خواتین کی عیدالفطر کی تیاریاں

عید الفطر کا سنتے ہی ساری دنیا کے مسلمانوں کے ذہن میں سب سے پہلا لفظ جو آتا ہے وہ ہے خوشی اور کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوارجس کو پورے اہتمام سے منانا ہم سب کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ رحمتوں اور برکتوں والے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد عید کی صورت میں جو خوشیوں کی سوغات ملتی ہے اِس کی اہمیت ایک مسلمان روزہ دار ہی سمجھ سکتا ہے۔ اِس خوشیوں بھرے دن کے لیے ہر گھر میں بڑھ چڑھ کر اہتمام کیا جاتا ہے اور اِس اہتمام میں گھر کی صفائی سجاوٹ اور سب سے بڑھ کر کپڑوں کی تیاری سرفہرست ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ رمضان بازار میں لگائے گئے اسٹالوں پر خواتین کا ہجوم روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔جوں جوں عید قریب آرہی ہے ۔ خواتین میں خریداری کے رجحان میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ اکثر خواتین خریداری کا آغاز رمضان سے پہلے ہی شروع کردیتی ہیں کیونکہ گھریلو ذمہ داریوں کے بڑھ جانے کے باعث رمضان کے آخری عشرے میں خریدوفروخت تھکن کا سبب بنتی ہے تاہم آخری لمحوں تک کچھ نہ کچھ لینا باقی رہ جاتا ہے۔ مثلاً چوڑیاں ، مہندی ، جوتے وغیرہ ۔ عید کے دن نزدیک آتے ہی ہر گھر میں افراتفری کا ماحول نظر آتا ہے۔ عید کی شاپنگ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ہر طبقہ اپنی بساط سے بڑھ کر خریداری کرتا ہے۔ روزہ کھلنے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے تاکہ بازاروں کی طرف رُخ کیا جا سکے پھر رات دیر تک گھر سے باہر بھی رہا جاتا ہے۔ ویسے یہ بے ترتیبی اپنے اندر ڈھیر سارا حُسن رکھتی ہے اور ہمارے لئے ہر سال کے اِس تہوار کو یادگار بنا دیتی ہے۔

لباس کی تیاری:
عید کی با ت ہو اور خواتین کے لباس کا ذکر نہ کیا جائے تو عید کا تصوّر ہی ماند پڑجاتا ہے۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین عید کے موقع پر مختلف اور جاذ بِ نظر دکھنا چاہتی ہیں۔خوشیوں کے تہوار آئیں تو سَجنے سنورنے کی خواہش ہوتی ہے۔ گئے وقتوں کا سولہ سنگھار اور طرح کا ہوتا تھا اب ماڈرن دور میں لباس کی تراش خراش اور ایمبرائیڈری میں نفاست کے ساتھ ساتھ مہارت اور دلآویزی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ عید کے کپڑوں کی تیاری کا مرحلہ ہو تو ہر خاتون کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے۔ آج کل کونسا رنگ فیشن میں ہے؟ کیسا کپڑا پہنا جا رہا ہے؟ سلائی کے کیسے انداز اپنائے جا رہے ہیں اور گلوں کے ڈیزائن کیسے بن رہے ہیں۔ لیکن اِن سے پہلے یہ سوال توجہ طلب ہے کہ مجھ پہ کیا جچتا ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج جس قدر کپڑے کا فیبرک کا مٹیریل، کوالٹی ،رنگ، اسٹائل اور سلائی کڑھا ئی کے طریقوں میں جدیدیت اور نیا پن نظر آرہا ہے اتنا شاید کسی دور میں نہیں تھا یہاں تک کہ خریداری کے لئے اگر بازار جایا جائے تو بعض اوقات یہ سمجھ نہیں آتا کہ کیسا کپڑا خریدیں ۔ کون سا رنگ لیں اور سلوائیں کس انداز سے۔ تاہم یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا امتحان ہی ہوتا ہے۔ ذرا سے ڈیزائننگ اور اپنی شخصیت کا موازنہ کرتے ہوئے اگر لباس تیار کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ آپ مختلف نظر آئیں گی۔ عید کے دنوں میں بازاروں میں ریڈی میڈ گارمنٹس جا بجا نظر آتے ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ درزی ہو یا درزن رمضان شروع ہوتے ہی آرڈر لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ بازار میں دستیاب ریڈی میڈ گارمنٹس بلاشبہ خوبصورت نظر آتے ہیں لیکن اَسی فیصد کپڑوں کا فیبرک معیاری نہیں ہوتا۔ جلد بازی میں خوبصورت تراش خراش بنایا گیا جدید انداز کا سوٹ خرید بھی لیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ ایک دھلائی میں ہی خراب ہو جائے۔ لِہٰذالباس کے انتخاب میں کپڑوں کے مٹیریل کو خاص اہمیت دیجےے۔ سادہ لباس مگر معیاری ہو تو آپ کے حسن ِ ذوق کو فوراً داد مل جائیگی اور سراہنے والی ایک ہی نظر آپ کو اعتماد کی بے پایاں دولت دے جائیگی۔

