فیچر اکیلی ماں

فیچر اکیلی ماں تحریر ساجدہ فرحین فرحی

اپنے بچوں کی خاطر دی گٸی قربانیاں میرا رب دیکھ رہا ہے جو انھیں ہرگز راٸیگاں نہیں جانے دے گا دنیا والے مجھے اس دنیا میں گھر نہ بسانے کے طعنے ضرور دے سکتے ہیں مگر مجھے اپنے مالک کاٸنات پر کامل یقین ہے جنت میں ایک محل میرا منتظر ہوگا مصائب کے دوران کیے جانے والےمیرے صبر اور بےضمیر لوگوں کی جانب سے برساٸی جانے والی طنزکی تیروں کو آزماٸش سمجھ کرزبان سے اپنے رب کا شکر بجا لانا شعاٸر بنا رکھا اپنے ساتھ کی گٸ ہر ظلم و زیادتی کو اپنے رب حضور اسکی عدالت میں رقم کرکے مجھے اب کوٸی فکر نہیں وہ جو ستر ماٶں سے بڑھکر پیار کرتا ہے اسکی مصلیحت ہی کار فرما ہوگی میری زندگی کے پیش آنے والے ہرمعاملے میں۔یہ الفاظ ہیں انتیس سالہ عالیہ کے جواپنے تین بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں عالیہ کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہوا مگر کہتی ہیں لگتا ہے گویا ان پانچ سالوں میں پانچ عشرے گزارے ہوں

ہمارے معاشرے میں اکیلی ماں کو درپیش مشکلات بے شمارہیں خاص طور ایسی ماں جسکے بچوں کے باپ نے اسے چھوڑ دیا ہو اور طلاق بھی نہ دےکیونکہ ہمارے معاشرے میں بیوہ کے ساتھ ہمدردی بھی کی جاتی ہے اور اسکے یتیم بچوں پر دست شقفت بھی رکھا جاتا ہے مگر طلاق یافتہ یا شوہر کی جانب سے حق تلفی کا شکار عورت سچی ہونے کے باوجود معاشرتی ستم کا نشانہ بنتی ہے خوبصورت سلیقہ مند اورنیک سیرت ہونے کے باوجود اسے گھر نہ بساۓ جانے کا ذمہ دار ٹہرادیا جا تا ہے بغیر حقاٸق کے جانے مشکوک سمجھا جاتا ہے

اکیلی ماں سے مراد ہے جذباتی جسمانی اور معاشی تینوں محاذوں پر اپنے بچوں کےلے تنہا مقابلہ کرکے انھیں پروان چڑھاناہے۔کوٸی بھی عورت یہ سوچ کر شادی نہیں کرتی کہ ایک وقت ایسا بھی آۓ گا کہ وہ طلاق یافتہ کہلا کر اکیلے اپنی اولاد کی پرورش کرےگی۔اس اکیلی ماں کو نوکری پر رکنھے والے یہ سوچ کر رجیکٹ کردیتے ہیں کہ یہ عورت ماں اور باپ دونوں کے فراٸض اکیلے نبھا رہی ہے۔گھر پر اسکے بچے اکیلے اسکا انتظار کررہے ہونگے اور سارے مساٸل اس نے اکیلے ہی حل کرنے ہیں جو شاید کبھی ختم ہی نہیں ہونگے اور اس وجہہ سے وہ اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہےگی کیونکہ وہ اکیلی ماں جو ہے

میں چوبیس سال کی تھی اور وہ چالیس عمر کے اس فرق کو میرے گھر والوں نے اسلے نظر انداز کردیا کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ اور بیرون ملک برسرروزگار تھے کراچی کی ایک معروف انجينئرنگ یونيورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد امریکہ سے ایم ایس کیا ہوا تھا۔میرے پاس ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری تھی اور ایک اچھی فارماسٹیکل کمپنی میں جوب کررہی تھی۔شادی کے کچھ عرصے بعد ہم امریکا شفٹ ہوگۓ۔میرے شوہر کی اچھی تنخواہ تھی مگر انھوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں بھی جوب کروں ۔میں شرعی پردہ کرتی تھی مجھے بالاخر ایک میڈیکل اسٹور پر نوکری مل گٸ جسکا مالک ایک مسلم تھا اور انھیں میرے پردے پر کوٸی اعتراض نہیں تھا۔اپنی آدھی سے زیادہ تنخواہ میرے شوہر پاکستان بھیج دیتے اور گھرکے اخراجات کے لے میری تنخواہ خود رکھ لیتے کہتے یہاں پر مرد عورت سب برابر ہیں گھر کا کرایہ گوروسری سب میں تم شیٸر کروگی۔مجھے نہ امریکا میں رہنے کا شوق تھا نہ مردوں کی برابری کرنے والی مغربی عورت بننے کی میری کوٸی خواہش تھی میں نے کہا میں ایک مشرقی عورت ہوں مجھے گھر میں رہ کر خاندان کی تشکيل کرنے کا ارادہ کرکے شادی کا فیصلہ کیا تھا میں آپکےلے کھانا بناتی ہوں گھر کے کام کرتی ہوں شوہرکے حقوق پورے کرتی ہوں آپکے ساتھ وفادار اور مخلص ہوں اور اب ہماری آنے والی اولاد کی بہتر صحت وتربیت کے لےگھر میں رہنا چاہتی ہوں مگر انکاکہنا تھا تم کونسا انوکھا کام کررہی ہو یہاں پر سب عورتيں بچے بھی پیدا کرتی ہیں اور نوکری بھی کرتی ہیں۔میں نے بہت مشکل سے وہ وقت گزرا اور بالآخر بیٹی کی پیداٸش کے بعدنوکری چھوڑدی

