#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالقارعة ، اٰیت 1 تا 11
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
القارعة 1
مالقارعة 2 وما
ادرٰک ماالقارعة 3
یوم یکون الناس کالفراش
المبثوث 4 و تکون الجبال کالعن
المنفوش 5 فاما من ثقلت موازینه 6
فھو فی عیشة راضیة 7 واما من خفت
موازینه فامهٗ ھاویة 9 وما ادرٰک ماھیة 10
نار حامیة 11
اے ہمارے رسول ! قیامت کا تیر اپنی کمان میں آچکا ہے لیکن آپ کو اندازہ
نہیں ہے کہ وہ تیر کیا ہے اور وہ کمان کیا ہے اِس لیئے ہم آپ کو بتا رہے
ہیں کہ جس روز وہ تیر اپنی کمان سے چھوڑا جاۓ گا تو انسان بے جان پروانوں
کی طرح زمین بکھرے ہوۓ ہوں گے اور پہاڑ زمین کی کشش سے آزاد ہو کر دُھنی
ہوئی روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اُڑ رہے ہوں گے اور اُس روز جس انسان کے
اعمال ہماری میزان میں وزنی ہوں گے اُس کے لیئے عیش و نشاط ہو گا اور جس
انسان کے اعمال وزن میں بے وزن ہوں گے اُس کا مقام وہ { ہاویة } ہوگا جس
ہاویہ کے بارے میں آپ نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے اِس لیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں
کہ وہ ایک تند و تیز آگ ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی اٰیت کا پہلا لفظ { قارعة } اپنے افعال { قرع یقرع } کا
ایک اسمِ فاعل ہے جس کا مُرادی مفہوم اُس فاعل کا وہ فعل ہے جس نے اپنے تیر
کو اپنی کمان پر چڑھادیا ہے اِس لیئے اِس کا جو لفظی ترجمہ وہ کھٹکھٹانے
والی یا وہ کھڑکھڑانے والی وغیرہ کیا جاتا ہے وہ اپنے مقصد کے اعتبار سے
ایک ایسا مضحکہ خیز ترجمہ ہے جیسے کوئی بڑی بی ایک روتے ہوئے بچے کو کسی
چڑیل سے ڈرا کر چُپ کرا ریی ہو لہٰذا اِس کا درست معنٰی کھڑکھڑانا یا
کھٹکھٹانا وغیرہ نہیں ہے بلکہ عربی تاریخ و لغت کے اعتبار سے اِس کا مناسب
ترجمہ کمان پر تیر چڑھانا ہے اور ترجمے کا پس منظر یہ ہے کہ دورِ جاہلیت کے
اہلِ جہالت میں تیروں سے اِس قرعہِ فال کے نکالنے کا جو عملِ کہانت کیا
جاتا تھا اُس عملِ کہانت کا مصدر بھی یہی معروف فعل { قرع تھا } جس کا
مفہوم اِس قرعہِ فال کے ذریعے کسی کے نیک بخت یا بد بخت ہونے کا وہ فیصلہ
کیا جاتا تھا جو اُن لوگوں میں اُن لوگوں کے نزدیک اُن لوگوں کے دیوی
دیعتاؤں کی طرف سے صادر ہونے والا ایک معتبر غیبی فیصلہ سمجھا جاتا تھا ،
چونکہ یہ لفظ اُس زمانے کے اُن فال گیر و فال گر لوگوں کے لیئے ایک مانُوس
لفظ تھا اِس لیئے قُرآن نے اُن لوگوں کے فہم کے مطابق پہلے اِس لفظ کا
انتخاب کیا ہے اور پھر اِس لفظ پر تعریف کا { الف و لام } لگا کر اِس لفظ
کو اُن کے یومِ قیامت کے ساتھ مُختص کردیا ہے اور اِس سے اُن لوگوں کو یہ
پیغام دیا گیا ہے کہ قیامت کا جو تیر اپنی کمان پر آچکا ہے اُس تیر کا
