دو سال کے بچے کو اسکول بھیجنا ظلم ہے یا ضرورت؟

سوال۔١۔دو سال کے بچے کو اسکول بھیجنا ظلم ہے یا ضرورت؟
سوال۔٢۔نفسیاتی جسمانی اور معاشرتی لحاظ سے بچے پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
سوال۔٣۔کیا گھر پر والدین زیادہ اچھی تعليم و تربيت کرسکتے ہیں؟
سوال۔٤۔بچے کو اسکول میں داخل کروانے کی صیح عمر کیا ہونی چاہیے؟
سوال۔٥۔ایک ماہرنفیسات۔ماہرتعلیم۔ماہرسماجیات۔ماں ۔کی حیثت سے آپکا تجربہ وتجزیہ

لفظوں کو جوڑ کر جملے بنانے کی جستجو اور وہ بھی ایسی کہ یہ زبان صرف ماں ہی سمجھ سکتی ہے جاننے کے تجسس کو پورے کرتے سوالات اور ہرکام کو خود سے کرنے کی کوشش مگر جب رات کو سوۓ تو ماں کی آغوش کی گرماہٹ ایک پل بھی جدا ہونے کی کوشش کرے تو معصوم نیند میں بھی محسوس کرلیتا ہے اور مزید مضبوطی سے اپنے ننهے ہاتھوں کی گرفت میں سمو لیتا ہے
ماٸیں کیسے اتنے چھوٹے بچے کو جو صبح دیر تک سونا چاہتا ہےہر وقت ماں کےساتھ رہنا چاہتاہے۔اپنی مرضی سے کھیلنا کودنا چاہتا ہے اسے سویرے جاگا کر خود سے جدا کرکے اسکول بھیج دینا
بچے پر ظلم ہے یا ضرورت
ایک راۓ یہ موجود ہے کہ یہ بچے تہذیب تو سیکھ جاتےہیں لیکن معصومیت سے عاری ہوجاتے ہیں
پھربڑی حسرت سے انسان بچپنے کو یاد کرتا ہے اور چاہتا ہےیہ پھل پک کر دوبارہ خام ہو جائے
اور دل کہتا ہے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
کم عمری میں بچوں کو اسکول جاتا دیکھ کر
کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں
ٹفن رکھتی ہے ماں تو بستہ مسکراتا ہے
اور بچے خود سے کہتے ہونگے
میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
عمر کا بہترین حصہ ہے
دین کی تعلیمات بھی سامنے رکھیں تو پہلے سات سال تو ہمارے نبیﷺ نے بھی ماں کی گود کو پہلی تربیت گاہ کہا ہے۔ اور نماز بھی سات کے بچے پر فرض کی گٸی ہے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
(بخاری، الصحیح، 1 : 304، رقم : 853)
’’تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اپنی رعایا اور ماتحتوں کے بارے میں تم سے جواب طلبی کی جائے گی‘
والدین کم عمری میں ہی بچے کو اسکول بھیج کر تعلیم وتربیت سے غافل ہوجاتے ہیں۔
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی
’’اگر معمار پہلی اینٹ غلط اور ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار کو بلندی تک ٹیڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا‘‘

اپنے بچوں کی ابتداٸی عمر میں ہوم اسکولنگ کرنے والی ماں اور ایک ماہر تعلیم مونٹیسوری زبیدہ عمیر کہتی ہیں
بچوں کی اچھی پرورش دنیا کا اہم ترین کام ہے جو والدین یہ فرض ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں وہ اپنی اولاد پر نہیں خود اپنی ذات پر بہت بڑا احسان کر رہے ہوتے ہیں دنیا اور آخرت دونوں کو اپنی سنوار لیتے ہیں
بچوں کو جیتنا وقت دے سکتے ہیں دیں اور وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا اور جب وقت گزر جائے گا تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا احساس کمتری بچوں میں نہیں ہونا چاہیے اور ایسے بچے جن کو وقت نہیں دیا جاتا ان میں پھر یہ چیز محرومی کی صورت میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں ایک مکمل شخصیت ان کی نہیں بنتی ہے آپ اپنے بچوں ہیں کو بہت زیادہ وقت دیجئے جو ان کا حق ہے اگر ہم اپنا وقت آج لگا دیں گے تو یہی وقت کل سامنے آئے گا ایک اچھے انسان کی صورت میں ایک اچھی پر اعتماد شخصیت کی صورت میں اور معاشرتی لحاظ سے فائدہ مند ہوگا وہ لوگوں کے کام آئے گا یا کم از کم اپنے لحاظ سے یہ اپنی فیملی کے لئے اسٹرانگ ہوگا میں سمجھتی ہوں کہ ماں کے ساتھ والد کا بھی بہت اہم کردار ہے
اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں جن گھروں میں بچوں کی تربیت میں خاص دلچسپی لی جاتی ہے اور ایسے گھرانے مثال بن جاتے ہیں بچوں کی شخصیت میں نکھار آتا ہے بچے ادب سے بولتے ہیں بیٹھتے ہیں ایسے بچے مہذب ہوتے ہیں فرماں بردار ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی خوش اخلاق ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پیرنٹس میں ایک کوالٹی موجود ہو جو وہ اپنے بچوں میں ٹرانسفر کرتے ہیں
آج کل کے معاشرتی لحاظ سے اپنے ملک کی میں بات کروں گی تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ ظلم ہے اور سم ٹائم جوب کرنی والی خواتین ان کے لیے ضرورت بھی ہے لیکن اکارڈنگ ٹو ریسرچ اور جتنی بھی چھوٹے بچے کی ہم نے ریسرچ دیکھی ہے اس میں پانچ سال ٹھیک عمر ہے تقریبا کیونکہ اس میں بچوں کی اس عمر میں بھیجنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ پانچ سے سات سال کی عمر کے بچوں کے جو فلٹرز ہوتے ہیں وہ اتنے مضبوط ہو جاتے ہیں کہ دوسرے بچوں کے ساتھ آزادی سے میل جول رکھ سکتے اور اگر اس سے کم عمر کا بچہ ہو گا یعنی ڈھائی سال کا بچہ ہے تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ اپنے فلٹرز مضبوط نہیں ہوتے نہیں پتہ کون سا بچہ کس فیملی سے آ رہا ہے تو اس میں اچھی اور بری بات دونوں سیکھنے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں اور پانچ سال کا بچہ اگر ماں کے پاس ہے یا آپ کی فیملی بیک گراؤنڈ میں اٹھ رہا ہے بیٹھ رہا ہے اور اس کے ساتھ اور لوگ بھی اس ماحول میں اسکی تربیت کررہے ہیں تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے فلٹر اتنے مضبوط ہوتے ہیں اس کے بعد اس کا اثر نہیں ہوتا وہ اچھی چیزوں کو یا اس کے گھر میں جو سیکھاٸی گئیں اس کو بہت اچھے سے اپنے اندر جذب کر رہا ہوتا ہے
جرمنی میں تقریباً 3000 بچوں پر تجربہ ہوتا ہے اور اس میں ان کی ریسرچ بھی یہی کہتی ہے کہ اسکول بچوں کو بھیجنے کے لیے اس کی صحیح عمر پانچ سے سات سال ہے میموری کے لحاظ سے ایسے بچے تھوڑے سے پیچھے رہ جاتے ہیں جن کو ہم جلدی داخلہ کروا دیتے ہیں اور آپ کو پتہ ہے کہ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ پڑھائی میں جو بہتر عمر ہے وہ سات سال ہے تاہم پانچ سال سے شروع کر دیں تو بھی ٹھیک ہے
اگر ہم بچے کو ڈھائی سال کی عمر میں ہی فورہ ساپوس کروا دیتے ہیں مونٹیسوری ایجوکیشن بری نہیں ہے اس میں یہ ہے کہ ایک پری پیڈ انوائرمنٹ ہوتا ہے جس میں بچہ جا رہا ہے۔والدین زیادہ اچھی تعلیم و تربیت کر سکتے ہیں تو میں ڈیفینیٹلی یہ کہوں گی کہ ان فارمر ایجوکیشن از بیٹر دین فارمر ایجوکیشن تو اسکولوں میں بھیج کر ٹیچر سے پڑھوانے کے بجائے اگر ابتدائی سالوں میں ماں خود گھر میں پڑھاتی ہے اور وہ تعلیم دیتی ہے تو وہ کئی گناہ زیادہ بہتر ہے اسکول بھیجنے سے آجکل ہوم اسکولنگ کا نظریہ دوبارہ اجاگر ہونا شروع ہوا ہے اور ہوم اسکولنگ بیسٹ ہے اس میں ہمیں ایک بچہ ملا ہے وہ را مٹیریل ہے اس کو ہم اپنے پاس رکھے تو اس کے اچھے اور برے سکھانے میں ماں باپ کاہی ہاتھ ہوگا تو وہ ایک جو پیورٹی نکلے گی نہ تو وہ بچے کی وہ مکمل طور پروالدین پر ہی منحصر کرے گی کہ انہوں نے اپنا وقت اور کسی بھی چیز وقت لگائیں تو وہ رزلٹ دیتی ہے بہت شاندار رزلٹ ہوتے اور وہ ساری زندگی کے لیے دیرپا رزلٹ ہوتے تو میں تو اس کو ہی ترجیح دونگی کہ گھر پر ہی والدین زیادہ اچھی تعلیم دے سکتے ہیں لیکن ابتدائی عمر تک