میرے شوہر کی تنخواہ ہزاروں ڈالر تھی مگر بیوی بیٹی کیلٸے چند ڈالر بھی نہ تھے انکاکہنا تھا میری بہنوں نے مجھے اس شرط پر شادی کرنے کی اجازت دی تھی کہ شادی کے بعد تم اپنا خرچہ خود اٹھاوگی اسی لے میں نے ایک پڑھی لکھی نوکری کرنے والی لڑکی کا انتخاب کیا مگر تم نے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دی اور دوسری شرط یہ کہ تم میری بہنوں کے ساتھ گھر میں ساتھ نہیں رہوگی حالانکہ وہ گھر میرے شوہر نے اپنی کماٸی سے بنایاہے۔

بیٹی کے اخراجات پورے کرنے کےلیۓ میرے شوہر نے تجویز دی تم کھانا بہت اچھا پکاتی ہو ایسا کرو آرڈر پر لوگوں کا کھانا بنادیا کرو چند ڈالرز ہی آجاٸینگے تمہارے پاس ویسے بھی تمہیں گھریلو مشرقی عورت بنناہے پھر میں نے اپنی معصوم بچی کےساتھ کام شروع کیا بہت مشکل ہوتی تھی اکیلے سارا دن کام کرنا بچی پالنااور کام بھی کرنا رات کو جاگنا مگر کچھ تو کرنا تھا مجھے پیسوں کی ضرورت تھی پھر اللہ تعالی نے ایک ساتھ دو بیٹوں کی نعمت سے نوازہ مگر میرے شوہر نے خوشی کا اظہار نہ کیا اور سسرال والوں نے تبصرہ کیا شادی کے دوسال میں تین بچے وہ بھی امریکا میں کتنا مہنگا ہے وہاں اولاد پالنا کیونکہ میرے شوہر کی کماٸی سے انکی بہنوں کی اولاد پل رہی تھی اسلے بھاٸی کی اولاد کے پیدا ہونے کی انھیں کوٸی خوشی نہ تھی۔شوہر نے نے کہا میں نے پڑھی لکھی نوکری کرنے والی لڑکی سے اسلے شادی کی تھی کہ میرا بوجھ ہلکا کرے گی تم نے تو میری ذمہ داریوں میں اضافہ کردیاہے۔مجھے تمہیں یہاں رکھنے کا کوٸی فاٸدہ نہیں واپس پاکستان چلی جاو اپنی ماں کے گھر مجھے بیوی کے رشتے کی کوٸی خاص ضرورت نہیں تم سے پہلے بھی میرا گزرا ہو رہ تھا آٸندہ بھی کرلونگا

جس انسان کوحرام اور مکروع طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی لت لگی ہو اسے جاٸز اور حلال راس نہیں آتا۔جن نوجوانوں کی خواہش کے باجود صیح عمر میں شادی نہ کی جاۓ وہ بری عادتوں کے عادی ہوجاتے ہیں

انٹرنیٹ پر موجود پورن ساٸٹ کا کاروبار ایسے افراد کی وجہہ سے چمکتا ہے آنکھوں سے شروع ہونے والا یہ چسکا گناہ کبیرہ پر جاکر انجام کو پہنچتا ہے

اس گناہ میں وہ والدین برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی تربيت میں کوتاہی برتتے ہیں اور ٹھیک عمر میں شادی نہیں کرتے اور کبھی بہنوں کی شادیوں کے انتظار میں بھاٸی کوبھی غیر شادی شدہ رہنا پڑتا ہے

اور اسے بچپن سے یہ گھٹی دی گٸ تھی کہ بیوی تو دوسری آسکتی ہے ماں بہنیں نہیں میں نےاپنے شوہر کو راہ راست پر لانے کی بہت کوششيں کیں پھر تھک ہار کر علحیدگی اختیار کرلی اور اپنے بچوں کی ماں اور باپ دونوں کے فراٸض خوش اسلوبی سے نبھاۓ

پاکستان آکر ایک ملٹی نشینل کمپنی میں نوکری مل گٸ اور الحمداللہ اب اعلی عہدے پر فاٸز ہوں

