بسم اللہ الرحمن الرحیم
اقوام متحدہ کے تحت سال بھر میں دیگر طبقات کی طرح طلبہ کا دن بھی منایا
جاتا ہے. پس منظر کے مختلف ہونے کی وجہ سے 17 نومبر کا دن چیکو سلواکیہ کے
طلبہ کی قربانیوں کے یادگار کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، جب کہ اقوام متحدہ
کی طرف سے 15 اکتوبر کا دن طلبہ کی اہمیت، کردار اور مقام کو اجاگر کرنے کے
حوالے سے عالمی یوم طلبہ منایا جاتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ 1939ء میں چیکوسلواکیہ پر جرمنی کے قبضے کے
دوران چیک طلبہ کا قتل عام کیا گیا، 28 اکتوبر 1939ء کو طلباء نے "پراگ"
میں سلسلہ وار نازی مخالف مظاہرے کیے تھے۔ چارلس یونیورسٹی کا ایک طالب علم
جان اوپلیٹل نازی افواج کے ہاتھوں شدید زخمی ہو کر 11 نومبر کو انتقال کر
گیاتھا، 15 نومبر کو اوپلیٹل کا جنازہ وسیع پیمانے پر نازی مخالف مظاہرے
میں تبدیل ہوگیا، اس کے نتیجے میں نازی حکام نے تمام چیک یونیورسٹیز اور
کالجز کو بند کر دیاتھا۔ 17 نومبر کو نازیوں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر
چھاپہ مارا، نو طلبہ راہنماؤں اور پروفیسرز کو قتل کیا اور 1,200 سے زائد
طلبہ کو حراستی کیمپوں میں بھیج دیاتھا۔ بعدازاں اس واقعہ کے 50 سال مکمل
ہونے پر 1989ء میں آزاد طلبہ رہنماؤں نے سوشلسٹ یونین آف یوتھ کے ساتھ مل
کر طلبہ کے عالمی دن کی یاد میں ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا، جو بعد میں
پرتشدد ہوگیا اور فسادات کی صورت اختیار کر گیا۔ ان کی یاد میں 17 نومبر
کادن عالمی یوم طلبہ کے طور پر منایا جانے لگا۔ پہلی تقریب 1941ء میں
انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کونسل نے لندن میں منعقد کی تھی، جب کہ کئی سالوں سے
طلبہ کے متعدد گروپ اس دن کو اقوام متحدہ کی طرف سے باضابطہ طور پر منوانے
کے لیے لابنگ بھی کر رہے ہیں، لیکن وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔
اقوام امتحدہ نے 15 اکتو 2010ء کو طلبہ کے عالمی دن کے طور پر منانے کا
اعلان کیا اور اسے ہندوستان کے مرحوم صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے یوم
پیدائش کے ساتھ منسوب کیا. اقوام متحدہ نے ورلڈ اسٹوڈنٹس ڈے کے لیے ڈاکٹر
عبدالکلام کے یوم پیدائش کا انتخاب ان کی تعلیم اور طلبہ کے لیے غیر معمولی
کردار کی بنا پر کیا تھا۔ اس دن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں طلبہ کو درپیش
تحدیات اور ان کے ممکنہ حل کی عملی جدوجہد ہے، نیز اس امر کا اعتراف ہے کہ
طلبہ ہی ملک و ملت کے مستقبل کا اثاثہ ہیں. گہری نظر سے اسلامی تعلیمات کا
مطالعہ کیا جائے تو طلبہ کو ان کے بنیادی انسانی، تعلیمی اور سماجی حقوق جس
قدر تفصیل سے اسلام نے فراہم کیے ہیں اس کی ایک جھلک بھی آج کے جدید چارٹرز
میں نظر نہیں آتی، تاریخی اوراق میں ماضی کی سیکڑوں مسلم شخصیات موجود ہیں
جن کے علم و فضل نے تحقیقی میادین میں انقلاب برپا کر دیا تھا، حق تو یہ
تھا کہ ان مسلم شخصیات کے علمی و تحقیقی کارناموں کو خراج تحسیں پیش کرتے
ہوئے عالمی یوم طلبہ کا اجرا کیا جاتا۔ اور اسلام میں موجود علم، علمی
افراد، طالب علم، اور ان کے حوالے سے فراہم کردہ سہولیات و تعلیمات کو
چارٹر کا حصہ بنایا جاتا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے طلبہ کے عالمی دن کے موقع
پر ہر سال ایک خاکہ جاری کیا جاتا ہے، گزشتہ سال 2021 کا خاکہ اور موضوع
''لوگوں، سیارے، خوشحالی اور امن کے لیے سیکھنا'' تھا۔ یوم طلبہ کے موقع پر
