معاشرتی مسائل سے مراد اایسی حالت ہے جس میں لوگوں کی ایک
بڑی اکثریت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ
یہ ایک ایسے ناپسندیدہ رویہ کا نام ہے جس کو لوگوں کی اکثریت درست کرنا
چاہتی ہے۔ معاشرتی مسائل تب جنم لیتے ہیں جب معاشرے کے رائج کردہ قوانین سے
انحراف کیا جا تا ہے۔ معاشرتی مسائل چونکہ رائج نظام معاشرت کے لئے خطرہ
ہوتے ہیں اس لئے ان کا بر وقت سد باب ضروری ہوتا ہے ایسانہ ہو تو یہ
معاشرتی استحکام کو چیلنج کرتے ہیں اور اس کے استحکام کے لئے خطرہ بن جاتے
ہیں۔
پوری تاریخ میں، اور جب سے انسانیت کاموجود قائم ہوامعاشرتی مسائل اس کا
ایک حصہ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ مسائل بدلتے رہتے ہیں، لیکن ان کا
وجود کبھی ختم نہیں ہوا۔ دنیا کے تمام ممالک اور معاشروں کو معاشرتی
پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مسائل جتنے کم ہوں گے معاشروں کی ترقی
اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اسے ان تمام معاشرتی مسائل کا سامنا ہے جو
دیگر ترقی پذیرممالک کو درپیش ہیں۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے
معاشرتی مسائل مذید سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستان
کو بہت سے معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔ جنمیں کثرت آبادی، وسائل کی غیر
مساوی تقسیم، مہنگائی، غربت، بے روز گاری، سیا سی عدم استحکام، دہشت گردی،
بچوں کی مشقت، جسم فروشی،ناخواندگی اور بیماریاں، معاشرے میں بدامنی،منشیات
کا استعمال، سمگلنگ، رشوت ستانی،غربت، ناخواندگی، بے روز گاری، عدم تحفظ
جیسے مسائل کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی، نوجوانوں
میں شدت پسندی کے رجحانات، معاشی ابتری اور دوسرے معاشرتی مسائل کا سامنا
ہے۔ معاشرتی مسائل کی وضاحت ہم یوں بھی کر سکتے ہیں کہ معاشرتی مسائل سے
مراد ایک ایسی صورت حال ہے جس میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد پر اس کے منفی
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اب دیکہنا یہ ہے کہ جن مسائل کا ذکر اوپر ہوا وہ بذات خود مسائل نہیں ہیں
بلکہ وہ ایک اصل مسئلہ کی وجہ سے پیدا ہو ئے ہیں اور وہ مسئلہ ہمارا مروجہ
جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام ہے ان مسائل کے پیدا کرنے میں ہی اس نظام
کی بقاء ہے۔یہ نظام معاشی مساوات قائم نہیں کرسکتا کیونکہ اس سے وابستہ
عناصر کی جاگیروں،دولت کی فراوانی، اور تعیشات کاسلسلہ قائم ہے۔ وہ یکساں
تعلیمی نظام کا فروغ نہیں چاہتے جس کی بدولت عوام میں شعور بیدار ہوکر اپنے
اصل مسائل کا ادراک پیدا کرکے ان کے اس استحصالی نظام کا خاتمہ کرسکے اور
حقیقی سیاست۔ عمومی خدمت کا ماحول بن سکے۔ سماجی بگاڑ میں بنیادی رول اس
سرمایہ دارانہ اور جاگیردانہ نظام کا ہے لہذا سماج کی بہتری کیلیے
سب سے ضروری امر اس سسٹم کے خاتمے کا سامان پیدا کرنا ہے تاکہ معاشرے میں
رہنے والے تمام لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔ دینی پیشواؤں نے تعلیم پراجارہ
داری کی بنا ڈالی اور طبقاتی نظام کو مستقل ادارے کی شکل دے کر معاشر ے کی
گروہ بندی کا نظام وضع کر کے ایسی اقدارکو جنم دیا جس سے لوگوں کے رویے
لاشعوری طور پر اسی شکل میں ڈھل گئے۔دینی طبقہ جسے سیاسی جاگیرداروں اور
