علامہ اقبال اور فلسفہء خودی

قدرت نے جب کسی سے کوئی خاص کام لینا ہوتا ہے تو اس میں مطلوبہ اوصاف پیدا کردئیے جاتے ہیں۔علامہ اقبال کو شاید والدین کی دعا لگی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میں ان کا اقبال بلند کردیا بلکہ ان کی فقید المثال شاعری اور نثر نے ملت_خوابیدہ کو بیدار کیا اور ہنود و نصارٰی کے پنجہء غلامی سے نجات پانے کے لئے سعی و جہد پر آمادہ بھی کیا۔علامہ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ مفکر بھی تھے ،حالات_حاضرہ پہ غوروفکر کیا کرتے ،تاریخ_اسلام سے واقفیت اور فلسفہ و تصوف سے شغف نے انھیں مجبور کردیا کہ وہ امت_مسلمہ کی خاطر قلم اٹھائیں۔ ان کے کلام میں فلسفہء خودی کو مرکزیت حاصل ہے۔
آپ نے لکھا:
خودی کیا ہے ،راز_ درون_حیات
خودی کیا ہے ،بیداریء کائنات

"خودی" سے مراد خود شناسی ،خود آگاہی ،اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچاننا اور ان سے کام لینا،جرات و غیرت ہے۔خودی ذوقِ جدت اور ذوقِ تخلیق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے
۔اقبال فرماتے ہیں :

جو عالم_ایجاد میں ہے صاحب_ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

اقبال کے نزدیک جب بندہء مومن اپنی خودی کو دریافت کرلیتا ہے ،اپنی صلاحیتوں کو وقت کے چیلنج کے مطابق نبرد آزما کرلیتا ہے تو یہی خودی اس کے لئے امیدوں کے نئے در وا کرنےاور منزل کے نئے راستے تلاش کرنے کاسبب بن جاتی ہے۔ خودی کا راز لا الہ الااللہ یعنی کلمہء توحید میں ہے:

خودی کا سرِ نہاں لا الہ الااللہ
خودی ہے تیغ فساں ،لا الہ الااللہ

اپنی صلاحیتوں ،علم و ہنر کا ادراک حاصل کرلینا "خودی" ہے اور خودی کے سرچشمے یعنی "کلمہء توحید" کی معرفت حاصل کرلینا ،یہ وہ مقام ہے کہ خود بینی ،خدا بینی تک پہنچا دیتی ہے، انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ مالک ، میرے پاس جو قابلیت ،علم و ہنر ہے وہ تیری عطا ہے ۔جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا ،اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ پھر وہ غفلت اور مایوسی کی حالت میں نہیں رہتا بلکہ اپنے اندر موجود خزینہء ہنر ،علم و فن کی حفاظت کرتا ہے ،اسے چمکاتا ہے اور اپنا سب کچھ رب کی رضا پہ وار دیتا ہے ،وہ جان لیتا ہے کہ یہ قلب و دماغ ،یہ وقت اور وسائل رب العالمین کی عنایت ہیں تو اسی کے کام میں لگادینا حق کا تقاضا ہے۔پھر وہ مقام آتا ہے کہ تائیدِ ایزدی ،اس کے شاملِ حال ہوجاتی ہے ،بندہء مومن کا ہاتھ ،کار_الہی کرنے لگ جاتا ہے۔

ہاتھ ہے اللہ کا ،بندہء مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ،کارکشا ،کارساز

اورفرماتے ہیں
خودی میں ڈوب ،زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے ،درپردہ اہتمام _رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں ،لا شریک لہ
اور فرمایا:
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟
خودی تری مسلماں کیوں نہیں ہے ؟
عبث ہے شکوہ ء تقدیر_یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے ؟

علامہ اقبال جیسا مفکر صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ جب آپ کے کلام کو مقبولیت ملنا شروع ہوئی تو مختلف ادبی مجالس میں آپ کو بلایا جانے لگا۔ جب آپ پر اشعار کی آمد ہوتی تو ایک ہی نشست میں پوری پوری نظمیں اور غزلیں اترتی جاتیں ،تحت اللفظ میں پڑھتے تو خوب سماں بندھ جاتا اور لوگ کاغذ قلم لے کر لکھتے چلے جاتے۔یوں لگتا کہ دہن_ اقبال سے الفاظ کا چشمہ ابلتا چلا آرہا ہے۔حافظہ بھی غضب کا تھا ،جن اشعار کی جس ترتیب سے آمد ہوتی ،اسی طرح حافظے میں محفوظ رہتے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں صرف زبان و بیان کی خوب صورتی ہی نہ تھی بلکہ سوچ کی گہرائی ، فکر و تدبر کی معنویت اور مقصدیت بھی تھی چنانچہ آپ نے جب "فلسفہء خودی " پیش کیا تو زبان زد_خاص و عام ہوگیا۔مسلمانان _برصغیر کی حالتِ غلامانہ پر آپ کا جی کڑھتا تھا اور وہ اپنی قوم کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔اپ نے لکھا :

نہیں مقام کی خوگر،طبیعت _آزاد
ہواۓ سیر ،مثال_نسیم پیدا کر
ہزار چشمہ ترے سنگ_راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضرب_کلیم پیدا کر ۔
یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے ذریعے سے فرعون کے سامری جادوگر کا سحر توڑا گیا تھا ، اگر موجودہ دور کے مسلمان اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں کہ انھیں زمین پہ خدا کا نائب بنا کے بھیجا گیا ہے تو ان کی خودی آج بھی " ضرب_کلیم " کا کام سر انجام دے سکتی ہے ۔

اقبال نے جان لیا تھا کہ مسلمانوں کی کمزوری ،دولت کی کمی سے نہیں بلکہ دراصل وہ رشتہ جو بندے کو رب سے جوڑ دے ،وہ کمزور ہے۔

"اقبال کے فلسفہء خودی" کے بارے میں عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں :
"خودی کا تصور ،ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اساس ہے۔بظاہر یوں معلوم ہوتا کہ یہ یورپین فلسفے بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے" -
خلیفہ عبد الحکیم "اقبال کے فلسفہء خودی " کے تصور کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں کہ :
"رومی انفرادی بقا کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ انسان ،خدا میں اس طرح محو نہیں ہوتا جس طرح قطرہ ،سمندر میں محو ہوجاتا ہے بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہا ہے ،جیسے لوہا ،آگ میں پڑ کے آگ ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کے فلسفہء خودی کے لئے بھی یہی مناسب تھا اس لئے انھوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے"-

علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعہء کلام "بانگِ درا" میں کیا خوب ،خودی کی ترجمانی کی ہے :

تو راز_ کن فکاں ہے،اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں ہوجا ،خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل ،یہ سر_زندگانی ہے
نکل کر حلقہء شام وسحر سے ،جاوداں ہوجا

خودی ،رب العالمین پر توکل کے بعد ،اپنی قوت_بازو پر بھروسہ کرنے،تدابیر اختیار کرنے کا نام ہے،کسی مادی سبب کو سہارا نہ سمجھنے اور رب کے سوا ہر ایک سے بے نیاز ہو جانے کا نام ہے ۔ خودی ،رب اور بندے کے رشتے کا نام ہے. خودی کامیابیوں کے راستے پہ چلنے کا نام ہے ۔ڈاکٹر علامہ اقبال نے " فلسفہء خودی" کا تصور دے کر ملت کو پیغام _جدوجہد دیا اور پھر یہ جدوجہد ،قیام_ پاکستان کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔رب العالمین کا وعدہ ہے کہ

کوئی قابل ہوتو ہم شان_ کئ دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں !