طبّی اخلاقیات اور قواعدِ فقہیہ

کسی بھی علم کی شرافت ،وقار اور اہمیت اس علم کے موضوع سے معلوم ہوتی ہے علم ِطب کا موضوع جسمِ انسانی ہے جس کے متعلق خالقِ ارض وسماء کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور انہیں خشکی وتری میں سواریاں مہیا کی ہیں اور انہیں پاکیزہ روزی دی اور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت بخشی
فقہ کے جلیل القدر امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ علم دو طرح کے ہیں :
(۱) دین کے لئے علم ِفقہ
(۲) جسم کے لئے علمِ طب ۔
چونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تاجِ فضیلت سے سرفراز کیا ہے لہذا جسم ِانسانی پر کی جانے والی تحقیقات اور اس کو لاحق امراض کا علاج ان مخصوص معیارات کے مطابق کیا جائے گا جو اس کی عزت و شرافت کے مطابق ہوں ،ان معیارات کو اخلاق ہی کا حصہ قرار دیا جائے گا اور ان کی رعایت جسم انسانی پر کی جانے والی تحقیقات اور علاج وغیرہ کو وقار بخشے گی۔
یہ شعبہء اخلاقیات یا شعبہء طب جسے طبی اخلاقیات کہا جاتا ہے میڈیکل پریکٹس اور حیاتیات کے متعلق کی جانے والی تحقیقات سے بحث کرتا ہے ۔آگے بڑھنے سے پہلے ایک حدیث پاک نقل کی جاتی ہےجس سے معلوم ہوگا کہ حفظانِ صحت ،شریعت اور طب دونوں میں پسندیدہ ہے:
اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ کے بندو علاج کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج اتارا ہے سوائے موت اور بڑھاپے کے۔
طبی اخلاقیات کی حیثیت طب کے شعبے میں کام کرنے والوں کیلئے ایک ضابطے کی ہے تاکہ انسانیت کو بہتر خدمات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پیشے کے وقار کو بھی برقرار رکھا جاسکے چونکہ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہے لہذا آدمی کو اپنی صحت کے بارے میں محتاط رہنا چاہئے۔ صحتمند زندگی برقرار رکھنے میں اپنی خدمات کی فراہمی طبی شعبہ میں کام کرنے والوں کا اعزاز ہے۔
ماضی میں فنِ طب ایک وسیع الجہتی معلومات سے منضبط نہیں ہوا تھا، تحقیقی وسائل اور تشخیصی ذرائع محدود تھے اور علاج اکثر وبیشتر تجربات کی بنیاد پر کیا جاتا تھا ۔ سائنس اور کمپیوٹرکے شعبوں میں بے تحاشا کامیابیوں کے ساتھ اب میڈیکل سائنس بھی بے شمار آلات ِتحقیق و علاج پا چکی ہے ۔نتیجتاً طبی اور حیاتیاتی سائنس بھی بنیادی Basic medical scicenceاور کلینیکل سائنسClinical science نیز مزید تخصّص در تخصّص میں تقسیم ہو چکی ہے۔ بدلتے رجحانات نے طبّی مسائل کے حوالے سے بھی نئے سوالات کھڑے کئے ہیں جن کا کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیناضروری ہے ۔ طبی میدان میں پیش آمدہ اخلاقی مسائل میں مندرجہ ذیل شامل ہیں :
۱ ۔ڈاکٹر اور دیگر طبی عملے کے فرائض ۔
۲۔ ڈاکٹر اور مریض کا تعلق۔
۳۔انسان پرتحقیق کرنے والے حضرات کی ذمہ داریاں ۔
۴۔حیاتِ انسانی کے متعلق افراد ِمعاشرہ کی ذمہ داریاں ۔