مختلف پروگرامز اور تقریبات کے ذریعے طلبہ میں شعور و آگہی پیدا کی جاتی
ہے، یہ سلسلہ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں جاری رہتا ہے اور طلبہ کی
صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں، انعامات اور
اعزازات سے نوازا بھی جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد طلبہ کو ہر قسم کی
معلومات سے باخبر کرنا ہے اور ان کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما کودرست سمت
دینا ہے، اس دن طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کیسے نکھار
سکتے ہیں اور مثبت رویوں کو کیسے پروان چڑھا سکتے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا ہے کہ علم اور انسان کا رشتہ
ازل سے چلا آرہا ہے،جب حضرت آدم علیہ السلام کو اشیا کی ماہیت اور کیفیات
کا علم سیکھایا گیا تھا، جس کی بنیاد پر فرشتوں پر انسان کو فوقیت حاصل
ہوئی، تب سے لے کر اب تک انسان کی طلب علم کا یہ سفر جاری ہے، اور اولاد
آدم رفعتوں اور بلندیوں کی طرف محو سفر ہے۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ
استاد، شاگرد اور درسگاہ کا منظم ادارہ دارارقم اور صفہ کے چبوترے سے شروع
ہواہے، اورآپ ﷺ نے علم کے سفر کو مہد سے لحد تک جاری رکھنے ترغیب دی، طلب
علم کے فضائل، طلبہ کا مقام ومرتبہ، طلبہ کے حقوق و فرائض، علم کے راستے کی
اہمیت، استاد کا مقام و مرتبہ اور علم کے مقاصد اور اہداف سے انسانیت کو
روشناس بھی معلم اعظم، خاتم الانبیاء، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے کروایا ہے،
منظم اور باقاعدہ درس گاہ قائم فرمائی اور طلبہ کو علم اور عمل کی تربیت
دی، تدریس کے اصول سیکھائے اور تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاق و کردار کی
تعمیر ارشاد فرمایا۔ اسلام نے طلب علم کو ہر طبقہ زندگی کے لیے لازم قرار
دیا اور حصول علم کو عبادت فرمایا. گویا اسلام نے طلبہ کے حقوق، مقام و
مرتبے اور اہمیت کے حوالے سے واضح تعلیمات پیش کیں۔
اسلام نے سب سے پہلے یہ شعور دیا ہے کہ طلبہ ہر قوم کا مستقبل اور قیمتی
اثاثہ ہوتے ہیں، قوموں کا عروج و زوال طلبہ کی تعلیم و تربیت اور تعلیمی
نظام کے ساتھ لازم و ملزوم ہے، کیوں کہ یہی طلبہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں
گے۔ طلبہ کی تعلیم اور تربیت کا اعلیٰ اورمعیاری انتظام ہی قوموں کے مستقبل
کو محفوظ کرسکتا ہے۔ گلوبلائزیشن اور ترقی کے اس دورمیں طلبہ، درسگاہ،
استاد، تعلیم اور تربیت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ملک
تعلیم، نظام تعلیم اور تربیت کا منظم نظام ترتیب دیتا ہے۔ عالمی یوم طلبہ
کے ذریعے اس گلوبل ویلج کے تمام ممالک کے طلبہ کو ایک پیج پر اکٹھا کیا
جاسکتا ہے، اور طلبہ کو درپیش مسائل اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کے حوالے
سے بھی شعور بیدار کیا جاسکتا ہے، پوری دنیا میں بسنے والے طلبہ یک زبان
اور یک آواز ہوکر اپنا موقف پوری دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
بلاشبہ یوم طلبہ کا تقاضا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا
کے وہ ممالک جہاں تعلیم عام نہیں، اس کا اہتمام و انتظام کیا جائے، پوری
دنیا میں بسنے والے طلبہ کو درپیش مسائل حل کیے جائیں اور عالمی سطح پر
طلبہ برادری کا مشترکہ فورم تشکیل دیا جائے تاکہ دنیا کے ہر خطے میں بسنے
والے طلبہ ایک دوسرے کے خیالات، نظریات، مفادات اور مشکلات کے حوالے سے
آگاہی حاصل کرسکیں، اور ایک متفقہ بیانیہ اور سوچ کے ساتھ ترقی کے سفر پر
گامزن ہو سکیں۔
|