کھیلوں کے فروغ کے دعوے ،اسسٹنٹ ڈائریکٹر کوچز اور یتیمآرچری


سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میںسابق سکواش کھلاڑی قمر زمان کے نام سے منسوب قمر زمان سکواش کمپلیکس صوبے کا واحد کمپلیکس ہے جہاں پر آفیشل طور پر اور ریکارڈ میں سکواش کا کوئی کوچ نہیں البتہ یہاں سے نکلنے والے کھلاڑیوں کی کامیابی کی داستانیں ہیں. صوبائی ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر سکواش کے میدان میں پاکستان کی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے اسی سکواش کورٹ سے کھیل کر نکلے ہیں . یہ کورٹ جو چھ سے زائد کورٹ پر مشتمل ہیں اور اس میں مرد و خواتین کھلاڑیوں کیلئے الگ الگ اوقات کار ہیں میں صبح و شام کے سیشنز میں اتنے کم عمر کھلاڑی آتے ہیں کہ انہیں سنبھالنا بھی مشکل ہوتا ہے . سکواش کے کریز اور اس کے ذریعے بیرون ملک نکلنے کی خواہش نے بہت ساروں کو زبردستی سکواش کے کھیل کی جانب متوجہ کیا ہے - پشاور سپورٹس کمپلیکس میں آنیوالا ہر دوسرا بچہ اگر کرکٹ اکیڈمی میں سیکھنے کا خواہشمند ہے تو ہر تیسرا بچہ سکواش کھیلنے کی خواہش لئے قمر زمان سکوش کمپلیکس میں آتا ہے. لیکن ان سب باتوں کے باوجود.

انہی سکواش کورٹ کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کسی کوچ کو نہیں لیا .سکواش کے سابق بین الاقوامی کھلاڑی محب اللہ خان کو اعزازی طور پر رکھا ہے اور انہیں چالیس ہزار روپے ماہانہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ دے رہا ہے اور آپریشن کے بعد کھلاڑیوں کو مشورے دیتے نظر آتے ہیں . قمر زمان جو سکواش ایسوسی ایشن سے بھی وابستہ ہیں اور کے بیٹے منور زمان جو ایک زمانے میں سکواش کے اچھے کھلاڑی تھے ان کے بیٹے یعنی قمر زمان کے نواسے بھی بین الاقوامی فورم پر اپنا لوہا منوا چکے ہیں.انہی کورٹ میں قمر زمان کے بیٹے منور زمان سکواش کے کھلاڑی طاہر اقبال واحد اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں جو یہاں پر کوچنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان سکواش کورٹس کیلئے کوئی کوچ نہیں لیا اسی کمی کو پورا کرنے کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے ابتداء میں جونیئر کوچ کے عہدے پر انہیں لیا اور ابھی انہیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر لیا حقیقت میں یہی کوچز ہیں لیکن چونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس کوئی آپشن نہیں اس لئے محکمہ فنانس / اکائونٹ جنرل خیبر پختونخواہ کے ریکارڈ میں انہیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لکھوا دیا گیا اتاہم یہ کوچز کے طور پر کام کررہے ہیں اس کی وجہ ڈائریکٹریٹ کی نااہلی بھی کہیے / یا ناکامی کہ ابھی تک قمر زمان سکواش کمپلیکس کے چھ سے زائد کورٹ کیلئے ان دو اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو کوچز نہیں بنا سکے.صرف ایک جونیئر کوچ ہے جو کبھی کبھار دکھائی دیتے ہیں جبکہ ڈیلی ویجز کوچز جو کہ سکواش کے شعبے سے وابستہ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر یہاں آنیوالے کھلاڑیوں کو صبح و شام کے اوقات کار میں تربیت دیتے نظر آتے ہیں.

یوں یہ سکواش کے بین الاقوامی لیجنڈ قمر زمان کے نام سے بنے کمپلیکس میں سکواش کی تربیت کا کام بھی چل رہا ہے لیکن یہ سب درپردہ ہے اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کی آڑ لیکر سکواش کی کوچنگ کرائی جارہی ہیں حالانکہ اتنے بڑے کمپلیکس اور کارکردگی کی بناء پر بہتر کھیل کے باجود اس کمپلیکس کا حال بھی ابترہی کہا جاسکتا ہے ، کم و بیش ایک سال قبل بننے والے کمپلیکس کے بعض کورٹ کی اوپری چھت سے بلاک گرگئے ہیں بجلی کا نظام بھی اتنا ناقص ہے کہ بعض کورٹ میں کھیلتے ہوئے بھی نیم اندھیرے میں کھلاڑی کھیلتے نظر آتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ لائٹس خراب ہوگئی ہیں اور اب اسے ٹھیک کرنا شائد کسی کے بس کی بات نہیں یا پھر مینٹیننس کے نئے طریقہ کار یا کمیٹی جس میں فائل ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانے میں "پہیے "لگانے ضروری ہیں اسی باعث بجلی اور وائرنگ ٹھیک کرنے کے فائل دفاتر میں ہی خراب ہو جاتی ہیں.بعض اوقات کوچز اس ڈر سے کھلاڑیوں کیساتھ نہیںکھیل پاتے کہ خدانخواستہ بال کورٹ سے سیدھا کسی بچے کے آنکھ پر نہ لگے کیونکہ نیم اندھیرے میں دیوار سے پلٹ کر آنیوالے بال کا کچھ پتہ نہیں ہوتا . ہاں اگر لائٹ بہتر ہو تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس ایشو کی طرف توجہ دینا بھی بڑی بات ہے.