سرمایہ دروں کی پشت پنای حاصل ہے اور یہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں
اور مدارس سے تعلق رکھتے ہیں وہ جدید اور عصری علوم کو دنیا وی قرار دے کر
اسے رد کتے ہیں وہ بہی اپنے مخصوص فکر کے اعتبار سے چند مخصوص دینی کتب
پڑہاتے ہیں جن میں عقائد کی درستگی،اصلاح اعمال اور چند فقہی مسائل پر
مشتمل مضامین شامل ہیں۔ان لوگوں کا سیاست، سماجیات اور عمرانیات وغیرہ سے
دور دور تک کوئی تعلق نہ ہے اور ان چیزوں سے لاتعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
معاشرے میں موجود ان دو طبقات میں ایک دوری نظر آتی ہے اور یہ طے شدہ بات
ہے کہ جو معاشرہ ذہنی وحدت سے محروم ہوتا ہے وہ ہمیشہ انتشار کا شکار رہتا
ہے تو سماج کی بہتر تشکیل میں تعلیمی سسٹم کا بنیادی رول ہوتا ہے جس سے ایک
نیا سماج تشکیل پاتا ہے۔مگر ہمارے ھاں وہ موجود نہیں ہے اور ہم جدید تعلیم
سے محروم ہیں۔ ہمارے ایوانوں میں 98% طبقہ جاگیرداروں،سرمایہ داروں،
سرداروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے جن کا غریب عوام کے مسائل سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔ ظاہری بات ہے غربت کا مسئلہ وہی جانتا ہے جس نے غربت دیکہی ہو
کسان کی ترقی، مزدوروں کے مسائل، کیلیے انکے نمائندے ہی بہتر قوانین
بناسکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اس قسم کی سیاست سے محروم ہیں. عام طور پر،
جرائم غربت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ جب آپ کو کام تک رسائی حاصل نہیں ہوتی
تو جرائم کا سہارا لیکر وسائل حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جسکا تیز ترین
طریقہ چوری، بدمعاشی، قتل و غارتگری اور کرپشن ہیں۔
منشیات اور شراب کا نظام ایسا نظام ہیں جن میں ملوث ہو کر وہ منظم جرائم کا
ارتکاب کرتے ہیں۔ خاص طور پر شہروں کے غریب ترین علاقوں میں جرائم پیشہ
گروہ ان کی لپیٹ میں ہے۔
معاشرے کو ایسے جرائم سے پاک کرنے کے لئیے اس امر کی ضرورت ہے کہ مناسب
قانون سازی کر کے قانون کو متحرک بنایا جائے جو بلا تخصیص امیر، غریب،
کمزور، طاقتور، سیاسی عناصر، عسکری قوت، سیاستدان، جاگیردار، سرمایہ دار ہر
مجرم کو چوری, ڈکیتی، قوم ی خزانے کی لوٹ مار، بد دیانتی، ریپ اور شراب
نوشی جیسے جرائم میں ملوث ہونے پر سخت سے سخت سزا دے۔ جبکہ دیگر مسائل جیسا
کہ جھوٹ اور بہتان تراشی کے تدارک کے لئیے مناسب آگاہی اور تعلیم کی ضرورت
ہے۔ دوسری بات یہ کہ سوشلزم سماجی مقاصدکے حصول کے لئے ہے ہمیشہ مقاصد ان
شخصیات کے ذہن میں جنم لیتے ہیں جن کے عزائم بلند ہوتے ہیں اور وہ سماجی
ترقی کے حق میں ہوتے ہیں۔۔ اگر یہ مقاصد ساکت و جامدنہ ہوں بلکہ فعال اور
موثر ہوں،تو انہیں وہ انسان اپناتے ہیں جو قدرے لا شعوری طور پر معاشرے کے
سست ارتقا کا تعین کرتے ہیں۔ معاشرتی مسائل کے حل کیلئے انقلابی مارکسزم کی
توانا تعلیمات کی روشنی میں مزید نشونما کی ضرورت ہے۔ انقلابی طاقت کو
تعمیر کرکے اس دھرتی پر سوشلسٹ انقلاب کا برپا کیا جانا نہ صرف ضروری ہے
بلکہ یہ وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔۔ ایسی صورت میں سامراجی لوٹ مار،
ریاست کا جبری قبضہ اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے محنت کشوں کی سربراہی
میں تمام قومیتوں کی رضاکارانہ فیڈریشن کی تشکیل دیتے ہوئے قومی جبر اور
استحصال کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
|