نیوز براڈکاسٹنگ اینڈ ڈیجیٹل اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف
انڈیا' (این بی ڈی ایس اے) ایک سرکاری ادارہ ہے۔ یہ اسی حکومت کے تحت کام
کرتا ہے جس کی گود میں موجودہ میڈیا ایک شریر بچے کی مانند اچھلتا کودتا
ہے۔ یعنی دونوں کی ماں ایک ہی ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک
حقیقی بیٹا ہے اور دوسرا پیدا تو کسی اور کے بطن سےہوا مگر سرکار نے گوں
ناگوں ضرورت کے سبب اسے گود لے لیا۔ بچوں کو اکثر والدین کا لاڈ پیار بگاڑ
دیتا ہے لیکن جب وہ حد سے گزر نےلگتے ہیں تو ا ن کی سرزنش واجب ہوجاتی ہے۔
امبانی کے نجی چینل 'نیوز 18 انڈیا' نے کرناٹک میں حجاب کے معاملے میں ٹی
وی بحث کو اس قدر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا کہ مجبورا ً این بی ڈی ایس اے کو
ایک سخت قدم اٹھاتے ہوئے امن چوپڑا پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرنا
پڑا۔ اس کے علاوہ مذکورہ ادارے نے چینل کو 6؍ اپریل2022 کے مباحثے کی ویڈیو
اپنی ویب سائٹ اور تمام پلیٹ فارمز سے ہٹانے کی بھی ہدایت کی ۔ ایسا اس لیے
کیا گیا کیونکہ این بی ڈی ایس اے کے صدر جسٹس اے کےسیکری (ریٹائرڈ) نے حجاب
کی حمایت کرنے والے پینلسٹ کو 'ظواہری گینگ کا ممبر' قرار دینے اور 'ظواہری
تمہارا خدا ہے۔ ' کہنے پر شدید اعتراض کیا۔ انہوں نے چینل کی اس وضاحت
کومسترد کردیا کہ ان الفاظ کا استعمال حجاب کی حمایت میں احتجاج کرنے والی
طالبات کے لیے نہیں بلکہ تنازعہ کے پیچھے کارفرما 'غیر مرئی قوتوں' کے لیے
تھا ۔
قومی ٹیلی ویژن چینل پر ہردن پھیلائی جانے والی نفرت انگیزی کے خلاف پچھلے
دنوں سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ سب سے زیادہ منافرت میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہوتی ہے۔
حقیقت حال بیان کرتے ہوئے جسٹس جوزف نے سوال کیا تھا کہ ہمارا ملک کہاں جا
رہا ہے؟ ٹی وی اینکرز پر بڑی ذمہ داری ہےمگر وہ مہمان کو بھی وقت نہیں
دیتے، ایسے ماحول میں مرکز کی خاموشی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ریگولیٹر
سسٹم ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا گیاتھا۔اس دگرگوں صورتحال کے لیے
موصوف نے سیاسی جماعتوں کی مفاد پرستی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے ٹی وی
چینلز پر ان کا آلۂ کار بن جانے کا الزام لگایا تھا ۔ ان کے مطابق سیاست
دان اس نفرت انگیزی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جمہوریت کے ستونوں کو آزاد ہونا
چاہیے۔ جسٹس جوزف نے خبردار کیا تھا کہ اینکرز اگر غلطی کریں گے تو انہیں
اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ہر کوئی اس جمہوریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ امن
چوپڑا پر کی جانے والی کارروائی اسی ہدایت کے مرہونِ منت ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اس پستی کے لیے صرف سرکار ذمہ دار نہیں ہے۔ لال کرشن اڈوانی
نے ایمرجنسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا کو جھکنے کے لیے کہا گیا
تو وہ سجدہ ریز ہوگیا ۔ وہ غالباً خوف و ہراس تھا مگر فی الحال حرص و ہوس
نے ٹی وی اینکرس کو اربابِ اقتدار کے تلوے چاٹنے والاپالتو جانور بنا دیا
