کراچی‘ جو اِک شہرِ بے مثال تھا

انسانی معاشرے جب گھٹن سے عبارت ہونے لگیں اور انسانی رویے زنگ آلود ہوکر زندگیوں کو تعفن زدہ کرنے لگیں تو ایسے میں انسان تو کیا درندے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ انسانی قدریں دم کھونا شروع ہو جائیں اور انسان‘ حشرات الارض کی سطح سے بھی نیچے جاکر سوچنے لگیں تو پھر اہلِ فکر انہیں ”دو پایہ حشرات الارض“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ جو کبھی انس و محبت اور رواداری کا ایک بہترین نمونہ تھا کیونکر ایسا ہوا کہ یکا یک نفرت کی چنگاریوں کی زد میں آگیا ہے۔ یہاں کون کس کی صلیب پر چڑھ رہا ہے کوئی نہیں جانتا ۔ کراچی ہی کو لیجئے یہ جو شہر بے مثال تھا۔ روشنیوں کا شہر تھا‘ خوبصورتیوں کا شہر تھا‘ عقل و شعور کا شہر تھا۔ جو رئیس امروہوی کا شہر تھا‘ جو جون ایلیا کا شہر تھا۔ جو حکیم سعید کا شہر تھا‘ جو صلاح الدین کا شہر تھا۔ ایسا کیا ہوا کہ یہ روشنیوں اور دیئے جیسے لوگ ایک ایک کرکے راستے سے ہٹا دیئے گئے جون ایلیا تو خیر طبعی موت مرے وہ بہر کیف کراچی کا ایک حوالہ تھے۔ جمیل الدین عالی ‘ حمایت علی شاعر‘ ‘ صہبا اختر‘ بھی تو حوالہ ہیں یہ سب لوگ جو اَب اس دنیا میں ہیں یا نہیں ہیں ۔ سندھ اور کراچی کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا بھی حوالہ ہیں۔

کراچی کی جو حالت ہے وہ کسی انسانی معاشرے کی تو ہو نہیں سکتی۔ یہ اسلحے کی بھرمار‘ یہ امنِ عامہ کی ناگفتہ بہ حالت‘ یہ پولیس کی بے بسی اور یہ روز روز کی ٹارگٹ کلنگ۔ کراچی جو شعر و ثقافت کا علمبردار تھا آج دنیا بھر میں نقصِ امن کے حوالے سے سرِ فہرست ہے ۔ اس میں جہاں انسانی رویے دم توڑ چکے ہیں وہاں اس شخص کی ثقافت پارہ پارہ کی جارہی ہے۔ ایک عورت کے بہت سارے شوہر میدانِ عمل میں آجائیں تو یقیناً امن کا معاملہ بنتا ہی ہے۔ ہر کوئی کراچی کا ”ماما“ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ کراچی پر اپنا کنٹرول کرکے ایک کروڑ سے زیادہ شہریوں کو یرغمال بناکر رکھنا چاہتا ہے۔یہ سب ”سٹیک ہولڈرز“ انسانوں کی طرح کیونکر نہیں رہ سکتے۔ کیا کراچی میں ایک بھی ”انا ہزارے“ نہیں ہے جو اپنے لوگوں کے لئے صدقِ دل اور نیک نیتی سے باہر آکر اپنا کردار ادا کرے۔ کسی آبادی میں کبھی کوئی قتل ہوا کرتا تھا تو فضا غمگیں اور غبار آلود ہو جایا کرتی اور کئی کئی میل دوربسنے والے لوگ بھی اس خدشے کا اظہار کرتے کہ آسمان سرخ ہوگیا ہے کہیں کوئی قتل تو نہیں ہوا۔ لیکن آج کراچی میں تو انسانوں کو اس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے کہ جس طرح بچے بھی کسی پھٹے پر دھاگے سے بندھے غباروں کو نشانہ نہیں بناتے۔ کیا ان لوگوں کو یہ جو کوئی بھی ہوں کو اپنی عاقبت کی فکر نہیں ہے۔ انسان کا کوئی تو مذہب کوئی تو عقیدہ ہوتا ہے۔ کسی بھی مذہب اور فرقے میں انسانوں کو اسطرح چھلنی کرنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔

کراچی پورے پاکستان کا دل ہے اور پاکستان کی کمزور معیشت کے لئے اس نے ہمیشہ ایک ”آکسیجن ماسک“ کا کام کیا ہے لیکن ایسا کیا ہوا کہ آج خود آکسیجن ماسک ہی چھلنی چھلنی ہے۔ کون کس کے ہاتھوں مارا جارہا ہے کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی جانتا بھی ہے تو اُس کا نام لینے کی کوئی جرات نہیں کرسکتا کہ شام سے پہلے پہلے وہ اس کا پورا خاندان کسی کٹی پہاڑی پر کٹا پڑا ہوا ہوگا۔ یا اس کے لوتھڑے لیاری کی کسی گلی میں بکھرے پڑے ہوں گے۔ صہبا اختر نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال کے لئے کہا تھا۔
میں تمہیں مار دوں تو تم ہو شہید
تم مجھے مار دو تو میں ہوں شہید
ہم سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
ہم سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں

