انگلستان کی ایک شریف عورت نے بصد حسرت و ندامت اپنے ملک
کی عورتوں کے متعلق ایک مقالہ لکھا جسکا ترجمہ مصر کے ماہنامہ "المنار" میں
شائع ہوا جس میں یہ تھا کہ " انگلستان کی عورتیں اپنی عفت و عصمت کھو چکی
ہیں اور ان میں بہت کم ایسی ملیں گی جنہوں نے اپنے دامن عصمت کو حرام کاری
کے دھبے سے آلودہ نہ کیا ہو ان میں شرم و حیاء نام کی بھی نہیں اور ایسی
آزادانہ زندگی بسر کرتی ہیں کہ اس ناجائز آزادی نے ان کو اس قابل نہیں رہنے
دیا کہ ان کو انسان کے زمرہ میں شامل کیا جائے ہمیں سرزمین مشرق کی مسلمان
خواتین پر رشک آتا ہے جو نہایت دیانت و تقویٰ کے ساتھ اپنے شوہروں کے زیر
فرمان رہتی ہیں اور انکی عصمت کا لباس گناہ کے داغ سے ناپاک نہیں ہوتا وہ
جس قدر فخر کریں بجا ہے اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ اسلامی احکام شریعت کی
ترویج سے انگلستان کی عورتوں کی عفت کو محفوظ رکھا جائے۔
یہ مقالہ کئی برس پہلے لکھا گیا ، اگر آج کے حالات وہ دیکھتی تو وہ خون کے
آنسو روتی انگلستان کو تو آپ چھوڑیں پورے یورپ کا یہی حال ہے۔ اس گندی اور
لچر تہذیب کے اثرات بڑی تیزی سے اب مشرقی اقدار پر مبنی ہمارے معاشرے اور
یہاں کی عورتوں ، مردوں پر بھی بڑی تیزی سے پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ آج ہماری
اپنی غلط پالیسیوں ، اور این جی اوز کی فنڈنگ اور محنت کے با عث ہمارا
معاشرہ بھی ہمارے نبی? کی اس پیشن گوئی کی طرف تیزی سے جارہا ہے جسمیں
انہوں نے قیامت کی نشانیوں میں سے فرمایا تھا کہ گھر گھر میں موسیقی کے
آلات ہو نگے اور لوگ ناچنے گانے والی عورتوں کی عزت کریں گے۔ایسی ہی صورت
حال کا اسلام کا قلعہ کہلوانے والے ملک میں موجود ہمارے حکمرانوں کی نا
اہلی اپنی جگہ میڈ یا بھی ایسے معاشرے کی تزئین و آرائش میں مغرب کا آلہ
کار بنا ہوا ہے۔ ایک خاص ایجنڈے کے تحت خاص کر الیکٹرانک میڈیا پر تقریباً
پروگرام انڈین گانوں کی Baseپر چلائے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے کامیڈی شوز
، انعام گھر ، سیاسی جلسوں تک میں گانے بجانے کی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں۔
ہماری نعتوں تک میں جہاں ا? تعالیٰ کی حمد اور رسول ? کی شان بیان کی جاتی
ہے ، پرانے فلمی گانوں کی طرز کو استعمال کرنے کا رجحان عرصہ دراز سے جاری
ہے ہم اسے دین قرار دے رہے ہیں۔ اور دین کی ایک نئی مضحکہ خیز تصویر لوگوں
کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ صوفی کلچر اور صوفی ازم کے نام پر مراسیوں اور
بھانڈوں کا ٹولہ یہودیوں کی متحرب coceکا پروگرام ہمیں بگاڑنے میں پیش پیش
ہیں۔ لیکن نہ تو ہمارے علمائے کرام صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں اور نہ ہی
حکومت۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے اس کلچر کو قبول کر کے اپنے معاشرے کا
حصہ بنا لیا ہے۔ہمارا کوئی اشتہار د عورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بے حیائی
کی ترغیب کھلم کھلا موبائل فونز کے اشتہارات میں دی جاتی ہے۔ لیکن سینسر
بورڈ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ان کمپنیوں کے پیکج رات بھر فری سروس مہیا
کرتے ہیں۔ جسکے باعث ہماری نوجوان نسل تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ ساری رات گپ
شپ ، دن میں سونا جسکے باعث فیملی ماحول اور کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی
