#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةالتکاثر ، اٰیت 1 تا 8
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتا ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الھٰکم
التکاثر 1
حتٰی زرتم
المقابر 2 کلّا
سوف تعلمون 3
ثم کلّا سوف تعلمون
4 کلّا لو تعلمون علم الیقین
5 لترون الجحیم 6 ثم لترونھا
عین الیقین 7 ثم لتسئلن یومئذ عن
النعیم 8
کثرتِ مالِ حیات کی حرص اگرچہ تُم کو اُس وقت تک غفلتِ مآلِ حیات سے غافل
رکھتی ہے جب تک کہ تُم اپنی اپنی قبروں میں نہیں اُتر جاتے ہو حالانکہ تُم
اپنے مآلِ حیات سے اِس حقیقت کو جان سکتے ہو کہ تُم نے اپنے اِس مال کے
ساتھ ہمیشہ زندہ نہیں رہنا لیکن اگر تُم اپنے اِس مآلِ حیات سے بھی اِس
حقیقت کو نہ جان سکو تو پھر پہلے موت کی تلخی اور بعد ازاں آتشِ جہنم کی
جلن تُم کو یاد دلا دے گی کہ تُمہاری یہ آسائشِ حیات تُمہاری ایک آزمائش
حیات ہے جس کی تُم سے باز پرس کی جاۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ حیات !
مال انسان کی ہر روز کی وہ طلب ہے جس طلب سے وہ ہر روز اپنی اُس بُھوک کی
طلب کو مٹاتا ہے جس بھوک کی جس طلب کی قُدرت نے اُس کے جسم میں ایک خودکار
مشین نصب کر رکھی ہے جو ہر روز اُس کو بتاتی ہے کہ اُس روز اُس کو کتنی
بُھوک ہے اور اُس روز کی بھوک کو مٹانے کے لیئے اُس کو کس قدر مال کی اور
کس قدر کسبِ کمال کی ضرورت ہے ، اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ بھوک کی قُدرت نے
ایک حد مقرر کی ہوئی ہے جس مقررہ حد سے انسان و حیوان دونوں آگاہ ہیں اور
دونوں ہی اپنی بقاۓ حیات کے لیئے روزی کے حصول کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن
کوئی حیوان اِس روزی کی حرص میں اتنا زیادہ مُبتلا نہیں ہوتا کہ وہ دن رات
اپنے لیئے وہ چارہ اور وہ شکار جمع کرتا رہے جس کے استعمال کی نوبت ہی نہ
آۓ ، اگر انسان اُس حد کو ختم کردے جس حد کو ایک حیوانِ ناقص بھی کبھی ختم
نہیں کرتا تو انسان اپنی انسانی سطح سے ہی نہیں گرتا بلکہ وہ ایک حیوان کی
حیوانی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور یہی حال انسان کی اُن دُوسری
ضروریات کا بھی ہے کہ جن کی اُس نے اپنی عقل و فراست سے بھوک اور پیاس کی
طرح ایک فطری حد مقرر کرنی ہے اور پھر اُس فطری حد کے اندر رہنا ہے لہٰذا
اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا میں انسان کو حصولِ مال سے نہیں رو کا گیا بلکہ
اُس کو اُس حرصِ مال و کثرتِ مال سے روکا گیا ہے جو حرصِ مال و کثرتِ مال
اُس کے لیئے اُس غفلتِ مآل کا باعث ہوتی ہے جو غفلتِ مآل اُس کو کسبِ حلال
و سوالِ یومِ حساب سے اِس طرح بے خیال کردیتی ہے کہ جس طرح اُس نے مرنا
نہیں ہے بلکہ ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور ہمیشہ ہی اسی طرح کھاتے پیتے رہنا ہے
، اِس سُورت کے اِس مضمون میں انسان کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر اُس
نے اِس دُنیا میں ایک متوازن انسان کی طرح ایک متوازن حیات بسر کرنی ہے تو
سب سے پہلے اُس کو اِس اَمر کا یقین کرنا ہو گا کہ اُس نے اِس زمین پر ایک