اگر آپ اِس عید پر ریشمی لباس کا انتخاب کرنا چاہتی ہیں تو جامہ وار، کتان بنارسی ، کمخواب اور شیفون سب پر ہی موجودہ فیشن کے لحاظ سے تیار کیا گیا لباس غضب کا لگے کا۔ ساتھ ہی لان ، کاٹن ، کھڈی کے ساتھ شیفون ، جارجٹ کے دوپٹے والے سوتی ملبوسات بھی بہترین ہیں۔ قمیضوں کی لمبائی زیادہ ہے جب کے گلے کے ڈیزائنوں کی اگر بات کی جائے تو بلوچی ، کشمیری کڑھائی والے گلے فیشن میں اِن ہیں۔ ایئر لائن کھلے چاک والی قمیضیں اور فراک نما بند چاک والی قمیضیں پہنی جارہی ہیں۔ دوپٹوں پر جدید طرز کی پیکو موتی کا کام اورلیس کی پائپن کروائی جارہی ہے۔ شلواریں فیشن سے بلکل آﺅٹ ہیں ۔ چوڑے پائنچے والے پاجامے لمبی قمیضوں کے ساتھ بہت جچتے ہیں۔ کہیں کہیں ڈیزائنر شاپس پر پٹیالہ شلواریں پھر نظر آنے لگی ہیں۔ دھاگے کے کام والی لیسیں لباس کو دیدہ زیب بنا دیتی ہیں۔ بیل بوٹم آستین اِن کپڑوں کے ساتھ بنوائی جاتی ہے۔ بغیر آستین کے قمیض بھی رواج بنتے جارہے ہیں۔ تاہم کچھ روایت پسند گھرانوں میں خواتین اپنے ستر کا بطور خاص خیال رکھتی ہیں۔ کم از کم وہ خواتین جہاں شرعی پردہ کی پابندی اختیار کر کے دنیا و آخرت سمیٹتی ہیں وہیں غیر ضروری بالوں کی افزائش کے بعد ویکسنگ وغیرہ کی جھنجھٹ سے بھی بچ جاتی ہیں۔

اچھا نظر آنا آپکا حق ہے۔ لباس وہ انتخاب کیجیے جو آپ کی شخصیت میں اعتما د پیدا کرے ساتھ ساتھ نفاست بھی نظر آتی رہے اور رنگوں سے لے کر اسٹائل تک آپ کسی مرحلہ پر بھی سلیقہ اور مہارت کے محاذ پر پسپا نہ ہوں۔

مہندی:
عید الاضحی پہ کام کاج کی مصروفیات میں مہندی لگانا کسے یاد رہتا ہے۔ لیکن عید الفطر میں مہندی لگانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ عید سے دو تین روز قبل گلی محلے میں بنے پارلر کے باہر تنبوں بندھے نظر آتے ہیں جہاں مہندی لگانے والی ماہر خواتین اور لڑکیاں بہت کم پیسوں کے عوض اپنی بہنوں کے ہاتھوں میں مہندی کے خوبصورت رنگ بھرتی ہیںجس کی خوشبوﺅں سے عید کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔ عید پر مہندی بہت ذوق و شوق کے ساتھ ہاتھوں اور پیروں پر لگائی جاتی ہے۔ موجودہ جدت کے دور میں مختلف ملکوں کے ڈیزائن لگائے جاتے ہیں جن میں عربی، افریقی، پاکستانی اور انڈین زیادہ مقبول ہیں۔ عربی مہندی کے ڈیزائن آدھے ہاتھ پر بنائے جاتے ہیں۔اِن میں زیادہ تر پھول ، پتے اور صراحی دار ڈیزائن ہوتے ہیں۔ جبکہ افریقی سوڈانی مہندی اسٹائل میں باریک لائنیں ، نقطے اور مختلف اشکال شامل ہوتی ہیں۔ پاکستانی اور انڈین مہندی کے اسٹائل کی مہندی لگانا وقت طلب کام ہے۔ کیوں کے ہاتھ بھرا ہوا نظر آتا ہے تو ہر کونے کی فلینگ پہ توجہ دی جای ہے۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی مہندی کا رنگ گاڑھا اور دیرپا ہو۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ مہندی سوکھنے کے بعد اُسے کھرچنے اور پانی سے دھونے سے اجتناب کیا جائے بلکہ کسی بھی تیل اور روئی کی مدد سے سوکھی مہندی کو ہاتھ سے اُتار لیا جائے۔ اِس کے علاوہ ایک پیالی میں لیمن جوس ڈالیں اور اِس میں تھوڑی سی چینی مکس کریں کہ وہ گاڑھا پیسٹ بن جائے اِس لیکویڈ کو کاٹن کی مدد سے مہندی کے اوپر لگائیں ۔ جتنی دیر یہ شیرہ مہندی پر لگا رہے گا اتنا ہی زیادہ رنگ آئے گا۔

