اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا

مطالعے کے دوران سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک قول پڑھا ، لکھا تھا " جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا" ۔ یقینََا ، تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب برپا ہوئے ہیں ، حکومتیں قائم ہوئی ہیں ، نئے نئے ایجادات ہوئے ہیں ان میں نوجوانوں کا کردار اہم رہاہے اورنوجوان ہی کسی بھی قوم و ملت کا سرمایہ ہے ۔ لیکن آج حالات بدل چکے ہیں ، جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں، قوم کے نوجوان رات دو تین بجے تک بیدار رہتے ہیں، کچھ انسٹا پر، کچھ واٹس اپ پر، کچھ فیس بک تو کچھ آن لائن گیمز میں ۔۔ بعض تو چاٹنگ میں ۔۔ ایسے میں شکست تو کیا غرق ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔پہلے کے مقابلے میں آج نوجوان طبقے میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح زیادہ ہے اور بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان میں صلاحیتوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ،لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہیں ہوپارہی ہے اور نوجوان بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں اور وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں ، انکا مستقبل کیسا ہو اور وہ اپنے وجود کے ذریعے سے کیسے مستقبل کو سنوار سکتے ہیں اس سلسلے میں کسی بھی طرح کا فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں ۔ ایک طرف وہ اپنے مستقبل کو لے کر لاپرواہ ہیں تو دوسری جانب انکے والدین خود اس بات کافیصلہ نہیں کرپارہےہیں انکے بچوں کے مستقبل کو کیسے سنوارا جائے ۔ عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان کچھ حد تک تعلیم حاصل کرتے ہی سب سے پہلے قیمتی موبائل ، بڑی گاڑی کے مالک بن جاتے ہیں اور یہیں سے انکی زندگی پر منفی اثر پڑنے لگتاہے اور وہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ موبائل اور گاڑی ہی انکی زندگی ہے ۔ والدین اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر جہاں ہر خواہش کی تکمیل کرتے ہیں وہیں وہ انکی تربیت میں کوتاہی برتنے لگتے ہیں جس کا خمیازہ بعد میں جاکر خود انہیں اٹھانا پڑتاہے ۔ موجودہ وقت میں موبائل صرف ایک ضرورت بن سکتا اور موٹر بائک مجبوری ۔ لیکن ان دونوں چیزوں کی وجہ سے نوجوانوں کی پوری زندگی کو لاچار بنانے میں سب سے اہم کردار خود انکے والدین ادا کررہے ہیں ۔ ہوسکتاہے کہ بچے تعلیم حاصل کرچکے ہوں ، ڈگری حاصل کرچکے ہیں لیکن اس بنیاد پر انہیں کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نوجوانوں کو سب سے پہلے اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اچھے عہدوں پر فائزہونے کے لئے توجہ دلانا، کاروبار کے تعلق سے دلچسپی دلانا، ایسے کاموں کو انجام دینے کے لئے تیار کرنا جس سے ناصرف وہ اپنی زندگی بہتر بناسکیں بلکہ اپنے قوم ، ملّت اور ملک کے لئے کچھ اچھے کام کرسکیں ۔ موجودہ وقت کے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر نظر ڈالیں ، نہ ان میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے نہ ہی کچھ ثابت کرنے کا جنون ، چہروں پر بے ڈھنگے بال ، گدھے کتوں جیسی کٹنگ ، پھٹے سلے ہوئے کپڑے ، منہ میں گھٹکہ ، سر پر لڑکیوں جیسی چوٹیاں یا ہیر بیانڈ ۔ آخر مسلم نوجوان کس نظریہ سے مسلمان دکھائی دیتے ہیںیہ سب سے بڑا سوال ہے ۔ حال ہی میں ایک عالم کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ جب میں نے نوجوانوں کی کٹنگ کے تعلق سے خطبہ دیا تو کچھ لوگ ناراض ہوگئے تھے اور اُلٹا مجھے مورد الزام ٹہرا رہے تھے ایسے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔ آج یہ حال ہے قوم کا جس سے ہم مثبت مستقبل کو سنوارنے کی خواہش کررہے ہیں ۔ کیا والدین کے پاس اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ کم از کم وہ اپنے بچوں کو دیکھنے سے تو مسلمان بنائیں ۔ کچھ نوجوان شیواجی کی داڑھی رکھے ہوئے ہیں تو کچھ نے یہودیوں کی داڑھی بنائی ہوئی ہے ۔ اکثر ہم یہ کہتے ہیں کہ علماء کچھ نہیں کررہے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ کیا علماء ہی ہمارے بچوں کی کٹنگ کا ٹھیکہ لے لیں اور وسترا لے کر گھر پہنچ جائیں ۔ جب تک والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے پیش رفت نہیں کرتے اس وقت نہ علماء کچھ کرسکتے ہیں نہ ہی اساتذہ کے ذریعے انکی تربیت ممکن ہے ۔ اس لئے والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے تعلق سے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو کچھ نتائج بہتر آسکتے ہیں ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197632 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.