چنی گئی راہ

انسان عجیب و غریب تخلیق ہے،اس کے افکارو اعمال کو کسی مخصوص پیکر میں قید نہیں کیا جا سکتا۔اسے جبر کی زنجیریں نہیں پہنائی جا سکتیں۔وہ جیسے چاہتا ہے اپنے افکارو خیالات کے مطابق فیصلے صادر کرتا ہے۔تہذیبی روایات اور قومی ورثہ جیسے اہم خزانے اس کی نگاہ مین غیر اہم قرار پاتے ہیں۔اور یوں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ وہ اپنی عقل و دانش اور بصیرت پر بھروسہ کرتے ہوئے مذہبی حدود و قیود کو توڑتے ہوئے کسی اور جانب نکل جاتا ہے اور اپنی عقل خود بین کو اپنا امام بنا لیتا ہے ۔عقل کی پیروی قابل ستائش بات ہے لیکن تنہا عقل خیرو شر کے پیمانے تخلیق نہیں کر سکتی۔دنیا کے کئی نامور دانشورا پنی عقل پر بھروسہ کرتے بوئے خدا کے منکرین بن گے تھے کیونکہ خدائی قوانین سے اغراض کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔کارل مارکس، ہیگل ،اینجلز اور نیطشے اس کی واضح مثالیں ہیں۔سائنسدانوں کی حیات میں ایسا دور بھی آیا کہ اپنی عقل و دانش پر فخر کرتے ہوئے انھوں نے اپنے خالق کی بنائی گئی اس کائنات کو بگ بینگ کا حادثہ قرار دے کر خدا کے وجود سے انکار کر دیا تھاحالانکہ خدا اپنے وجود کیلئے کسی انسان کی گواہی کا محتاج نہیں ہے ۔ہر شہ کو تخلیق کرنے والے کو کیا کسی انسان کی گواہی کی ضرورت پیش آ سکتی ہے؟اگر سارے انسان مل کر بھی اس کا انکار کر دیں تو اس کی خدائی میں رائی کے برابر بھی کمی نہیں آتی اور اگر سارے مل کر اس کی خدائی کا اقرار کریں تو اس کی خدائی میں ایک ذرہ کے برابر اضافہ نہیں ہو سکتا ۔اسے اپنی خدائی کیلئے کسی کی سند اور معاونت کی ضرورت نہیں ہے۔اس نے کائنات کیلئے جو اصول و ضوابط مقرر کر دئے ہیں یہ کارگاہ حیات انہی کے مطابق محوِ عمل ہے۔ کسی کے تسلیم کرنے یا انکار کرنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے فیصلے بلا امتیازِ رنگ و نسل اور مذہب سب کیلئے مساویانہ ہیں۔سور ج کی روشنی سب کیلئے بلا معاوضہ ہوتی ہے ،ہوا پانی اور روشنی پر کسی کا تسلط نہیں ہوتا کیونکہ ان کی موجودگی انسانیت کی بقا کی ضامن ہو تی ہے اسی لئے بلا معاوضہ مہیا کی جاتی ہے ۔ کسی کو اس پر روک لگانے اور اپنے نام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔،۔
انسانی عظمت کا ایک اہم پہلویہ ہے کہ وہ سخت جدو جہد اور محنت و مشقت سے اپنی زندگی کی گاڑی چلاتا ہے۔چلچلاتی دھوپ ہو،مو سم کی سختی ہو ، تیز ہوائیں اور آندھیاں ہوں،طوفانِ بادو باراں ہو انسان ہر حال میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو تا ہے۔کسی قسم کی موسمی سختیاں اس کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہیں کر پاتیں۔خدا کی عطا کردہ جسمانی قوت اس کو ہر قسم کے موانعات سے نبر آزما ہونے کی ہمت بخشتی ہے ۔ وہ بوقتِ ضرورت ظلم و جبر کی قوتوں سے بھی ٹکرا جاتا ہے تا کہ معاشرہ عدل و انصاف کا گہوارہ بن سکے۔اشرافیہ سے ٹکرانا اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہو تا ہے لیکن وہ جوشِ جنوں میں ایسا بھی کر جاتا ہے۔آگ کے الاؤ میں کود جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ انتہائی غیر معمولی اظہاریہ ہوتا ہے جس کی بدولت کاروانِ انسانیت افرا ط و تفریط کے بغیر اپنی منزل کی جانب محوِ سفر رہتا ہے لہذا وہ ایسا کرنے سے نہیں ہچکچاتا ۔انسانیت کی بقا مقصودِ زندگی ٹھہرے تو پھراپنی جان کا خراج ضروری ہوتا ہے۔تاریخ کے پنے نڈر ،بہادر،باجرات اور جری سورماؤں کی حیرت انگیز بسالتوں کے پر اثر قصوں سے بھرے پڑے ہیں ۔شہنشاؤں کا خوف اور طالع آزماؤں کا ڈر ایسے جانفروشوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتا ۔وہ اپنی چنی گئی راہ پر چلتے جاتے ہیں اور کوئی انھیں اس راہ سے ہٹا نہیں سکتا۔میرے ذاتی مشاہدے میں ایسے کئی دلیر انسان ہیں جھنوں نے آمرانہ دور میں اپنی جراتوں کے چراغ روشن کئے اور انسانیت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔جیلیں، کوڑے،پھانسیاں ،عقوبت خانے اور اذیتیں ا ن کے راستے کی دیوار نہ بن سکیں ۔ وہ سرِ دار جھول گے تا کہ انسانیت کو انسانی عظمت کی جھلک دکھا سکیں ۔انسانی مقام کا صحیح تشخص ایسے ہی بہادر انسانوں کے کردار سے مترشح ہوتا ہے۔وہ جو سر دے کر انسانیت کوسر بلندی عطا کرتے ہیں وہی عظمتِ انساں کی حقیقی پہچان ہوتے ہیں اور دنیا انہی کے گن گاتے نہیں تھکتی۔،۔

