تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس (بچوں کا ادب، ماضی، حال اورمستقبل)، تاثرات اور تجاویز

تحریر: ذوالفقار علی بخاری

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم نے قیام پاکستان سے آج تک ان نونہالوں کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا ہے۔

ہم نے گزشتہ برسوں میں ایسا خاص لائحہ عمل مرتب نہیں کیا ہے کہ جو بچے اسکول نہیں جا سکتے ہیں ان کو کم سے کم پڑھنا لکھنا ہی سکھا دیں۔اس کے لیے بہترین عمل یہ تھا کہ ایسے بچوں کو ہم بچوں کے لیے لکھا جانے والا ادب ہی مہیا کر دیتے تو وہ کم سے کم وہ شعور حاصل کر سکتے جو بہتر زندگی گزارنے کے لئے ضروری تھا۔
بچوں کو اگر پڑھنے کے لیے کہانیاں اورنظمیں دے دی جاتیں توہم آج پاکستان میں شرح خواندگی سو فیصد دیکھ سکتے تھے۔ اس کے لیے بچوں کا اسکول جانا ضروری نہیں تھا وہ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ سرکاری طور پر ملنے والے رسائل یا کتب کی بدولت کم سے اپنی ذات کو مزید بہتر بنا سکتے تھے اورملک کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکتے تھے۔نونہالوں کے بعد ادب اطفال کو بھی قیام پاکستان کے بعد سرکاری سطح پر وہ اہمیت حاصل نہیں ہو سکی جوملنی چاہیے تھی لیکن برسوں بعد اولین تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس(بچوں کا ادب: ماضی، حال اورمستقبل) کی کامیابی نے ماضی پر یوں پردہ ڈالا ہے کہ تلافی ہوگئی ہے۔31اکتوبر سے 2نومبر2022تک مختلف موضوعات پر ملک بھر سے آئے اسکالرز، ادیبوں اورنامور شخصیات نے بچوں کے ادب کے حوالے سے قیمتی گفتگو کی جس کی روشنی میں اگر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تو قوی یقین ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ادب میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔

اس کانفرنس میں مختلف اسکولوں کے بچوں نے شرکت کرکے کامیاب ترین بنا دیا ہے۔ ان بچوں کی شرکت اوردل چسپی بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس شاندار کامیابی پر جناب انجینئر امیر مقام (مشیر وزیر اعظم برائے سیاسی، عوامی اور قومی ورثہ و ثقافت ڈویڑن)، فارینہ مظہر(سیکرٹری ورثہ و ثقافت ڈویڑن) اور ڈاکٹر یوسف خشک (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان) بھرپور داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بچوں کے ادیبوں کی ایک دیرینہ خواہش کو پورا کیا اورانھیں بہترین سہولیات کے ساتھ ایسا موقع فراہم کیا کہ وہ بچوں کے ادب کے حوالے سے اہم امور کو سمجھ سکیں،بچوں کے لیے مزید بہتر ین ادب تخلیق کر سکیں اورادب اطفال کے فروغ میں اپنا کردارادا کرسکیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹریوسف خشک نے بچوں کے ادب کے حوالے سے کانفرنس کے انعقاد کاسوچا تو قسمت کی دیوی اُن پر یوں مہربان ہوئی کہ ان کو محسن ادب اطفال بنا گئی ہے۔اکادمی ادبیات پاکستان کے قیام کے بعد سے اگرچہ ادب کے فروغ کے حوالے سے کئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے جا چکے ہیں لیکن بچوں کے ادب کے حوالے سے تین روزہ کانفرنس(بچوں کا ادب: ماضی، حال اورمستقبل) کی بدولت جناب انجینئر امیر مقام، فارینہ مظہراور ڈاکٹر یوسف خشک کا نام ادب اطفال کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا ہے۔

جن اسکالرز، قلم کاروں اورشعراء نے اپنے مقالہ جات، کہانیوں اورشاعری کوپیش کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اوران کی کتابی صورت میں اشاعت مستقبل کے مورخ کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوگی۔جن بچوں نے اس میں شرکت کی وہ یقینی طور پر مطالعے کی اہمیت کو جاننے کے بعد کتاب سے جڑے رہنے کو ترجیح دیں گے۔اس کانفرنس کی بدولت کئی نونہالوں کو کتاب، رسالے اورمطالعے کی اہمیت کا بھی احساس ہوا ہے جس کا مشاہدہ براہ راست راقم الحروف نے کیا ہے۔ یہ بے حد خوش آئند بات ہے کہ دورحاضر میں بچے کتاب دوست بننا چاہتے ہیں۔اس حوالے سے ایک تجویز اکادمی ادبیات پاکستان کو دینا چاہوں گا کہ آیندہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام بچوں کو کتاب یا رسائل بطور تحفہ دیا جائے تاکہ وہ مستقبل میں شرکت کرنے کے لیے اپنے والدین سے خود درخواست کریں۔اس طرح کی کانفرنس میں شرکت کرنے سے ان میں خود اعتمادی بھی آئے گی اوربچوں کو بہترین کہانیوں اورنظموں کو سننے کا موقع بھی ہاتھ آئے گا۔

اس تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں ایک کمی محسوس ہوئی کہ بچوں کے ادب کے فروغ میں اخبارات کے کردار پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے اس پر بات کرائی جانی چاہیے تاکہ اخبارات مالکان بچوں کے صفحات اپنے اخبارات میں شائع کریں۔ اس حوالے سے اگر مقامی یا قومی سطح کے ا خبارات کے ڈیکلریشن کے قوانین میں تبدیلی لا کریہ قانون بنا دیا جائے کہ ہر شائع ہونے والے اخبار میں بچوں کا ایک صفحہ ہر ماہ کم سے کم دور بار شائع ہوگا تو یہ بھی بچوں کے ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 526176 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More