ان مسائل کے متعلق شریعت کے بنیادی ماخذوں میں رہنمائی ملتی ہے مثلا سنن ابی داؤد میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد موجود ہے:اللہ تعالی نے بیماری اور شفاء دونوں کو نازل فرمایا لہذا علاج کرواو البتہ حرام سے علاج مت کرو۔
اس حدیثِ پاک نے حلال سے علاج کو جائز رکھا ہے اور حرام سے ممنوع قرار دے دیا م۔ؤثر علاج کی عدم موجودگی میں حرام کے استعمال کی ایک الگ بحث ہے ۔ ایک دوسرے ارشاد گرامی میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ علاج کرنے والا جواب دہ ہے ارشاد ِگرامی ہے :جو شخص علاج کرے جبکہ وہ اس سے پہلے علاج کرنے میں معروف بھی نہ ہو وہ( کسی بھی ناخوشگوار واقع کا) ذمہ دار ہو گا۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کرنے والے شخص کے پاس متعلقہ طبی معلومات ہونا ضروری ہیں ۔طبیب ِجاہل کے علاج کے نتیجے میں مریض کو لاحق ہونے والے ضرر کی ذمہ داری اسی طبیب پر عائد ہو گی۔لہذا علاج کرنے والے شخص کا صحیح معلومات رکھنا اور ماہر ہونا ضروری ہے اگر وہ ایسا نہیں ہے تو اسے علاج کرنے سے رک جانا ضروری ہے۔
طب کا شعبہ ایک احساس ِتحفظ کا تقاضا کرتا ہےجہاں مریض ڈاکٹرکو علامات سے آگاہ کرنے میں آزاد ہو ۔بسا اوقات مریض کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس کا اظہار اس کے لئے شرمناک ہوتا ہے ،مثلا وظیفہ ءزوجیت کی ادائیگی پر قدرت نہ ہونا ،خواتین کے حیض سے متعلق مسائل وغیرہ۔ا س صورتحال میں طبیب کو مریض کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہئے اور بغیر اس کی اجازت کے معلومات آگے مشترک نہیں کرنی چاہیئں ،مندجہ ذیل حدیث سے افشائے راز کی ناپسندیدگی معلوم ہوتی ہے:
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو کسی آدمی کی دنیوی تکلیف کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں راحت سے نوازتے ہیں اور جو کسی مسلمان کےعیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کی پردہ پوشی فرماتے ہیں ،اوراللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد فرماتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
تاہم کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض کی بیماری یا تحقیق کے نتیجے میں حاصل شدہ نتائج کا چھپانا دیگر افرادِ معاشرہ یا افراد ِخاندان کے لئے مضر ہو سکتی ہے مثلا مریض کو ٹی بی یا دیگر متعدی مرض ہے تو اس کے ساتھ دیگر رہنے والے افراد کے علم میں لانا ضروری ہے تاکہ وہ مریض کی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ حفاظتی تدابیر بھی اختیار کرسکیں ۔تاہم ایسی صورتحال میں بھی بقدر ضرورت اطلاع کافی ہے جیسے ایڈز میں مبتلاشخص کی بیوی کو اس مرض کا علم ہونا کافی ہو گا تاکہ وہ شفایاب ہونے تک شوہر کے ساتھ مباشرت سے اجتناب کرے۔