ہے۔ اس تناظر میں جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں تقریباً 90
فیصد قیادت کے عہدوں پر اعلیٰ ذات کےلوگوں کا قبضہ ہے۔ ایک بھی دلت یا
آدیواسی ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا کی قیادت نہیں کر رہا ہے تو اس کے کیا
معنیٰ ہیں؟ کیا یہ نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کی خاطر فخر کا مقام ہے کہ
ان میں سے بیشتر لوگ اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کے بجائے سرکار کے آگے دُم
ہلا رہی ہے؟؟کیا کسی طبقہ کے لیے کوئی مقام حاصل کرلینا ہی کافی ہے یا اس
پر رہتے ہوئےذمہ داریوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے؟ وہ اگر اس میں ناکام
ہوجائے تو یہ اس کے نیک نامی کا سبب ہے یا بدنامی کا باعث ہے؟ غالب نے اپنی
کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں
تو کیا ہوتا؟‘۔ ان لوگوں نے تو میڈیا کو زندہ درگور کردیا ہے۔ یہ ابن الوقت
راج درباری اگر میڈیا میں نہیں ہوتے تو اس قدر فتنہ فساد نہیں ہوتا ۔
معروف عالمی ادارہ آکس فیم انڈیا نے نیوز لانڈری نامی چینل کی مدد سے
تقریباً 43 ہندوستانی پرنٹ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا آؤٹ لیٹس کا جائزہ لے
کر ایک رپورٹ ترتیب دی جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پرنٹ، ٹی وی اور
ڈیجیٹل میڈیا میں تقریباً 90% لیڈر شپ کے عہدوں پر اعلیٰ ذات کے لوگوں کا
قبضہ ہے۔ خبر، مضامین اور دیگر مواد کے لکھنے والوں میں بھی ایسا ہی عدم
توازن ہے۔121 نیوز روم میں ایڈیٹر انچیف، مینیجنگ ایڈیٹر، ایگزیکٹو ایڈیٹر،
بیورو چیف اسی مخصوص طبقہ سے آتے ہیں۔ اخبارات، ٹی وی نیوز چینلز، نیوز
ویب سائٹس اور میگزینز میں ان پٹ آؤٹ پٹ ایڈیٹر میں سے 106 / کی قیادت کے
عہدوں پراعلیٰ ذاتوں کے لوگ فائز ہیں، جبکہ پانچ اوبی سی کے پاس ہیں۔دیگر
6/ پسماندہ طبقات اور اقلیتی برادریوں کے پاس ہے۔ ہر چار اینکرز میں سے تین
اعلیٰ ذات سے ہیں۔ اس لیے جو تعفن پھیل رہاہے اس کے لیے کوئی دلت، آدیواسی
یا او بی سی ذمہ دار نہیں کیونکہ وہ توموجود ہی نہیں ہے۔ مباحثوں کا معیار
اس لیے گرگیا ہے کیونکہ پرائم ٹائم ڈیبیٹ شوز کے 70فیصد سے زیادہ پینلسٹ
کیلئے، نیوز چینلز اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بلاتے ہیں۔ اس لیے
موجودہ صورتحال میں میڈیا پر ان طبقات کا چھا جانا فخر کی نہیں شرم کی بات
ہے۔
امسال مئی کے اندر عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس
ایف) کی شائع کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس2022 میں ان لوگوں کی بدولت
ہندوستان 8 درجہ گرکر 150 پر پہنچ گیا۔صحافتی واچ ڈاگ ادارے کی تحقیق میں
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں میڈیاکے اندر تفریق و امتیاز کا انکشاف ہوا۔
مذکورہ ادارے کے امریکی ڈپٹی ڈائریکٹر کلیٹن وائمرز نے تسلیم کیا کہ دنیا
بھر میں جانبدارانہ خبروں کے عروج کی وجہ سے مصدقہ صحافت کا نقصان ہوا ہے۔
میڈیا میں تفریق اور معلومات کی افراتفری سے سماجی سطح پر نیا تفرقہ پیدا
ہو رہا ہے۔ میڈیا کے معاملے میں دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ بہادر کی
حالت بھی مثالی نہیں ہے۔ امریکہ کو میڈیا کی آزادیوں کے لحاظ سے 42 واں
درجہ دیا گیا ہے۔ آر ایس ایف کے مطابق امریکی ابتری کی وجوہات میں مقامی