ہے پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے ہر اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں کئی گناہ
اضافہ ہوا ہے لیکن موبائل فون، کیبل ، ڈش ، کمپیوٹر ، انٹرنیٹ کے نرخ کم ہو
رہے ہیں۔ نت نئے پیکجز متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ کئی گھروں میں طلاق کی وجہ
بھی یہی موبائل فونز انٹرنیٹ اور کیبلز بن رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ویسے ہی
51%خواتین ہیں جن میں سے ایک سروے کے مطابق 4کروڑ سے زائد بالغ لڑکیاں رشتے
نہ ہونے کے باعث گھروں میں بیٹھی ہیں۔ گھروں کو عورت کے لئے ہمارے مذ ہب نے
محفوظ بنایا ہے اسے چادر اور چار دیواری کا پابند اور اسے گھر کا منتظم بنا
یا ہے ،اور مرد کو باہر کا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ جس کے گھر میں مذکورہ
بے حیائی کی خرافات موجود ہیں وہاں کا سکھ چین میاں بیوی، ماں باپ کی محبت
ختم ہوتی جارہی ہے۔ نا محرموں سے دوستیاں گانٹھنے کے باعث قتل و غارت کی
وارداتوں کے علاوہ نوجوان لڑکیوں کا گھروں سے بھاگ کر پسند کی شادی کا
رجحان ذور پکڑ رہا ہے۔جس کے باعث غیرت کے نام پر قتل کی شرح بڑھ رہی ہے۔
اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کی نافرمانی ، والدین بچوں کے حقوق اوربچے والدین
کے حقوق پورے نہیں کر پا رہے لیکن ہمیں ایسی کوئی دعوت ما سوائے دعوت تبلیغ
کے نظر نہیں آ رہی جو ان خرافات کے آگے بند باند ھے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا
کے مارننگ پروگرام بد تمیزی اور بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ہماری خبروں
کو پڑھنے کے لئے نوجوان خوبصورت لڑکوں اور لڑکیوں کو رکھا ہی اس لئے جاتا
ہے تاکہ Opposite Sex سے متاثر ہو کر سامعین دوسرے چینل کا رخ نہ کریں،یہ
سب کچھ کمرشل ازم کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ خبروں کو سننے کے لئے گھروں میں
کیبل ، انٹرنیٹ کلچر کو فروغ دینے والے والدین نہ صرف اپنے مشرقی معاشرتی
اقدار کو بری طرح متاثر اور تباہ کر رہے ہیں بلکہ مسلسل گناہ کبیرہ کے
مرتکب ہو رہے ہیں۔ انڈین فلموں کا ایک سیلاب ہے جو ہمارے معاشرے کو گھن کی
طرح چاٹ رہا ہے ان پر پابندی کے باوجود انکی نمائش اب سینما گھروں تک میں
حکومتی اجازت کے ساتھ ہو رہی ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری کا بیڑہ غرق ہونے کے
باوجود ہماری فلم انڈسٹری کے سینکڑوں سینما گھر تجارتی مرکز میں تبدیل ہو
گئے لیکن اب گھر گھر میں سینما گھر کھل گئے ہیں۔ اب تو ہماری عبادت گاہیں
بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں۔ دوران نماز اکثر موبائل فونز گانوں کی ٹیونز
بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اغیار کی محنت کے باعث ہو رہا ہے وہ
ہمیں مادر پدر معاشرے میں تبدیل کرنے اور ہمارے معاشرتی گھریلو کلچر کو
جسمیں سب مل جل کر رہتے ہیں تباہ کرنے پہ تلا ہوا ہے لیکن ہم کامیابی اپنے
نبی ? کے طریقوں کی بجائے مغربی معاشرے کی اقدار میں سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارے
مخلوط تعلیمی نظام، ادارے بھی اسکا حصہ بن چکے ہیں اگر ہم نے جلد اس کا
تدارک نہ کیا تو ایک دن ہم بے راہ روی کی اس دبہلیز پر پہنچ جائیں گے کہ
جہاں سے واپسی ناممکن ہو گی۔ میں علامہ اقبال کے اس شعر پہ مضمون کو ختم
کرتا ہوں:
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ؐہاشمی
|