1 تا 11 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والعٰدیٰت
ضبحا 1 فالموریٰت
قدحا 2 فالمغیرٰت صُبحا
3 فاثرن بهٖ نقعا 4 فوسطن بهٖ
جمعا 5 ان الانسان لربهٖ لکنود 6 و
انهٗ علٰی ذٰلک لشھید 7 وانهٗ لحب الخیر
لشدید 8 افلایعلم اذا بعثر ما فی القبور 9
وحصل مافی الصدود 10 ان ربھم بھم یومئذ
لخبیر 11
صُبح دَم ہانپتے دوڑتے سے اور قدموں سے غبار و چنگاراں اُڑاتے ہوۓ دُشمن پر دشمن بن کر ٹوٹ پڑنے والوں کی قَسم ہے کہ انسان جو اپنے رب کا ناشُکرا ہے وہ اپنے اِس ناشکرے پَن پر خود بھی اپنا شاہد ہے حالانکہ اُس کے رب نے اُس کے دل میں جس چیز کی ایک شدید خواہش رکھی ہوئی ہے وہ چیز خیر کی خواہش ہے تو پھر انسان یہ کیوں نہیں خیال کرتا کہ جس روز اِس زمین کے سینے کے سارے راز اِس زمین کے سینے سے باہر آجائیں گے اور جس روز اِس انسان کے سینے کے سارے راز بھی اِس انسان کے سینے سے باہر آجائیں گے تو اُس روز انسان کے کمانے کھانے اور بچانے گنوانے کا ہر کمال و زوال اللہ کے علم میں ہوگا اور انسان کو اپنے ہر کمال و زوال کا حساب دینا ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ تفسیر نے ہانپتے دوڑتے اور قدموں سے غبار و چنگاریاں اُڑاتے ہوۓ دشمن پر دشمن بن کر حملہ آور ہونے والے حملہ آوروں سے وہ پالتوں حربی گھوڑے مُراد لیئے ہیں جن کی جسمانی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جدید دور کی ایک جدید اور اعلٰی درجے کی مشین کو آج بھی اُس کی horsepower کی بنا پر ایک عمدہ مشین کے طور پر جانا اور گردانا جاتا ہے ، ایک گھوڑے کے پھیپھڑے قُدرت نے دوسرے حیوانات کے مقابلے میں اتنے بڑے بڑے بنائے ہوۓ ہیں کہ عام حالات میں اُس کے اُن بڑے بڑے پھیپھڑوں میں 5 لیٹر اور بھاگتے ہوۓ اُن کے اُن بڑے پھیپھڑوں 55 لیٹر ہوا کی آمد و رفت کی گُنجائش موجُود ہوتی ہے اور قُدرت کا یہ عجوبہ صرف اپنے نتھنو کے ذریعے ہی اپنی باہر کی سانس اندر کھینچنے اور اندر کی سانس باہر نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، وہ اپنی انہی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر بلا تکان سر پٹ دوڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اپنی انہی صلاحیتوں کی بنا پر وہ قدیم حربی زمانے میں انسان کا سب سے اعلٰی حربی ہتھیار بھی رہا ہے ، نزولِ قُرآن کے زمانے میں اپنی جن خوبیوں کی بنا پر پالا جاتا تھا اُن خوبیوں میں اُس کی حربی خوبی سب سے نمایاں خوبی تھی اور اِس حربی خوبی کی بنا گھوڑے نہ صرف پالے جاتے تھے بلکہ اُن کے نام و نسب کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا تھا اِس لیئے عُلماۓ تفسیر کی اِس تفسیر کے مطابق اِس سُورت کا موضوعِ سُخن ہر اُس سامانِ جنگ کا حصول ہے جس سامانِ جنگ کی ایک حربی علامت اُس زمانے میں حربی گھوڑے ہوتے تھے اور بعد کے زمانوں میں اِس سامانِ جنگ کی جو صورت موجُود ہوگی وہی صورت اُن زمانوں کے اعتبار سے انسان کی حربی و دفاعی ضرورت ہوگی لیکن یہ بات اپنی جگہ پر درست ہونے کے باوجُود بھی اُس مضمون کی اُس علمی وسعت سے کم ہے جو علمی وسعت اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بیان ہوئی ہے بہر حال جنگ کے اِس سامانِ جنگ کا حصول کبھی کبھی تو کسی قوم کے لیئے بقدرِ ضرورت محض ایک جائز عمل ہوتا ہے اور کبھی کبھی کسی قوم کے لیئے اِس سامانِ جنگ کا حصول اپنی استطاعت کے مطابق ایک لازم