طبی میدان میں اس قسم کے بہت سے اخلاقی مسائل ہیں جن کا مصادرِ شریعت کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے انہی مصادرِ شریعت سے اخذ کردہ فقہی قواعد سے طبی اخلاقیات کو متعین کرنے میں سہولت ہو جاتی ہے لہذا ذیل میں ایسے فقہی قواعد کا مطالعہ اور طبی اخلاقی مسائل پر ان کی تطبیق کی جاتی ہے۔آگے بڑھنے سے قبل فقہی قواعد یا قواعد فقہیّہ کی تعریف درج کی جاتی ہے۔
ماضی قریب کے نامور فقیہ شیخ مصطفی الزرقارحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اپنے پیش رو فقہا سے نسبتا کچھ زیادہ جامع تعریف پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ان کے مطابق ‘‘قواعد فقہیہ عمومی قانونی اصول ہیں جنہیں مختصر قانونی زبان میں مرتب کیا گیا ہے ان میں موضوع کے تحت آنے والے واقعات سے متعلق عمومی قانونی یا فقہی اصولوں کو بیان کیا جاتا ہے’’۔
شیخ علی احمد ندوی حفظہ اللہ تعالیٰ اس میں مندرجہ ذیل ترمیم کرتے ہیں ‘‘ایک جامع قانونی اصول جس میں متعدد ابواب سے تعلق رکھنے والے واقعات کے متعلق عمومی وقانونی ضوابط شامل ہوتے ہیں’’۔
اب کچھ قواعدِ فقہیہ درج کئے جاتے ہیں جو انسانی علاج اور تحقیق کے متعلق شریعت کی رہنمائی پر روشنی ڈالتے ہیں ۔

(۱)لاضرر ولا ضرار
(نہ نقصان اٹھاے نہ نقصان پہنچائے)
اس قاعدے کی رو سے آدمی کو اپنی صحت یا زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چایئے نیز ایک طبیب کو مریض اور محقق کو تحقیق کے لئے پیش ہونے والے فرد کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔
(۲)الضرر یزال
(تکلیف دور کی جائے گی)
اس قاعدے کے مطابق آدمی سے تکلیف دور کرنے کے لئے معالجے کے جائز ذرائع کو اختیار کیا جائے گا ۔نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث سے اس پر روشنی پڑتی ہے ۔
عرفجہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جنگِ کلاب میں ان کی ناک زخمی ہو گئی انہوں نے چاندی کی ناک بنا کر لگالی لیکن اس سے بدبو آنا شروع ہو گئی تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں سونے کی ناک لگانےکی اجازت دی۔
(۳)الضرر یدفع بقدر الامکان
(جہاں تک ممکن ہو تکلیف کو دور کیا جائے)
اس قاعدے کی رو سے فرد اور معاشرے سے ضرر کو دور کیا جائے گا۔ لہذا وبائی امراض کی روک تھام کے لئے متعلقہ محکموں کو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانا لازم ہوگا۔
(۴)یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام
(ضرر عام کو دور کرنے کے لئے ضرر خاص کو برداشت کیا جائے)

مثلا متعدی مرض میں مبتلاشخص باہر جانے کا خواہش مند ہے ۔وہ ڈاکٹر پر اصرار کرتا ہے کہ اسے مرض سے پاک اور مکمل صحتمند ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دے۔ اس کے نتیجے میں اس کے لئے اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم کرنا آسان ہو گا اب ڈاکٹر کا اسے سرٹیفیکیٹ جاری نہ کرنا مریض کے لئے ضرر ہے۔ دوسری طرف اگر ڈاکٹر اسے صحتمند ہونے کا سرٹیفیکیٹ بنا دے تو یہ معاشرے کو ایک بڑی سطح پر خطرے میں ڈال دے گا لہذا طبیب اس شخص کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے اجتناب کرےگا۔
