جب کبھی سکولوں، کالجوں اور ان اداروں سے فارغ طلبا کی
ڈگریوں اور عملی کارکردگی کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو آج کے ہمارے حادثاتی
ماہرین تعلیم بڑے دبنگ انداز میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص تعلیم یافتہ تو ہے
مگر اس میں تربیت کی کمی ہے۔مجھے یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے۔تعلیم کو سمجھنے
اور جاننے والے لوگ شاید یہ بات نہ کہیں کیونکہ جس چیز کا نام تعلیم ہے
تربیت اس کا ایک لازمی جزو ہے۔ تربیت کے بغیر تو تعلیم ادھوری ہے۔ دنیا کا
کوئی بھی کام اپنی عملی شکل کے بغیر نا مکمل ہی سمجھا جاتا ہے۔وہ علم جو ہم
بچوں کو سکولوں اور کالجوں میں دیتے ہیں وہ خواندگی ہے ، لکھنے، پڑھنے اور
گننے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ خواندگی کا مقصد بچوں کو ماضی میں ہوئی چیزوں سے
روشناس کرانا اور مستقل کی کامیابیوں کے بارے سوچ بچار دینا ہوتا
ہے۔خواندگی تعلیم کا ایک بہترین معاون جزو ہے مگر لازمی نہیں۔مولانا مودودی
عصر حاضر کے عظیم مدبر اور مفکر تھے۔ غالباً میٹرک تھے۔مگر اس قدر تعلیم
یافتہ تھے کہ کوئی ان کی علمیت سے انکار کر ہی نہیں سکتا بلکہ بہت سے اہل
علم ان کی زندگی سے، ان کے عمل سے اور ان کی کتابوں سے ہدایت پاتے
ہیں۔بنگال سے تعلق رکھنے والا رابندر ناتھ ٹیگورجس کو دنیا نے پچھلی صدی کا
بہترین انسان قرار دیا ہے ،کبھی سکول نہیں گیالیکن بہترین شاعر، فلاسفر ،مصنف،
اداکار، نغمہ نگار، کہانی نویس، موسیقار، ہدایت کاراور بہت تعلیم یافتہ تھا۔
ایڈیسن جس نے بلب، مووی کیمرہ اور ٹیلکس سمیت ساڑھے بارہ سو ایجادات اس
دنیا کو دیں، کبھی سکول نہیں گیا تھا،مگر کمال تعلیم یافتہ تھا۔کس کس کی
بات کروں، ہزاروں لوگ ایسے نظر آتے ہیں جو بہت تعلیم یافتہ تھے مگر کسی بھی
سکول یا تعلیمی ادارے سے بالکل بھی واقف نہ تھے۔
تعلیم ہے کیا ؟یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔تعلیم اصل میں ایک طرز
زندگی ہے۔اچھا بولنا، اچھا کہنا، اچھی بات کرنا اور سننا، فضولیت سے پرہیز
کرنا،سلیقے سے اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا۔اچھا انسان ہونا ۔اچھا شہری ہونا،
یہ سب اس طرز زندگی کی خوبیاں ہیں جو آپ کو تعلیم یافتہ ثابت کرتی ہیں۔یہ
رو یہ اور ایسا طرز زندگی کسی ڈگری کے محتاج نہیں ہوتے۔یہ سب کچھ آپ اپنے
والدین،اپنے بہن بھائیوں، اپنے دیگر گھر والوں، اپنے ہمسایوں، اپنے محلہ
داروں، اپنے عزیزواقارب اور معاشرے سے سیکھتے ہیں۔اگر آپ کے احباب میں اچھے
لوگ ہیں تو آپ اچھا سیکھیں گے اور تعلیم یافتہ کہلائیں گے ۔ اگر آپ کے ارد
گرد اچھے لوگ نہیں ہونگے تو آپ کا ہر قدم غلط راہ پر اٹھے گا اور آپ جاہل
تصور ہونگے، چاہے آپ نے کاغذی ڈگریوں کا انبار ہی خود پر لادا ہی کیوں نہ
ہو۔ایک بات اور یاد رکھیں کہ جب آپ کسی چیز کو دیکھیں اور آپ کے ذہن میں
فوراًً یہ خیال آئے کہ یہ کیا ہے، کیوں ہے ، کس طرح ہے تو یہ تجسس ثابت
کرتا ہے کہ آپ تعلیم کے متلاشی ہیں۔اس کا حصول چاہتے ہیں۔
ؑERIC HOFFER کہتے ہیں کہ تعلیم کا بنیادی مقصدآپ کے اندر سیکھنے کی حس اور
چاہت پیدا کرنا ہے۔تعلیم پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ نہیں بلکہ پڑھنے
والے ، تعلیم کے متلاشی لوگ تیار کرتی ہے۔ تعلیم ایک ایسی سوسائٹی تخلیق
کرتی ہے جس میں باپ، بیٹا اور پوتا باہمی مل کر ایک دوسرے سے سیکھتے اور
سکھاتے ہیں۔
EMMA GOLDMAN کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ بچے کی روح میں کس
قدر نرمی، پیار، محبت اور ہمدردی چھپی ہوتی ہے ۔تعلیم کا مقصد اسی چھپے
ہوئے خزانے کی تلاش ہے۔
ANY RAND کے مطابق تعلیم کا بنیادی مقصدبچے کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے
ہوئے ، اسے دنیا کی حقیقتوں سے آشنا کرکے ایک اچھا طرز زندگی دینا اور اس
کی عملی تربیت کرنا ہے۔ اسے سوچنے، سمجھنے اور کسی نتیجہ پر پہنچنے کے قابل
بنانا ہے۔ اسے ماضی کے علم سے روشناس کرانا اور مستقبل کے علم کے بارے
تحقیق کا بتانا ہے۔
BISHOP GREIGTON کے بقول تعلیم کا مقصد انسان کے ذہن کو جلا بخشنا اسے لگا
تار سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت عطا کرناہے۔
CAROL ANN TOMLINSON کہتے ہیں کہ سکول کا واحد مقصد بچے کے ذہن میں چھپی
ہوئی مخفی قوتوں کو اجاگر کرکے اچھے نتائج حاصل کرنے کے قابل بنانا ہے۔
ان ساری باتوں کے بعد میں اتنا کہوں گا کہ
1 ۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو ہمیں نالج دیتا ہے، سکل دیتا ہے۔
2 ۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو ہماری ذہانت بہتر کرتا ہے۔
بچے کو تعلیم دینا اس کے والدین، معاشرے اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ایک اچھے اور فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے بچوں کی بہتر تعلیم انتہائی
ضروری ہے اور ہمیں سب کو اس کے لئے کاوش کرنا ہو گی۔
تنویر صادق
|