طے شدہ مُدت تک ہی زندہ رہنا ہے اور ایک اچھے طریقے کی زندگی گزارنے کے
لیئے اپنے آج کے لیئے مالِ حلام کمانا اور کھانا بھی ہے اور اپنے کل کے
لیئے وہ مالِ حلال بقدرِ ضرورت بچانا بھی ہے جو اُس کی بیماری اور بے روز
گاری میں اُس کے اور اُس کے بال بچوں کے کام آسکے لیکن اُس کو اپنی سو
پشتوں کے لیئے حلال و حرام کے سارے امتیازات ختم کر کے اتنا مال جمع کرنے
کی اجازت نہیں ہے کہ وہ یہی مال کماتے اور کھاتے ہوئے قبر سے جا لگے اور
پھر موت کے وقت اِس پچھتاوے کے ساتھ موت کی آغوش میں چلا جاۓ کہ اُس کے پاس
تو اُس کے خالق کے پُوچھے ہوئے کسی سوال کا کوئی معقول جواب ہی نہیں ہے اور
اِس غفلت خیالی کے ساتھ وہ اپنے خالق کے پاس جائے تو وہ اپنے خُدا کی فردوس
بریں میں پُہنچنے کے بجائے اُس کی آتشیں حزیں میں پُہنچ جاۓ اِس لیۓ اٰیاتِ
بالا میں انسان کو یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ اُس کے پاس اُس کے سنبھلنے کا
وقت اُسی وقت تک ہے جس وقت تک اُس کی سانس کی ڈوری چل رہی ہے جس وقت اُس پر
اُس کی سانس کی ڈوری کاٹنے والے عالَمِ غیب کے اہل کار ظاہر ہو جائیں گے
اور جس وقت وہ اِس عالَمِ دُنیا سے نکل کر اُس عالَمِ آخرت میں داخل ہو جاۓ
گا جس عالَمِ آخرت میں نئے عمل کا کوئی موقع نہیں ہوگا بلکہ اُس کے پرانے
اعمال کی وہ پرانی جواب دہی ہو گی جس جواب دہی میں اُس کی کامیابی کی ضمانت
اُس کا وہی عملِ دُنیا ہو گا جو عملِ دُنیا اُس انسان نے اللہ کے حُکم کے
مطابق کیا ہوا ہو گا اور اُس کی ناکامی کا باعث بھی اُس کا وہی عملِ دُنیا
ہوگا جو عملِ دُنیا اُس انسان نے اللہ کے حُکم کے خلاف کیا ہو گا اِس لیئے
ہر انسان کو کثرتِ مالِ حیات اور غفلتِ مآلِ حیات کا فیصلہ اِسی دُنیا میں
کرنا ہو گا اور لَمحہِ موت سے پہلے کرنا ہو گا ، اٰیاتِ بالا سے بعض عُلماۓ
تفسیر نے عذابِ قبر پر بھی استدلال کیا ہے اور پھر اپنے اِس استدلال کے حق
میں سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 93 ، سُورَةُالنحل کی اٰیت 28 ،
سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت 99 اور سُورَةُالمؤمن کی اٰیت 45 و 46 کا حوالہ
بھی دیا ہے لیکن اُن اٰیات میں موت کی اُس شدت و سختی کا ذکر کیا گیا ہے جو
جس وقت جس انسان پر اَچانک آتی ہے تو اُس انسان کو ماضی کی وہ ایک ایک
معصیت بھی یاد آجاتی ہے جو اُس کی جاں کنی کی اُس تکلیف پر ایک اور اضافی
تکلیف ہوتی ہے ورنہ جہاں تک انسان کی حقیقی سزا و جزا کا تعلق ہے تو وہ
حسابِ حیات کے بعد شروع ہوتی ہے حسابِ حیات سے پہلے کسی سزا و جزا کا اجرا
نہیں ہوتا کیونکہ موت و محشر کا درمیانی وقفہ انسان پر آنے والا وہ بے
احساس انسانی وقفہ ہے جس بے احساس انسانی وقفے میں تکلیف کا کوئی احساس
دلانے والی یہ بات ایک بے معنی بات ہے اور جہاں تک اِس تاویل کا تعلق ہے کہ
قبر میں ملنے والی جزا و سزا ایک خواب کی طرح ہوتی ہے تو یہ بھی اہلِ روایت
کی ایک روایتی تاویل ہی ہے کیونکہ اِن اہلِ روایت کے اِن ڈراونے خوابوں کا
حسابِ حیات کے بعد ملنے والی اُس خُدائی جزا و سزا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
ہے جو جزا و سزا قُرآن نے بیان کی ہے !!
|