جمعہ نامہ: فرد ، تحریک اور ادارہ

ارشادِ ربانی ہے:’’ خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب ِعظیم ہے‘‘۔یہ تعلیم اس لیے دی گئی ہے کہ لاکھ اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے اہل ایمان کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف کبھی کبھار تفرقہ میں بدل جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے منع کیا گیا ہے۔ تحریک اور باشعور افراد کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ تحریکات اپنےکارکنان کی قدردان ہوتی ہیں اور افراد اپنی تحریک کی خاطربڑی بڑی قربانی پیش کرتے ہیں ۔ آرزو مند تحریکات اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر ادارے بھی بناتی ہیں ۔ اس طرح تحریک کے اندر ایک نیا نظم عالمِ وجود میں آجاتا ہے اور بیک وقت دو متوازی دھارے بہنے لگتے ہیں ۔ تحریک کی مثال ایک بہتے دریا کی ہےاور ادارہ ایک تالاب کی مانند ہوتا ہے۔ وسیع و عریض دریا کے بالمقابل جو لاکھوں لوگوں کو سیراب کرتا ہےتالاب کی مانند ایک محدود ادارے کے مسائل زیادہ مشکل اور سنگین ہوتے ہیں ۔

تحریک کے سارے افراد اس کے اپنے اداروں سے منسلک نہیں ہوتے۔ اداروں سے بے نیاز لوگ تحریک میں رہنے کے باوجود ادارہ جاتی مسائل سے محفوظ و مامون ر ہتے ہیں ۔ اس کے برعکس اداروں سے منسلک لوگوں کو مخصوص اضافی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ عام طور پر تحریکات کے ذریعہ قائم کردہ ادارے کسی فرد خاص کے تسلط سے محفوظ ہوتے ہیں اور اگر کوئی اس کی سعی کرے تو انہیں بچانا نسبتاً سہل ہوتا ہےلیکن ایسے ادارے جو تحریکی افراد نے ازخود قائم کرلیے ہوں ان کے مسائل خاصے پیچیدہ شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک اپنی اخلاقی ذمہ داری، بدنامی کا خوف اور اپنے افراد کی فلاح و نجات کا حوالہ دے کر ادارے پر کنٹرول چاہتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ابتدا تو بدمزگی سے ہوتی ہے مگر پھر الزام تراشیوں کا باب کھل جاتا ہے۔ بات شکوے شکایت سے آگے بڑھ کر مارپیٹ ، گالم گلوچ اور پولس و عدلیہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سرپھٹول کا نتیجہ بالآخر یہ ہوتا ہے کہ جذبۂ خیر خواہی کے تحت بادلِ ناخواستہ تحریک افراد سے اور کارکنان تحریک محروم ہوجاتے ہیں ۔

ان اداروں سے منسلک تحریکی افراد کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ وہ بیچارے تحریک سے وابستگی کا حوالہ دے کر اداروں پر کنٹرول کرناچاہتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ تحریک کے عظیم تر مفاد کی خاطر ادارے پر ان کا تسلط برقرار رہنا ضروری ہے ۔ اس کے لیے وہ تحریک سے جس کشادگی اور اعلیٰ ظرفی کی توقع کرتے ہیں اس کا مظاہرہ خود نہیں کرپاتے ۔ تحریک پر سازش اور دھاندلی کا الزام لگانے والی یہ سعید روحیں خودہر قسم کے سیاسی ہتھکنڈے کے استعمال سے گریز نہیں کرتیں ۔ تحریکی مفاد کا رونا روتے روتے یہ لوگ نادانستہ طور پر تحریک کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ اس کشمکش کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو تحریک کو افراد میں کوئی خاص دلچسپی ہے اور نہ افراد کی تحریک سے کوئی قلبی وابستگی ہے۔ دونوں کی بنیادی دلچسپی اور وابستگی ادارے سے ہے اس لیے وہ اس پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔ یعنی وقت کے ساتھ تحریک اور اس کے افراد پر ادارہ غالب آجاتا ہے۔ اس کی حیثیت بنیادی اور باقی تمام چیزیں ثانوی درجہ میں چلی جاتی ہیں ۔

اس صورتحال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر تحریک اور اس سے وابستہ افراد ادارے پر کنٹرول چاہتے ہیں اور حقیقت میں ادارہ ان دونوں کو اپنے قابو میں لے چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں افراد اگر تحریک کی روح اور اسپرٹ کے مطابق اداروں میں رہ سکتے ہوں تو ٹھیک ورنہ بحیثیت رکن انھیں اداروں سے واپس بلالینا چاہئے ( خواہ ادارہ تحریکی ہو یا نیم تحریکی ) ۔اگر وہ تحریک کے مقابلے ادارے کا انتخاب کریں تو ہمیں ادارہ سمیت افراد سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے۔ ان اداروں سے تحریک کو ملنے والا خیر اتنا بڑا نہیں کہ جتنی توانائی تحریک ان کے مسائل کے حل پر خرچ کرنی پڑتی ہے۔ افراداگر تحریک سے علحٰیدہ رہ کر ادارہ کی خدمت سے اپنی آخرت سنوار لیں تو وہ بھی اچھی بات ہے لیکن یہ لمحات خاصے نازک ہو تے ہیں ۔ قرآن حکیم کی ان آیات کو اگرپیش نظر رکھا جائے تو حالات کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ فرمانِ قرآنی ہے: ’’ قیامت بہرحال آنے والی ہے لہذا آپ ان سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کردیں بیشک آپ کا پروردگار سب کا پیدا کرنے والا اور سب کا جاننے والا ہے ‘‘۔ دونوں فریقوں کے سامنے اگر آخرت مستحضر رہے اور وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے عفو درگزر کا معاملہ کریں تو اختلاف اور جدائی کو انتشار و بدمزگی میں تبدیل ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔یہ امت کا ایک بڑا مسئلہ ہے رب ذوالجلال اس طرح کے شرمیں سے خیر برآمد فرمائے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1456265 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.