ماں جو ہے وہ سب سے زیادہ رول ماڈل ہے ماں کی مامتا وہ گہرا سمندر ہے جس کی گہرائیوں کی کوئی پیماٸش نہیں کرسکتا اللہ تعالی تمام ماوں کو اس فریضے کوانجام دینے کی توفیق میں یہ کہوں گی ہوم سکولنگ از دی بیسٹ

علینہ ارشد بچوں کی ماہر نفسيات ہیں کہتی ہیں
ڈھائی سال کے بچہ کو سکول بھیجنا وقت کی ضرورت ہے مگر بچے پر نفسیاتی ظلم ہے۔ معاشرتی ضروریات کو پس پردہ ڈالتے ہوۓ غور یا جاۓ تو یہ ظلم ہے۔
چونکہ یہ بچے کی گروتھ کی عمر ہوتی ہے بچہ اس عمر میں مختلف اخلاقی باتیں گھر کے بزرگوں سے سیکھتا ہے۔ اگر اس عمر میں وہ سکول جانا شروع کر دے تو سب سے پہلے تو وہ سٹریس کا شکار ہو جاتا ہے کھیلنے کودنے کی عمر میں اس پر نئی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے جسے وہ ہینڈل نہیں کر پاتا۔ کام کا بوجھ محسوس کرنا جیسے عوامل انکو کمزور بنا دیتے ہیں۔ وہ نمبروں کی اس دوڑ میں شامل کر دیے جاتے ہیں جہاں ابھی انہیں تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے مگر بچہ ماں کی شاگردی سے محروم ہو جاتا ہے۔ جسمانی اعتبار سے اسے نظر کی کمزوری، کمر کا درد اور اکثر سٹریس کی وجہ سے معدہ خراب کے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔
معاشرتی اعتبار سے اس پر دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یا تو وہ کانفیڈینس حاصل کر سکتا ہے یا پھر وہ تنقید کا شکار ہو کر اپنا حوصلہ گنوا بیٹھتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بچوں کے لیے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے مگر باپ بھی اس تربیت گاہ کا ایک اہم کردار ہے۔ کسی بھی بچے کی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ گھر کا ماحول سازگار ہو اور اس ماحول کو بنانے والے ماں اور باپ دونوں ہی ہیں۔
والدین اگر اولاد پر مکمل توجہ اور وقت دیں تو وہ گھر کے ماحول میں بچے کو ابتدائی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
بچہ کو سکول میں داخل کروانے کی ٹھیک عمر 4 سے 5 سال ہے۔
ماہر نفسیات ہونے کے ناطے میں یہی کہوں گی بچہ جس طرح جسمانی نشونما کے لیے والدین کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح اپنے کردار کی پہچان شر اور خیر میں فرق اور کردار سازی کے لیے بھی وہ والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ انسانی شخصیت کی ہر خامی اور خوبی کی جڑ بچپن میں ہی پیوست ہوتی ہے اور اس جڑ کو بڑھوتری دینے والے والدین ہوتے ہیں۔ وہ جیسا بیج بوئیں گے وہی کاٹیں گے اگر وہ یہ بیج کسی اور کے حوالے کر دیں گے تو وہ اسے پانی تو دے گا مگر خلوص اور محبت کی کمی رہ جاۓ گی جو جوانی میں اس کی شخصیت میں واضح طور پر نظر آۓ گی۔

تطہیر فاطمہ جوایک ماہرنفسیات براۓ اطفال ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم اور مونٹیسوری اسکول پرنسپل بھی ہیں کہتی ہیں