(۵)الضرر الاشد یزال بالضرر الاخف
(بڑے نقصان کو چھوٹے نقصان سے دور کیا جائے گا)
جرّاح (سرجن)کو بسا اوقات یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ متاثرہ عضو کو کاٹنا بہتر ہے یا چھوڑنا بہتر اس صورتحال میں وہ یہ دیکھے گا کہ مریض کو کیا چیز زیادہ نقصان پہنچانے والی ہے ۔اسی طرح جنین کی انتہائی پیچیدہ بیماری کا قوی خدشہ ہو تو حمل کے ابتدائی ایام میں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا حمل کا اسقاط بہتر ہو گا یا جاری رہنا۔
(۶)الضرورات تبیح المحظورات
(ضرورت اشیاء کو جواز فراہم کر دیتی ہے)
انسانی زندگی کو بچانے کے لئے بعض اوقات ان چیزوں کا استعمال بھی جائز ہو جاتا ہے جو عام حالات میں ناجائز ہوتی ہیں اس کی ایک مثال تو نّصِ قرآنی میں موجود ہے کہ بھوک کہ وجہ سے ہلاکت میں پڑنے کی بجائے خنزیر اور شراب کی بقدر ضرورت استعمال کی اجازت ہےجبکہ کوئی اور حلال چیز دستیاب نہ ہو ۔ اولاد کے حصول کے لئے شوہر کا نطفہ اس کی زوجہ کے بیضہ کے ساتھ ملا کربطور ٹیسٹ ٹیوب بےبی بچے کا حصول ،یہ اگرچہ شرم گاہ کھولنے پر مشتمل ہوتا ہے لیکن ایک ضرورت کے زیر ِاثر جائز بھی ہو سکتا ہے تا ہم اس کا جواز ضرورت کی حد تک ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ اگلے قاعدے میں آ رہا ہے۔
(۷)الضرورات تقدر بقدرھا
(ضرورت کا تعین اس کی مقدار تک ہے)
یعنی ضرورت کو قدر ضرورت تک ہی محدود رہنا چاہئے مثلا طبیب کو مریض کے ران پر بنے پھوڑے کا معائنہ کرنا ہو تو حتی الوسع اتنی ہی جگہ کھلوائے جس کے دیکھنے سے صحیح تشخیص ہو کر علاج ہو سکے۔

(۸)اذا ضاق الامر اتسع
(جب معاملہ مشکل ہو جائے تو وسعت ہوگی)
جب وسیع پیمانے پر لوگ تنگی کا شکار ہورہے ہوں تو گنجائش دی جائے گی ۔ عضو ِانسانی کی پیوندکاری کے حامی علماءکے نزدیک مشقت سے نجات اور زندگی بچانے کے لئے وسعت دی جائے گی تا ہم یہ ضروری ہے کہ گنجائش دینے سے کسی دوسرے شرعی حکم پر زد نہ پڑے۔
(۹)المشقۃ تجلب التیسیر
(مشکل آسانی کو کھینچتی ہے)
نماز کے وقت میں پانی میسر نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم تو قرآن کریم سے ثابت ہےتاہم دیگر مواقع میں بھی اسی قاعدے کی روشنی میں فقہا نے آسانیاں دی ہیں۔ مثلا پیشاب کی تھیلی(urine Bag) کے ساتھ مریض کے لئے یہ سہولت ہو گی کہ وہ نماز کا وقت داخل ہونے پر وضو کر کے پھر اس وقت میں ہر قسم کی نماز فرض،واجب ،سنت،نفل وغیرہ اداء کرتا رہے گا اگرچہ اس کا پیشاب اس تھیلی میں مسلسل آرہا ہو گا تا ہم ایک پورے وقت میں اس کا وضوبرقرار سمجھا جائے گا جب تک اس نماز کا وقت ختم نہ ہو جائے۔
(۱۰)الامور بمقاصدھا
(کاموں کو ان کی نیت کی روشنی میں پرکھا جائے)
مثلا ًمریض کے جسم پر اس کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے چیرا لگانا جائز بلکہ صحیح نیت اور ایمان کے ساتھ ہو تو باعث اجر و ثواب ہے ۔لیکن محض فیس وصول کرنے کیلئے ہو اور تکلیف دور کرنے کا متبادل ذریعہ بھی معلوم ہو تو ناجائز ہو گا۔