توے کے اوپر چند لونگ رکھیں اور اِن کو ڈھکن سے کور کر کے بھاپ بننے دیں ۔ جب مہندی خشک ہو جائے تو ہاتھوں پر بھاپ لیں۔ اِس سے بھی مہندی کا رنگ زیادہ ہوتا ہے۔ ہاتھ دھونے کے بعد ویکس لگا ئیں۔ ایک برتن میں پانی لیں اور اِس میں ڈسپرین حل کر کے ہاتھ سے مہندی اتار کر اِس پانی میں چند منٹ ڈبوئیں۔
جب مہندی خشک ہو جائے تو اِس پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں۔ مہندی کا رنگ زیادہ دن بر قرار رکھنے کے لئے جب غسل کریں یا پانی سے کام کرنا ہو تو ہاتھوں پر تیل مثلاً سرسوں ، زیتون یا ناریل کا تیل لگالیں ۔ جب مہندی کا رنگ پھیکا پڑجائے تو اِسے کاسمیٹک بلیچ لگا کے اتار دیں۔

زیور ، چوڑیاں، پرس اور سینڈلز:
خواتین کی عید چوڑیوں اور زیور کے بغیر ادھوری ہے۔ یہی چیزیں تو زینت کا سامان رکھتی ہیں۔ لباس کے میچنگ کی چوڑیاں خریدنے خاص طور پر چاند رات کو بازار جایا جاتا ہے۔ تاہم وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔ نوجوان لڑکیاں عید کی چوڑیاں پہلے ہی خرید لیتی ہیں کیوں کہ بازاروں میں رش کی وجہ سے اکثر من بھاتی چیز ملنا دشوار ہوتا ہے۔ مارکیٹ میں اِس سال بلاشبہ چوڑیوں کے دیدہ زیب ڈیزائنز آئے ہیں۔ سادہ ، مینا کاری ، گلیٹر، کندن اور جڑاﺅ نگوں والی دلفریب چوڑیاں خواتین کی ساری توجہ کھینچ لیتی ہیں۔نئے دور کے تقاضوں نے روایات کو بدل ڈالا ہے۔ اب چوڑیوں سے زیادہ کڑے اور بریسلیٹ پہننا فیشن بن گیا ہے۔

ظاہر ہے زیور کے بغیر تو عید پھیکی ہے۔ پر اب سونے کے زیورات کم ہی پہنے جاتے ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مناسب قیمت میں بازاروں میں میچنگ جیولری دستیاب ہے جو سونے چاندی کے زیورات کے مقابلے میں بہت ہی خوبصو ت تاثر دیتے ہیں۔

اب بات ہوجائے سینڈلز کی۔ لباس کی طرح جوتوں کا انتخاب بھی مزاج کے بھید کھول دیتا ہے۔ عید کے دنوں میں ہر طرح کی ورائٹی مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہے۔ اگر صرف میچنگ کی سینڈ ل لینا مقصود ہے تو مناسب قیمت میں کراچی کے ہر بازار میں یہ سینڈلز دستیاب ہیں۔ لیکن اگر آپ ایسی سینڈل یا چپلیں خریدنا چاہتی ہیں جو ہر سوٹ کے ساتھ مناسب لگے تو بہتر یہ ہے کہ معیاری جگہ سے ہی سینڈلز کی خریداری کی جائے۔ کہتے ہیں ’مہنگا روئے ایک بار سستا روئے بار بار‘۔ تو جناب جوتوں کی خریداری کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بجٹ میں اضافہ کر کے مہنگی سینڈل خریدنا زیادہ بہتر ہے کیوں کہ یہ یقینا دیرپا اور آرام دہ ہونگی۔

ہینڈ بیگز یا پرس بھی خواتین اور بچیوں کی عید کی تیاری میں شامل ہوتے ہیں۔ بچیاں تو شاید عیدی رکھنے کے لئے ان کی خریداری کرتی ہیں اور خواتین عید کے موقعے پر آنے جانے کے لئے ہینڈ بیگز کو اہم سمجھتی ہیں۔ نوجوان لڑکیاں عموماً چھوٹے ہینڈ بیگز پسند کرتی ہیں۔ عید کے موقعے پر بازاروں میں نہایت سستے داموں یہ ہینڈ بیگز دستیاب ہیں۔

اب وقت آگیا ہے عید کی تیاریوں میں تیزی لانے کا۔ تو کمربستہ ہو جائیں ، ہنسیں کھیلیں، کھائیں پیئیں خوشیاں بانٹیں اور عید منائیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.