دو سال کے بچے کو مونٹیسوری بھیجنا ظلم تو میں نہیں کہونگی کیونکہ جو آج کل کا ہمارا سیٹ اپ چل رہا ہے اس لیے یہ ایک ضرورت بن چکی ہے کہ ڈھائی سے تین سال کے بچے جو ہے ان کو کسی اچھی مونٹیسوری میں ضرور لے کر جایاجائے لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ مونٹیسوری یا ڈے کیرٸیر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کریں کہ وہ ایک ریٸل مونٹیسوری ہو اس کے لیے آپ کو جاننے کی ضرورت ہے کہ مونٹیسوری کیا ھوتی ھے اس کو اچھی طرح سے جانٸے اور پھر اپنے بچے کو وہاں بھیجئے اور اگر ہمیں ڈھاٸی سال کے بچے کو مونٹیسوری بھیجنا ظلم لگ رہا ہے تو پھر ہمیں گھر میں ویسا ماحول فراہم کرنا ہوگا گھر میں پہلے یہ ہوتا تھا کہ دادا دادی اور نانا نانی ماں کا بہت سارا ہاتھ اس معاملے بٹاتے تھے بچے کی تربیت کیسے کرنی ہے اور بہت ساری چیزیں وہ سیکھا دیتے تھے اب وہ سارا برڈن ماں پر آگیا ہے کیونکہ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام اسطرح سے نہیں رہا اور بہت ساری وجوہات ہیں اور سنگل پیرنٹنگ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ اگر ماں اکیلی بچے کو پال رہی ہے تو اس کے لیے بڑا مشکل ہے کہ وہ ساتھ میں جوب بھی کرے ہنڈیل بھی کرے باقی سارے معاملات کو اور یہ دیکھے کہ بچے کی تربیت بھی کرنی ہے اس کے علاوہ جو ماٸیں جوب کررہی ہوتی ہیں انکے لے یہ بہت بڑی ضرورت ہے کہ انہیں کوئی اچھی مونٹیسوری کی جہاں پر وہ بچے کو بھیج سکیں
بچے کو مونٹیسوری بھیجنے سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہاں پر بچے کو سوشلاز کرنا آتا ہے اپنی چیزوں کو شیئر کرتا ہے گیف ان ٹیک کا پتہ چلتا ہے مونٹیسوری سیٹ اپ میں بچے مختلف ایج گروپ کے بچوں کے ساتھ ملکر کھیلتے ہیں تعلیمی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں وہ ایک مثبت انداز میں سیکھنے کا طریقہ ہوتا ہے
ابتداٸی عمر میں بچوں کوگھر پر تعلیم دےسکتے ہیں اگر والدین خود پڑھے لکھے ہیں اور بہت اچھے سے معاشرے میں وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں تو وہ خود اپنے بچوں کی تربیت کریں اس سے بہتر اور کیا ہے اگر ماں گھر پر ہیں یا ورک فارم ہوم کر رہی ہیں کہیں جوب نہیں کرتی ہیں تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ وہ گھر میں اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کریں لیکن اگر والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں یا ان کو خود ان چیزوں کا آئیڈیا نہیں ہے کہ بچے کو اس عمر میں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے کن کن باتوں کو بتانے کی ضرورت ہے تو پھر ان کو گھر میں ایکسپول کرنے کے بجائے ان کا ٹائم ویسٹ کرنے کی بجائے آپ ان کو کسی اچھی مونٹیسوری بھیج دیں
اس کے لئے جو عمر کی اپنے بات پوچھی ہے اس کے لیے دو رائے موجود ہیں کچھ ماہر تعلیم کہتے ہیں کہ ڈھاٸی سے تین سال کی عمر کے بچے کو مونٹیسوری میں ایڈمیشن کروا دینا چاہیے اور کچھ کہتے ہیں کہ چھ سے سات سال کی عمر میں بچوں کا ایڈمیشن کروایا جائے پھر وہی بات ہے کہ گھر میں اگر والدین سب کچھ جانتے ہیں بچوں کی تربیت تعلیم تو وہ ان کو گھر میں کریں اور چھ سے سات سال کی عمر میں ان کو اسکول میں ایڈمیشن کروا دیں اور اگر وہ نہیں جانتے تو اب بہتر ہے کہ تین سال کے بچے کا ایڈمیشن کروا دیں