(۱۱)الکتاب کالخطاب
(تحریر خطاب کی طرح ہے)
اس قاعدے کے مطابق اگر آپریشن سے پہلے مریض،اسکا سرپرست یا وکیل آپریشن کے اجازت نامے پر دستخط کر دے تو زبان سے اجازت دینے ہی کی طرح سمجھا جائے گا ۔اس قاعدے کے ذریعے رضا یا consentکے متعلق اسلامی طبی اخلاقیات کے تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
(۱۲)الجواز الشرعی ینافی الضمان
(شرعی جواز نقصان پورا کرنے کی ذمہ داری کی نفی کرتا ہے)
ایک مستند سرجن کو مریض کا آپریشن کرنے کی قانون و شریعت اجازت دیتے ہیں ،اب اگر آپریشن کے دوران ڈاکٹر کی لاپرواہی کے بغیر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے تو ڈاکٹر پر کوئی تاوان لازم نہیں ہو گا۔
(۱۳)الضرر لا یزال بمثلہ
(ایک ضرر کو اسی جیسے دوسرے ضرر سے دور نہیں کیا جائے گا)
اس قاعدے کی روشنی میں وہ علماء جو عضو کی پیوند کاری کو جائز سمجھتے ہیں وہ بھی ان اعضاء کا عطیہ درست قرار نہیں دیتے جن کا جوڑا موجود نہیں جیسے دل جگر ،معدہ وغیرہ کیونکہ یہ خود عطیہ کنندہ کی زندگی کو خطرے میں ڈال دے گا۔
(۱۴)ما حرم فعلہ حرم طلبہ
( جس کام کا کرنا حرام ہو اس کا دوسرے سے طلب کرنا بھی حرام ہے)
خود کشی کرنا حرام ہے تو طبیب کو اجرت دے کر یا اس سے درخواست کر کے اپنے آپ کو ختم کرانا بھی حرام ہے ، اسی طرح چار ماہ گزر جانے کے بعد ماں کی جان کو خطرہ نہ ہونے کے باوجود اسقاط ِحمل کروانا ناجائز ہے ،نہ تو عورت خود کوئی ایسی دوا وغیرہ کے ذریعے حمل ساقط کر سکتی ہےاور نہ ہی کسی سے حمل گروا سکتی ہے۔
(۱۵)اذا بطل الشئ بطل ما فی ضمنہ
(جب کوئی چیز باطل ہو جائےتو اس میں شامل چیز بھی باطل ہو جائے گی)
تبدیلئ جنس کے لئے آپریشن کروانا شرعی اصولوں کے خلاف ہے نتیجتا ًاس مقصد کے لئے عضو کا عطیہ دینا بھی درست نہیں ہوگا۔اسی طرح بیہوشی دینے والے طبیب کے لئے اس آپریشن کے لئے بیہوشی دینا بھی جائز نہیں ہو گا۔

(۱۶)ما جاز لعذر بطل بزوالہ
(عذر کی وجہ سے جائز ہونے والی چیز عذر کے زائل ہونے سے باطل ہو جائے گی)
کسی بااعتماد ماہر خاتون ڈاکٹر کی غیر موجودگی میں مرد ڈاکٹر کا خاتون مریض کا معائنہ کرنے کی غرض سے پیٹ کا دیکھنا بقدر ضرورت جائز ہے ،لیکن اگر کوئی تسلی بخش خاتون ڈاکٹر میسر آ جائے تو پھر مرد ڈاکٹر کے لئے دیکھنے کی اجازت ختم ہو جائے گی ۔
(۱۷)یضاف الفعل الی الفاعل لا الی الآمر مالم یکن مجبرا
(فعل کی ذمہ داری کام کرنے والے پر ہو گی حکم دینے والے پر نہیں ہو گی تا وقتیکہ کام کرنے والے پر جبر نہ ہو)
انتہائی کرب میں مبتلاءشخص اگر معالج سے زندگی ختم کردینے کی خواہش کرے اور معالج اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے اس کی زندگی ختم کر دے تو معالج پر اس کے قتل کی ذمہ داری ڈالی جائے گی ۔اس سلسلے میں یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ مریض نے از خود اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔
(۱۸)یلزم مراعاۃ الشرط بقدر الامکان