صاحبِ طرز شاعر ‘ رئیس امروہوی کا قتل کراچی میں ہونے والا کوئی بھی پہلا ”ہائی پروفائیل“ قتل تھا۔ اس کے بعد تو گویا لائن لگ گئی۔ تکبیر والے صلاح الدین کو مارا گیا تو پھر حکیم سعید کو راستے کا پتھر سمجھ کر ہٹا دیا گیا۔ نہ رئیس امروہوی کے قاتلوں کو سزا ملی تو نہ کسی اور کے قاتلوں کو نشانِ عبرت بنایا جاسکا۔ جس معاشرے میں جزا اور سزا کا کانسپٹ ختم ہو جائے اور شریف لوگ اپنی جانیں چھپاتے پھرتے ہوں۔ ہر طرف لینڈ مافیا اور بھتہ مافیا کا راج ہو‘ جرائم پیشہ لوگ دندناتے پھرتے ہوں اور معاشرے میں قابلِ عزت و تکریم گردانے جاتے ہوں اُس میں سے خیر کا پہلو ختم ہو جاتا ہے۔ سیاست ایک ایسا ملکی نظام ہوتا ہے جسے شہریوں کی بہتری کے لئے استعمال میں لایا جانا چاہئے لیکن کسی ایک خاص گروہ کی خوشنودی کے لئے سیاسی فیصلے کئے جا نے خوش آئند نہیں ہوا کرتے۔

یوں لگتا ہے جیسے پوری قوم ’آئی سی یو‘ میں ہے۔ کوئی چھوٹے اور کوئی بڑے آپریشن کے انتظار میں پڑا ہوا ہے۔ کراچی میں ایک آپریشن نصیر اﷲ بابر نے بھی کیا تھا۔ باقی چھوٹے موٹے آپریشن کراچی میں موجود گروپ خود بھی کرتے رہتے ہیں۔ جب تک معاشروں میں یہ قدریں نہیں پنپتیں کہ جن کی بدولت قوم میں سچ کہنے اور سچ سننے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے تب تک معاملات کے سدھرنے کا کوئی پہلو اُجاگر نہیں ہوسکتا۔ جس قوم کی تباہی یقینی ہو اُس قوم میں فیصلہ کرنے اور انصاف کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ انصاف ختم ہو تو معاشرے کا ٹائی ٹینک ڈوبنے لگتا ہے۔ بقول عطاءالحق قاسمی:
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے

دوسری جنگِ عظیم میں سقوطِ فرانس کے بعد جب برطانیہ جرمنی کے شدید حملوں کی زد میں تھا تو وزیرِاعظم برطانیہ ولنسٹن چرچل نے ایک تاریخی جملہ کہا ”جب تک برطانوی عدالتیں انصاف دیتی رہیں گی اس ملک کو شکست نہیں ہوسکتی“ کاش ہماری قوم اور رہنما بھی پاکستانی معاشرے کے حوالے سے کوئی ایسا تاریخی جملہ کہہ سکتے۔ کراچی میں خوف کا راج ہے۔ آئے روز کاروباری استطاعت رکھنے والے لوگوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ جب ریاست خدانخواستہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے تو پھر کس کا ٹیکس دینے کو جی چاہے گا اور کون کسی دوسرے کے لئے قربانی دے گا۔ باقی رہی بات غریب آدمی کی تو اسے کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں ”پوائنٹ سکورنگ“ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے شرم اور حیرت کی بات ہے کہ اب میڈیا ایک ایک دو دو گھنٹوں کے حساب سے کراچی میں لاشوں کے گرنے کے اعداد و شمار بتا رہا ہوتا ہے۔ کیا ہم ’اپاچیوں‘ کے کسی دور میں رہ رہے ہیں یا کسی جنگل میں آباد ہیں۔ یہ معاشرہ کسی طور سے تو اسلامی اور جمہوری معاشرہ دکھائی دینا چاہئے تھا۔ کاش اس معاشرے کو درندوں اور چوپایوں کے بجائے انسان میسر آجائیں اور وہ انسان جن کو اﷲ کریم نے اپنا نائب کہا تھا وہ میسر آجائیں جو ہزاروں کے مجمع میں کھڑے ہو کر مجرم کو مجرم کہہ سکیں۔ اور مظلوموں کی داد رسی کرسکیں۔ کیا کسی وادی میں ہرن اور بھیڑیئے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر اجمل نیازی:
ہجر دیاں طوفاناں دے وچ عمر گذاری جاندی اے
غیرآباد مکاناں دے وچ عمرگذاری جاندی اے
عمرگذاری جاندی اے پر ایہہ غم وی کجھ تھوڑا نئیں
کہیو جئے انساناں دے وچ عمر گذاری جاندی اے

مطلب انسان اکلاپے اور خالی مکانوں میں بھی زندگی بھر کرسکتا ہے لیکن اصل غم یہ ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے انسانوں کے درمیان زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