توجہ دلانے کی سب سے بڑی بات یہی ہے کہ پشاور جسے صوبائی دارالحکومت کا اعزاز بھی حاصل ہے اس میں واقع سپورٹس کمپلیکس میں آرچری کیلئے کوئی رینج نہیںایسی کوئی علیحدہ جگہ نہیں جہاں پر تیر اندازی کے کھیل کو کھیلا جاسکے.اتھلیٹکس گرائونڈ جسے بقول کچھ کھلاڑیوں کے کھیلوں کا ملغوبہ گرائونڈ بھی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا ، اتھلیٹکس کے کھلاڑی بھی نظر آتے ہیں ، فٹ بال کے کھلاڑی بھی نظر آتے ہیں ، واک کرنے والے بھی نظر آتے ہیں اورمختلف ٹولیو ں کی شکل میں آنیوالے ان افراد کی وجہ سے آرچری کے کھلاڑیوں کا کھیل پر توجہ دینا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے.آرچری جو ایک مہنگا کھیل ہے کیونکہ اس کے لئے تیر اور اسے استعمال کرنے والے آلات کی قیمت لاکھوں روپے ہے کا ایسی جگہ گرائونڈ پر رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں جہاں پر لاتعداد افراد واکنگ کیلئے آتے ہوں ، جن میں مرد و خواتین سمیت پروفیشنل کھلاڑی بھی ہوں اسی طرح اتھلیٹکس کے مختلف کھیل جن میں لانگ جمپ سے لیکر ڈسکس تھرو ،جیولن ، ہرڈلز کی دوڑ بھی شامل ہیں میں لاتعداد کھلاڑی ہوں وہی پر فٹ بال اکیڈمی کے نوجوان بھی بھاگتے نظر آئے تو پھر بہت مشکل ہوتا ہے آرچری کھیلنا ، یہ واحد کھیل ہے جس میں خیبر پختونخواہ کے کھلاڑیوں نے زیادہ گولڈ لئے ، پیرا آرچری میں اگر ایک خاتون گولڈ میڈل ہے تو قومی سطح کے مقابلوں میں آرچری کے کھلاڑی برائونز میڈل لئے کھڑے نظر آتے ہیں اسی طرح صوبائی سطح کے مقابلے جن میں انڈر 21 کے کئی کھلاڑی شامل ہیں کو بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ماہانہ دس ہزار وظیفہ بھی دے رہی ہیں. لیکن.

ان سب باتوں کے باوجود اور کامیابیوں کے آرچری کھیلنے کیلئے کوئی جگہ نہیں اور اس کھیل کے کھلاڑیوں کی کوشش ہوتی ہیں کہ جلدی سے پریکٹس ہوں اور ایسے وقت میں ہوں جب گرائونڈ میں کوئی نہ ہوں تاکہ دوسروں کو بھی مسائل کا سامنا نہ کرے پڑے .لیکن پھر بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بعض لوگوں کی کوشش ہے کہ اتھلیٹکس گرائونڈ سے آرچری کے کھلاڑیوں کو نکالا جائے شائد وہ صرف اپنے کھیل کو کھیل سمجھتے ہوں اور آرچری ان کی نظر میں کچھ نہیں یا پھر انہیں درپردہ کسی کا ہاتھ ہو ، مختصر یہی کہ آرچری کیساتھ پشاور کے سپورٹس کمپلیکس میں سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے اور سپورٹس کمپلیکس جس میں کم و بیش ستر ہ کھیلوں کی سہولیات لازمی ہونی چاہئیے وہ بھی پشاور جیسے شہر میں ہونے کے باوجود پوری نہیں ہوسکی ہیں.جبکہ دعوے صوبائی حکومت اور ڈائریکٹریٹ کھیلوں کے فروغ کی کررہی ہیں
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422228 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More