(جہاں تک ممکن ہو شرط کی رعایت کی جائے گی)
آپریشن یا دیگر علاج کے دوران مریض کی عائد کردہ شرط کی جہاں تک ہو سکے رعایت کی جائے گی ،تاہم اگر اس شرط کی رعایت کرتے ہوئے آپریشن یا علاج ممکن ہی نہ ہو تو پھر اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا ۔اسی طرح اگر تحقیق کے مقصد کے لئے مریض یا رضاکار کے جسم سے خون وغیرہ کا نمونہ لیا گیا اور شرط یہ عائد کی گئی کہ نام کو صیغئہ راز میں رکھنا ہےیا آگےمعلومات کسی کے ساتھ مشترک نہیں کرنی تو پھر نام اور معلومات کو ظاہر کرنا معاہدے کی خلاف ورزی اور خیانت ہوگی۔چونکہ آپریشن اور تحقیق کے مراحل میں بسا اوقات اس قسم کی شرائط کی رعایت ناممکن یا کم از کم دشوار ضرور ہو جاتی ہیں، لہذا اجازت نامہ پر شروع سے ہی ایک شق یہ بھی شامل کر لینی چاہئے کہ مریض یا رضاکار کی جانب سے عائد کردہ شرط کا خیال رکھا جائے گا۔لیکن اگر کسی مرحلے پر ان کی رعایت نہ کی جا سکی (جس کا فیصلہ کوئی مجاز اتھارٹی کرے گی) تو پھر اس کی اجازت ہو گی۔


(۱۹)المباشر ضامن وان لم یتعمد
(کام کو بلا واسطہ کرنے والا ذمہ دار ہو گا اگرچہ اس نے اس کی نیت نہ بھی کی ہو)
مثلا ایک مریض کو شعبہ حادثات میں لایا گیا جسے دل کا دورہ پڑا ہوا تھا ۔موجود ڈاکٹر نے مریض کے لئے غلط دوا تجویز کر دی جس کے نتیجے میں مریض کا نتقال ہو گیا تو اس ڈاکٹر کو قتل ِخطاء کا ذمہ دار سمجھا جائے گا ۔
(۲۰)لایجوز لاحد ان یتصرف فی ملک الغیر بلا اذنہ
(دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر معاملہ کرنا جائز نہیں )
اس قاعدے کے مطابق کسی بھی شخص کی رضا مندی کے بغیر اس کا معائنہ ، علاج یا آپریشن کرنا جائز نہیں ۔اگرچہ جسم پر ملکیت ِحقیقی اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن عارضی طور پر انسان کو جسم امانتا ًسونپا گیا ہے لہذا اجازت ضروری ہے۔ نا بالغ بچے کی اجازت اس کے ولی یا سرپرست سے لی جائے گی۔
(۲۱)اذا اجتمع المباشر و المتسبب یضاف الحکم الی المباشر
(جب فاعل بلا واسطہ اور فاعل بواسطہ جمع ہو جائیں تو حکم کی نسبت فاعل بلا واسطہ کی طرف کی جائے گی)
احکام میں اصل یہ ہےکہ ان کی نسبت علت مؤثّرہ کی طرف طرف کی جاتی ہےدرمیانی اسباب کی طرف نہیں کی جاتی ۔مثلا ایک آدمی نے دھوکے سے دوسرے آدمی کو شراب پلا دی جس کی وجہ سے اس کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ پھر یہ مدہوش شخص گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہو گیا تو اس کی موت کا سبب شراب کو نہیں بلکہ گاڑی کی ٹکر کوقرار دیا جائے گا اورگاڑی چلانے والا شخص ذمہ دار ہو گا ۔ ایسے ہی علاج کے حوالے سے معالج ذمہ دار ہو گا۔مریض کو صحیح معلومات کی روشنی میں دیانتداری کے ساتھ درست دواتجویز کرنا ضروری ہے۔

 

Dr Fahad Anwaar
About the Author: Dr Fahad Anwaar Read More Articles by Dr Fahad Anwaar: 4 Articles with 5262 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.