اخبارات کا خاتمہ ، میڈیا میں تفریق، ڈجیٹل پلیٹ فارمز کی وجہ سے صحافیوں
کے خلاف عداوت اور جارحانہ رویوں کا پروان چڑھنا اہم ہیں۔ اس سے صحافت کو
نقصان پہنچا ہے۔ موصوف کے مطابق کچھ ممالک میں میڈیا اداروں کو حکومت کی
جانب سے فنڈنگ دی جاتی ہے جبکہ ان کے ادارہ جاتی آپریشن میں مداخلت نہیں
کی جاتی تاکہ یہ ادارے سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد رہیں۔
دنیا بھر میں مین اسٹریم میڈیا کے مقابلے اب سوشیل میڈیا ایک طاقتور حریف
بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ہندوستان کے اندر 2009 کے عام انتخابات سے قبل کانگریس
کے رکن پارلیمان ششی تھرور ٹوئٹر پر اکائونٹ رکھنے والےواحدہندوستانی
سیاستدان تھے۔اس کی وجہ غالباً ماضی میں اقوام متحدہ میں انڈر سیکرٹری جنرل
کے طور پر ان کی ملازمت تھی مگر 2014 کے انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں
نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ اس لیے مذکورہ انتخابات کو ہندوستانی سیاست
میں سوشل میڈیا کے انقلاب سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ بی جے پی کو اس معاملے
میں نمایاں برتری حاصل رہی اور پانچ سال کے اندروہ مبینہ طور پر 2تا 3لاکھ
واٹس ایپ گروپس اور 18000جعلی ٹوئٹر ہینڈلز چلانے لگی ۔ اس کے بعدڈھائی سال
کے اندر اس میں نمایا ں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ حکومت اپنی کارکردگی کی
بنیاد پر نہیں بلکہ تاثر کے سبب چل رہی ہے اور اس جعلی ماحول سازی میں سب
سے بڑا کردار سوشیل میڈیا ادا کررہا ہے۔ بی جے پی نے غلط معلومات اور
پروپیگنڈے کے لیے ایک آئی ٹی سیل قائم کررکھا ۔ اس کا استعمال افواہوں کو
پھیلانے، مخالفین کو بدنام کرنے اور انتخابی مفاد کی خاطر نفرت انگیزی کے
لیے کیا جاتا ہے ۔
وطن عزیز سوشیل میڈیا کی بیداری میں بے شمار اضافہ ہوا ۔ سرکاری اعدادو
شمار کےبی جے پی کے پہلے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اس کا استعمال کرنے
والوں کی تعداد پچاس کروڈ سے تجاوز کرگئی۔ ایک جائزے میں نے یہ انکشاف بھی
ہوا کہ ہندوستان میں واٹس ایپ صارفین کا چھٹا حصہ کسی نہ کسی سیاسی گروپ کا
حصہ تھا اور ایک تہائی لوگ روزانہ یا باقاعدگی سے سیاسی مواد دیکھتےتھے ۔
2014 کی انتخابی مہم کے دوران سوشیل میڈیا کی مدد سے راہول گاندھی کے بطور
’’پپو‘‘ پیش کرکے ان کا خوب مذاق اڑایا گیا ۔ کانگریس نے 2014 کے مقابلے
2019میں اپنے سوشل میڈیا اخراجات کے اندر دس گنا کا اضافہ کیا مگر وہ پھر
بھی بی جے پی کا مقابلہ نہیں کرسکی ۔ فی الحال راہول گاندھی بھارت جوڑو
یاترا کے لیے نکلے ہوئے ہیں ۔ پہلے تو بی جے پی کے میڈیا سیل نے ان کو
بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مقبول ہوتی چلی گئی۔ فی الحال بی جے پی
میڈیا میں اسے نظر انداز کروارہی ہے لیکن سوشیل میڈیا کے ذریعہ ہی یاترا کی
تشہیر ہورہی ہے اور اس کی مقبولیت نےبی جے پی کی نیند اڑا رکھی ہے۔ یعنی کل
تک جس میڈیا کا استعمال بی جے پی نے کانگریس کے خلاف کیا تھا اب وہی اس کی
جڑ کاٹ رہا ہے۔ میڈیا ایک ایسی دو دھاری تلوار ہے جو اپنے استعمال کرنے
والے کو بھی زخمی کرسکتا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
|