اب کراچی میں بسنے والے اپنے گھروندے چھوڑ کر کہاں جائیں وہاں رہنا ان کا حق ہے اور یہ حق کوئی سیاسی گروہ یا شدت پسندگروپ اُن سے نہیں چھین سکتا۔ یہ سمجھنے کی بہرکیف ضرورت ہے کہ کراچی کا مسئلہ ہے کیا؟ کراچی کا معاملہ صرف اور صرف لاءاینڈ آرڈر صحیح کرنے سے مشروط ہے۔ وہاں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اختیارات ہونے چاہئیں جو سیاسی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر شہریوں کی بہتری کے حوالے سے سوچے اور عملی اقدامات بجا لائیں۔

کراچی میں ظلم کی انتہا ہو چکی ہے اس برس جنوری میں125‘ فروری میں92‘ مارچ میں220‘ اپریل میں166‘ مئی میں144‘ جون میں215 ‘ جولائی میں325 اور اگست کی 22 تاریخ تک 189 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔ کیا کسی بھی انسانی معاشرے کا یہی چال چلن ہوا کرتا ہے۔ اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کیوں اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔
دنیا میںقتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں صرف سیاسی جماعتیں ہیں لیکن بعض جماعتوں نے بہ وجو ہ اپنے Militantہ ونگزبنا رکھے ہیں ۔ بعض سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو بنیادی طور پرایک Militant گروپ ہیں اور ساتھ ان کا ایک سیاسی ونگ بھی ہے۔ ملکی سیاست میں جب حکومتیں ایسے گروپوں اور گروہوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہیں گی حالات نہیں سدھریں گے۔ ماضی میں ایسے بھی واقعات سامنے آئے کہ جب کراچی میں آپریشن میں شامل پولیس و دیگر اداروں کے اہلکاروں کو چُن چُن کر مارا گیا اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں تھا۔ معاملات کیونکر ٹھیک ہوں گے جس معاشرے میں ایس ایچ او لگانے کے لئے تھانے بکتے ہوں اور پولیس کے اندر آٹے میں نمک کے برابر جو پروفیشنل‘ دیانتدار اور بہادر افسر موجود ہیں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہو تو پھر پولیس بحیثیت ایک ادارے کے کیونکر کامیاب ہوسکتی ہے۔ کراچی پولیس کے تو انسپکٹر جنرل خود اس کا اعتراف ایک سے زیادہ مرتبہ کرچکے ہیں کہ پولیس کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات درپیش ہیں اول تو پولیس کسی مجرم کو پکڑنے کی جرات ہی نہیں کرتی اور اگر وہ غلطی سرزد کربیٹھے تو متعلقہ پولیس آفیسر کا وہ حشر کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے۔ باقی رہ گئی رینجرز تو اُسے ایک واقعہ سرزد ہونے پر اس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا جیسے خدا نخواستہ پوری کی پوری رینجرز ہی لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارنے میں لگی ہوئی ہے۔ رینجرز نے کراچی میں امنِ عامہ کی بحالی میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ رینجرز کے سینکڑوں نوجوان امن عامہ کی بحالی میں اندھی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مثبت تنقید عوام کا حق ہے لیکن جب کسی خاص ایجنڈے کے تحت سیکورٹی اداروں کو بدنام کیاجائے تو معاملات سنورنے کی بجائے بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ کراچی جیسے معاملات کی حل کے لئے فوج کو بلانا کوئی دیرپا حل نہیں ہوگا۔ فوج آئے گی‘ معاملات ٹھیک بھی ہو جائیں گے لیکن فوج کے واپس جاتے ہی جب ”پولیٹیکل وِل“ دکھائی نہ دے اور سول ایڈمنسٹریشن موثر انداز میں معاملات کو نہ سنبھال سکی تو پھر حالات ویسا ہی رخ اختیار کرجاتے ہیں۔ مسائل کا ”لانگ ٹرم“ حل صرف اہل اور دیانتدار لوگوں کے پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے سے مشروط ہے۔ انہیں فری ہینڈ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کراچی میں امن عامہ کی صورت حال یکسر بہترنہ ہو۔ لیکن اس کے لئے” انسانم آرزو است “ (مجھے انسان کی تلاش ہے) کے مصداق دردِ دل رکھنے والے سیاسی رہنماﺅں‘ سول سوسائٹی کے اراکین اور ہر ہر مکتبہ فکر کے نمائندوں کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کے حوالے سے لوگ مایوس تو نہیں بہرحال آزردہ ضرور ہیں۔ وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جن کا انتظار ہے۔ راقم کا ایک شعر شاید اسی قحط الرجال کی نشاندہی کرتا ہے۔
شہر دے لوکی لڑ لڑ مرگئے کتھے گئے سیانے لوک
اوکھے ویلے کم نہ آئے جانے تے پہچانے لوک
Yousaf Alamgirian
About the Author: Yousaf Alamgirian Read More Articles by Yousaf Alamgirian: 51 Articles with 94256 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.