ایک طرف تو یہ روح پرور معاشرہ ہے جو ایسے انسانوں کی آماجگاہ بنتا ہے جہاں سچ کی خاطر زہر کا پیالہ پینا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے اسی معاشرے میں ریاکاری،مکرو فریب،عہد شکنی ،جھوٹ ، منافقت، بد عہدی،ند دیانتی ،حسد ، بغض ،کینہ پروری اور منقسم المزاجی ہر سو اپنا منہ کھولے انسانی اقدار کو زیرو بم کر نے کے حربے آزماتی رہتی ہے ۔خیرو شر کی یہ آمیزش معاشرے کی تبای کا پیش خیمہ ثابت ہو تی ہے کیونکہ وہ معاشرہ جہاں اقدار کی اہمیت ختم ہو جائے زمین بوس ہو جاتا ہے۔اقدار کا تعین کوئی ایک دن کا کھیل نہیں ہوتا بلکہ یہ صدیوں کی پرم پراء،فہم و فراست،عقل و دانش اور رویوں کا اظہاریہ ہوتا ہے جو کسی معاشرے کی پہچان بنتا ہے۔جب کسی معاشرے کی بنیادیں کھو کھلی ہو جائیں تو پھر ہر عالیشان اور مضبو ط عمارت ملبے کا ڈھیر بن جا تی ہے۔مفاداتِ عاجلہ جب انسانی اذہان کو اپنے شکنجے میں جکڑلتے ہیں تو پھر ہر قدر غیر اہم ہو جاتی ہے۔مفادات کا حصول جب مقصدِ زندگی ٹھہرے گا توپھر اصول و ضوابط اور اقدار کی اہمیت مٹ جاتی ہے ۔ پاکستانی معاشرہ اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ہر انسان نفسا نفسی کا اسیر ہے ۔وہ بے چینی اور پریشان حالی کا جیتا جاگتا پیکر ہے، وہ بے بس ہے اور غیر یقینی کے گرداب میں ہے ۔اس کی خواہشات کوہ ہمالیہ سے بھی بلندو بالا ہیں لیکن اس کے ذرائع انتہائی قلیل۔وہ چاند کو مٹھی میں بند کرنا چاہتا ہے لیکن چاند اس کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔وہ ا پنی خواہشات کی برومندی کیلئے غلط راہوں کا انتخاب کرتا ہے اور یوں معاشرہ شر کی راہ پر محوِ سفر ہو جاتا ہے۔اسے اس ہلا کت خیز راہ سے بچانے کیلئے صوفیاء ، صالحین ،علماء ، شعرا،دانشور اور ادباء اپنی اپنی کاوشیں کرتے ہیں لیکن کوئی ان کی آواز پر کان نہیں دھرتا کیونکہ مفادات کی شدت اقدار کی قدرو قیمت پر بازی لے چکی ہے۔،۔

پیٹ کی بھوک جب اقدار کو کھانے لگے تو معاشرہ خس و خاشاک کا ڈھیر ثابت ہو تا ہے۔بات یہ نہیں کہ اقدار کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والوں کو اقدار کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا ،ضرور ہوتا ہو گا لیکن ستم یہ ہے کہ وہ آسائشاتِ زندگی کی خاطر اقدار کی قربانی دینے میں تامل نہیں کرتے۔ہو سکتا ہے کہ اس میں تعلیم و تربیت کی کمی کا بھی کوئی کردار ہو۔غیر تعلیم یافتہ افراد شائد وعدہ ایفائی، ،دیانتداری، سچائی ، صداقت ،امانت،دیانت،قانون کی حکمرانی،آئین پر عملداری اور وعدہ ایفائی کی عظمت کی گہرائی کو اس طرح محسوس نہ کر سکتے ہوں جیسے اہلِ علم ، اہلِ نظر یا اہلِ دل محسوس کر سکتے ہیں ۔ہوسِ زر پر ستی میں وہ ایسی باتوں کو سطحی کہہ کر آگے بڑھ جانے کا رویہ اپناتے ہیں حالانکہ یہ سطحی نہیں ہوتیں بلکہ اسی کے اندر ایک قوم کو زندہ رہنا ہو تا ہے۔قومیں زمین پر کھینچی گئی جغرافیائی لکیروں سے معرض، وجود میں تو آ جاتی ہیں لیکن یہ جغرافیائی لکیریں ان کی بقا کی ضامن نہیں ہوتیں بلکہ ان کی بقا ان قوانین میں مضمر ہو تی ہین جن پر عملداری کا انھیں درس دیا جاتا ہے۔اب اگر کوئی اس درس کو پسِ پشت ڈالنے کا عزم کر لے توپھر قوم کا وجود خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے ۔ اگر کسی کو میری بات کا یقین نہیں تو وہ ملک کے موجودہ منظر نامہ کو دیکھے اس پر سب کچھ واضح ہو جائیگا ۔ہمارے سیاسی قائدین کے افعال و کردار اور قلا بازیاں پوری قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہیں لیکن ہم پھر بھی ان کی عظمت کے گیت گانے سے باز نہیں آتے۔سیاستدانوں کی اقتدار پرستی کی ہوس اتنی شدید ہے کہ ملک و قوم کی بقا ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔کاش ہمارے قائدین کو کوئی یہ بات سمجھا سکے کہ ملک ہو گا تو مفادات کا کھیل کھیلا جا سکے گا؟کیا ہم نے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱؁ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ؟جب کم ظرف سقراط بننے لگ جائیں تو ملک کا وجود خطروں میں پڑ جاتا ہے۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.