ماہر نفسیات اور ماہر تعلیم ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہوں گی کہ میرا تجربہ بہت اچھا رہا مونٹیسوری کو ایک ٹیچر اور اس کے بعد ایڈمنسٹریٹر ہینڈل کرنے کا کیونکہ میں جہاں ایڈمنسٹریٹر پوسٹ پر رہی وہ ایک ریٸل مونٹیسوری تھا تو میرا تو اس حوالے سے بہت اچھا تجربہ رہا اس کے ساتھ ہی میں یہ کہونگی کہ اس ایج گروپ کے لئے ایک بہت ہی مہربان نرم دل رکنھے والی ٹیچر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ صرف بچے کو پیار ہی نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی پرسنالٹی کو اچھی ڈائریکشن کی طرف مڑے یہاں ڈانٹ اور غصہ نہیں چلتا ہے بلکہ بچے کو صحیح اور غلط کو بتانا ہوتا ہے اور اس کو بہت محبت کے ساتھ پیش آناہوتا ہے کیونکہ والدین بچے کو آپ پر بھروسا کرکے بھیجتے ہیں

صائمہ فیضان ایک ایسی والدہ ہیں جو اپنے بچوں کی کافی سالوں سے ہوم اسکولنگ کررہی ہیں انکا کہنا ہے
حضرت آدم سے لے کر آج سے تقریبا چار سو سال پہلے تک والدین اور معاشرہ بچے کی تربیت کرتا تھا ، پھر انڈسٹریل ایرا آیا، اس کے لحاظ سے خاص وضع کے انسان چاہیے تھے جو ایک ہی طرح سے کام کرنے والے ہوں، خاموشی سے بات مان کرایک ہی طرح کے راستے پر چلتے ہوں، اپنی سوچ اور کریٹیویٹی سے محروم لوگ۔۔۔ اس کے لیے اسکول ایجاد کیے گئے ۔ہمارے ہاں اسکول کی یہ ایجاد سو سے ڈیڑھ سو سال پرانی ہے ۔
اس میں بھی فیکٹری کی طرح گھنٹی، یونیفارم، رپورٹ، ایک نمبر یا دو نمبر مال (بچہ) تھا۔۔۔ اس کے ساتھ جب کیپٹلزم آیا تو پیسے پر توجہ چلی گئی اور مارکیٹ نے بتانا شروع کیا ( نہ کہ علماء نے) کہ خیر یاکامیابی کیا ہے۔ ۱۹۶۰۔۸۰ میں یہ تاثر قائم کیا گیا کہ اگر بچہ اسکول میں پڑھ نہ سکے تو وہ کمزور ہی نہیں بلکہ حقیر ہے اور اسی زمانے میں مختلف لرننگ ڈس ایبلٹیز کی ٹرمز بھی ایجاد ہوئیں۔ کسی زمانے میں یہ بھی خیال تھا کہ بچہ شر کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ اس میں شر ہوتا ہے اور ذہانت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، وہ صرف ایجوکیشن سے سیکھتا ہے۔۔
امریکی مصنف اور تعلیم دان ’جان ہالٹ‘ نے پہلی دفعہ یہ کہا کہ ہمیں سائیکالوجی کے عینک سے بچے کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ہر بچہ الگ ہے۔ اس کی کتابیں بہت مشہور ہوئیں اور کئی بچے اسکول سے نکالے گئے۔۔
ان اسکول ہونے والے بچوں پرجسمانی اور نفسیاتی طور پر اچھے اثرات مرتب ہوئے آئن سٹائن اور تھامس ایڈیسن ایسے ہی بچوں کی مثالیں ہیں۔۔
یہ بات میرے اپنے ذاتی تجربے میں بھی آئی کہ جب میں نے اپنی بیٹی کوان اسکول کرایا، اس کے بعد سے اس کی صحت میں کافی بہتری آئی اس کے شوق اور ذہانتیں کھل کر میرے سامنے آئیں،یوں لگا کہ میں نے اسے بند کمرے سے نکال کر کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے چھوڑ دیا ہو۔۔ اس کی کارکردگی مجھے ہر کام میں پہلے سے بہتر نظر آئی، مجھے احساس ہوا کہ میرا یہ اندازہ غلط تھا کہ کہے بغیر بچہ کچھ سیکھ ہی نہیں سکتا بلکہ اصل میں تو یہ ہوتا ہے کہ سیکھے بغیر تو بچہ رہ ہی نہیں سکتا، پھر آج کل تو سیکھنے کے ان گنت مواقع بھی میسر ہیں، یہ سوچ کہ اگر ماں پڑھا نہ سکی تو بچی کیسے پڑہے گی بالکل غلط ثابت ہوئی
والدین سے گزارش ہے کہ خدارا ڈگریوں کی دوڑ سے نکلیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہیں بلکہ تربیت کے ساتھ تعلیم پر توجہ دیں۔



 

Sajida farheen farhee
About the Author: Sajida farheen farhee Read More Articles by Sajida farheen farhee: 11 Articles with 5399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.