سنگل مدرز اکیلی ماٶں کے لے ایک ادارہ قاٸم کیا ہےجہاں انکی معاشی مدد اور اخلاقی تربيت کی جاتی ہے کہ ماں کا مقام رب نے کتنا بلند رکھا ہے انکے پاوں کے نیچے جنت کیوں ہے زندگی کے کسی بھی موڑ پر ماں ہمت ہار دے تو بچےبرباد ہوجاتے ہیں ماں مظبوط و مستحکم بنے چاہے وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو

میرے شوہر کہتے ہیں مجھے معلوم ہے میرے بچے ایک قابل ماں کے زیرتربیت پروان چڑھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے تم مجھے معاف کردوگی جب پڑھاپے میں مجھے تمہاری اور بچوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ تم ایک نیک اور مشرقی عورت ہو

جو مرد ساری دنیا کی عورتوں کو دیکھ چکے ہوتے ہیں انکی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں ایسی شریک حیات نصیب ہو جسکی ایک جھلک بھی کسی نہ محرم نے نہ دیکھی ہو

میرے شوہر نے بھی یہی سوچ کر میرا انتخاب کیاتھا مگر بدقسمتی سے مجھے ایسا شوہر نصیب ہوا جو ایک بہت تابعدار بیٹا ذمہ دار بھاٸی تو تھا مگر مخلص شوہر اور شفیق باپ نہ بن سکا اوراپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتا رہا اپنی بہنوں کے دباو کا شکار ہوکرجسکی ایک بہن نے آٸیڈیل کی تلاش میں اپنے آنے والے رشتے ٹھکراکر عمر گذار دی اور بھاٸی کی شادی شدہ زندگی کواپنی حسرتوں کے بھینٹ چڑھا دیا اور دوسری نے اپنی اولاد کو بھاٸی کی کماٸی سے جوان کرکے اپنے شوہر کو نکما بنادیا بھاٸی کے بیوی بچوں کو بےگھر کرکے گھر پراپنا قبصہ قاٸم رکھا

مگر یہ سب ظلم ڈھانے والا مرد بھی کبھی مظلوم ہوتا ہے اپنی ماں بہنوں اور حالات کی وجہہ سے اچھا بیٹا اور بھاٸی تو بن جاتا ہے مگر محبت کرنے والا شوہر اور ذمہ دار باپ نہیں بن پاتا۔

پاکستان کے قانون میں یتیم بچوں اور والد کے لاپتہ ہونے والوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تو قانون موجود ہے لیکن ایسے بچے جن کے والد حیات ہوں اور تعاون ناپید ان کے لیے قانون خاموش ہے۔

تطہیر کہتی ہیں والد کا نام میری دستاویزات میں تو موجود ہے لیکن والد کا میری زندگی میں کوئی کردار نہیں۔

تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے اور یہی دراصل ان کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنے دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔

تطیہر کہتی ہیں کہ انھیں میٹرک سے لے کر اب تک تعلیمی اسناد اور سفری دستاویزات میں والد کی جانب سے کسی قسم کا تعاون فراہم نہیں کیا

'میں انھیں والد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں ۔۔۔ وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں ۔۔۔ لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟ کیا یہی تمھاری ماں ہے۔ میں نے سماجی سطح پر ذلت سہی ہے۔'

میڈیا سے گفتگو میں تطہیر نے بتایا کہ 'آج میں جس مقام پر ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ میں نے آج تک اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا اور پہلی بار آج عدالت میں بھی میں نے ان کی جانب دیکھنا نہیں چاہا۔ یہ شاید پہلی اور آخری ملاقات ہو۔'

تطہیر اور ان کی والدہ کو شکایت ہے کہ جب میٹرک میں انھیں فارم ب بنانے کی ضرورت تھی تو والد نے انکار کیا تھا۔وہ کہتی ہیں کہ جب میٹرک میں 2009 میں والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ ’پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں تو میں تمھارے لیے سوچوں گا

سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوسری سماعت کے موقع پر تین رکنی بینچ کے روبرو اپنے والدین کے ہمراہ کھڑی تطہیر فاطمہ نے روتے ہوئے یہی مطالبہ پھر سے دہرایا۔

یہ ایک فیملی کورٹ کا منظر دکھائی دے رہا تھا جس میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔شاہد ایوب کے بقول جب سنہ 1998 میں ان کی فہمیدہ سے علیحدگی ہوئی تھی تو پشاور میں خاندان کے جرگے نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ بعد میں ایک آدھ بار کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔انھوں نے عدالت کی سرزنش پر کہ کیا آپ نے کبھی کسی ریاستی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ملنے کا سبب بنے، بتایا ’جی میری کوتاہی ہے میں نے ایسا کبھی نہیں کیا‘۔

ان جیسے باپ کی کوتاہیوں سے شاید عدالت تو درگزر کرسکتی ہے مگر کیا روز محشر اللہ کی عدالت میں انکی بخشیش ہوپاۓگی۔


 

Sajida farheen farhee
About the Author: Sajida farheen farhee Read More Articles by Sajida farheen farhee: 11 Articles with 6879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.