نشانہ یہ زمین و آسمان اور اِس زمین و آسمان کے درمیان رہنے والا وہ مُتکبر
انسان ہے جو اُس یومِ حساب کا مُنکر ہے ، قرع بمعنی فال کے بعد اِس سُورت
میں جو دُوسرا وضاحت طلب لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ ایک اسمِ جمع { موازین
} ہے جو جس طرح اسمِ میزان کی جمع ہے وہ اسی طرح اسمِ موزون کی بھی جمع ہے
اور یہ دونوں اسمائے آلہِ وزن و حقیقتِ وزن اور کیفیت و کیمیتِ وزن کے سارے
مفاہیم کی تکمیل کرتے ہیں ، اِس اسمِ جمع موازین کے ذریعے انسانی اعمال کے
وزن کا جو ذکر کیا گیا ہے اُس کی ایک مُمکنہ عملی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ
انسانی اعمال میں سے اعمالِ نیک و بد اعمال کی گنتی کی جاۓ اور گنتی میں جو
اعمال زیادہ ہوں اُن اعمال کے مطابق انسان کی جزا و سزا کا فیصلہ کر لیا
جاۓ اور دُوسری مُمکنہ صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کے اُن اعمال کی
مقدار کے بجاۓ اُن کے معیار کو فیصلے کا معیار بنایا جاۓ اور اُن اعمال کی
اُس معیاری اہمیت کے اعتبار سے ہر انسان کو اُس کی جزا و سزا کا فیصلہ
سنایا جاۓ ، مثال کے طور پر ایک انسان اگر کسی انسان کو سال بھر کھانا
کھلاتا ہے جو ایک اعلٰی عمل ہے لیکن اگر وہی انسان کم و بیش اتنے ہی رقم
خرچ کر کے اُس غریب و نادار انسان کو کوئی ایسا کار و بار کرادیتا ہے جس سے
وہ عمر بھر کے لیۓ اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو اپنی اہمیت کے اعتبار
سے اُس کا یہ عمل ایک بڑا عمل ہے اور عین مُمکن ہے کہ وزنِ اعمال کی یہی
دُوسری صورت اختیار کی جاۓ ، بہر کیف میزان و اوزان کے اِس ذکر کے بعد اِس
سُورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب قیامت کی وہ مُشکل ساعت آجاۓ گی تو یہ
تیر جو کمان پر چڑھ چکا ہے اُس کو کھینچ کر چھوڑ دیا جاۓ گا اور اِس تیر کے
اپنے نشانے پر لگتے ہی زمین کے تمام انسان زمین پر بے جان پروانوں کی طرح
اِدھر اُدھر بکھر ے ہوۓ نظر آئیں گے اور اُس وقت زمین میں گڑے ہوۓ بڑے بڑے
پہاڑ بھی اِس فضاۓ بسیط میں دُھنی ہوئی رُوئی کے گالوں کی طرح اُڑتے ہوۓ
نظر آئیں گے اور قیامت کی اُس افرا تفری کی ہولناک فضا میں اَچھے لوگوں کو
اُس مُشکل سے نکال کر جنت کے ایک راحت آمیز ٹھکانے پر پُہنچا دیا جاۓ گا
اور بُرے لوگوں کو آتشِ جہنم کی ایک ذلت آمیز گہرائی میں اُتار دیا جاۓ گا
اور یہ وقت ہی در اصل اُس انقلاب کے ظہور کا وقت ہو گا جو انقلاب وقت ظالم
کو وقت کے مظلوم سے اور وقت کے مظلوم سے وقت کے ظالم سے الگ کر کے اُس
خُدائی انصاف کا بول بالا کردے گا جس انصاف کے لیئے زمین کی ظالم مخلوق کے
ہاتھوں سے زمین کی پسی ہوئی تمام مظلوم مخلوق ترس رہی ہوگی اور یہی وہ حتمی
و ختمی خُدائی انصاف ہو گا جو اُس روز ظالم و مظلوم دونوں طرح کے انسانوں
کو مل جاۓ گا !!
|