عمل ہو جاتا ہے لیکن اِس سُورت کے مجموعی مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سُورت کے اِس مضمون کے اِس خاص قُرآنی پس منظر کے حوالے سے عام حالات میں اِس جنگ سے مُراد وہ عام جنگ نہیں ہے جو ہر زمانے کا انسان ہر زمانے کے انسان کے ساتھ لڑتا رہا ہے اور عام حالات میں اِس سامانِ جنگ سے بھی مُراد وہ عام سامانِ جنگ نہیں ہے جو ہر زمانے کا انسان ہر زمانے کے انسان کا خون بہانے کے لیئے اپنے کارخانوں میں ڈھالتا اور اپنی منڈیوں میں بیچتا رہا ہے بلکہ قُرآنِ کریم نے جس جنگ کا ذکر کیا اُس جنگ کو اُس نے انسان کے جہادِ ذاتِ کے اُن مُثبت جذبوں کے ساتھ مشروط کیا ہے جن مُثبت جذبوں کے ساتھ وہ اپنے مَن کے مَنفی جذبوں کے ساتھ نبردآزما ہونے کی ایک عملی جد و جہد کرتا ہے اور اِس جد و جہد میں اِس کا سامانِ جنگ بھی اِس کا وہ مُثبت و قوی جذبہ ہی ہوتا ہے جو اِس کی اِس جُہدِ جہادِ ذات میں اِس کے کام آتا ہے تاہم جہادِ ذات کی اِس عملی جد و جُہد میں کبھی کبھی تو انسان سَچ مُچ کامیاب ہو جاتا ہے لیکن کبھی کبھی اُس کو اپنی کامیابی کا محض وہ موہُوم سا ایک گمان ہی ہوتا ہے جو جتنا قابلِ اعتار ہو سکتا ہے وہ اتنا ہی ناقابلِ اعتبار بھی ہوتا ہے کیونکہ انسان کے اِس جہادِ ذات کے درمیان اِس کی اندرونی مَنفی قوتیں بھی اِس کے خلاف سرگرمِ عمل ہوتی ہیں اور بیرونی قُوتیں بھی اِس کے خلاف بر سرِ جنگ ہوتی ہیں اور یہ اندرونی و بیرونی مَنفی قُوتیں اِس کو جہادِ ذات کے میدان سے نکال کر جہادِ جہاتِ ذات کے اُس میدان میں لے جاتی ہیں جس میں جانا اُس کے دل کی خواہش نہیں ہوتی بلکہ اُس کے حالات کی ایک مجبوری ہوتی ہے کیونکہ اگر وہ جہادِ جہاتِ ذات کے اِس میدان کو خالی چھوڑتا ہے تو وہ خود بھی اُن طاغوتی قُوتوں کے ہاتھھوں سے مارا جاتا ہے اور بہت سے دُوسرے انسان بھی اُن طاغوتی قُوتوں کے ہاتھوں سے مارے جاتے ہیں اِس لیئے جہادِ ذات و جہادِ جہاتِ ذات کے اِس مرحلے میں اُس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اَمن پسند انسان بھی اپنے اِس جہاد کے لیئے وہی سامانِ جہاد حاصل کرے جو اُس طاغوت کے پاس ہے جس کے ساتھ اُس کی جنگ ہے اِس لیئے لازم ہے کہ وہ طاغوت کو اسی ہتھیار سے جواب دے جو اُس زمانے کا رائجِ زمانہ طاغوتی ہتھیار ہے کیونکہ اگر وہ اَمن دوست انسان ایسا نہیں کرے گا تو زمین کی طاغوتی قُوتیں اُس کو اور دُوسرے تمام اَمن پسند انسانوں کو زندگی کے حق سے محروم کردیں گی چونکہ اِس جنگ اور جہاد میں ایک بال کے برابر باریک سا فرق ہوتا ہے اِس لیئے قُرآن نے اِس جہاد کو انسان کے جذبہِ خیر اور عملِ خیر کے ساتھ مشروط کیا ہے تاکہ ایک مُجاہد اُس عملی جنگ میں کبھی بھی اُس جنگ جُو انسان کا سا رویہ اختیار نہ کرے جس کا نظریہ حصولِ مال و زمین ہوتا ہے چاہے اُس کے حصول کے لیئے وہ کتنے ہی بے گناہ بچوں بوڑھوں اور کم زور عورتوں کا خون بہادے بلکہ اُس مُسلم کا رویہ اُس خوں خوار دشمن کے مقابلے میں ایسا معقول اور مُعتدل ہو کہ وہ اُس پر فخر کر سکے ، اِس سُورت کا خاتمہِ کلام بھی یومِ حساب اور انسان کے اعمالِ نیک و بد کے جواب پر ہواہے تاکہ ایک معقول انسان جو بھی عمل کرے وہ اِس خیال سے کرے کہ اُس نے قیامت کے روز اپنے اِس عمل کا اپنے خالق کو جواب دینا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 560104 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More