شفقت چیمہ: 14 سال کی عمر میں جمعہ پڑھانے والا لڑکا، پنجابی فلموں کا ولن کیسے بنا اور آجکل کہاں ہیں؟

image
 
یہ 1970 کا عشرہ تھا۔ تاریخی شہر لاہور میں قائم مشہور دینی مدرسے جامعہ نعیمیہ میں 14 سال کا ایک لڑکا نماز جمعہ کی امامت کروایا کرتا تھا۔
 
عین ممکن ہے کہ نمازی یہ سوچتے ہوں گے کہ ایک دن یہ لڑکا اس مدرسے سے بڑا عالم دین بن کر نکلے گا لیکن یہ شاید کسی کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ نوعمری کے بانکے پن میں یہ سیدھا سادھا لڑکا ایک ایسی دنیا کے فلک پر ستارہ بن کر نمودار ہوگا جسے وہ ابھی تک غیر مذہبی یا حرام تصور کرتا رہا۔
 
یہ کہانی ہے پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایسے نامور فنکار کی جنھیں تماشائی سنیما سکرین پر گذشتہ چار دہائیوں سے پنجابی فلموں میں ایک خوفناک ولن کے روپ میں دیکھتے آرہے ہیں۔
 
موسم سرما کی ایک شب کراچی پریس کلب میں گرم چائے کی ایک پیالی کے دوران ہونے والی گفتگو میں شفقت چیمہ نے اپنی نجی اور فنکارانہ زندگی کی کہانی سنانا شروع کی۔
 
انھوں نے بے تکلف ہو کر بتایا کہ ’میرا مذہبی گھرانے سے تعلق ہے۔ میرے والد صاحب ایک جامعہ مسجد کے خطیب تھے۔ میں اس وقت 14 سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ میں جمعہ (کی نماز) پڑھاتا تھا۔‘
 
’14 سال کی عمر میں، میں نے ایک مولوی صاحب کے ساتھ ایک فلم دیکھی۔ اس فلم کا نام تھا ’مکھڑا‘۔ اس کا بڑا ایک مشہور گانا تھا۔‘
 
گانے کے بول کچھ یوں ہیں:
میرا دل چناں کچ دا کھڈونا (میرا دل ایک کھلونا ہے)
ایہدے نال جے توں دل پر چئونا (اگر اس سے دل لگایا)
تے ویکھیں ایھنوں توڑنہ دیویں (تو اسے توڑ نہ دینا)
 
اس فلم نے سادہ لوح لیکن خوب رو لڑکے کی زندگی میں ایسا اثر ڈالا کہ وہ لڑکپن کے بانکے پن میں مسجد چھوڑ کر سٹوڈیو جا گھسا۔
 
’وہ (گانا) لڑکپن میں بس اثر کر گیا اور میں نے مدرسہ چھوڑ دیا۔ اور لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ یار یہ کیسے لوگ ہیں یہ جو ایکٹر ہوتے ہیں، فنکار ہوتے ہیں۔ آخر عشق پروان چڑھ گیا۔ میں نے وہ راستہ اختیار کر لیا۔‘
 
image
 
شفقت چیمہ نے 1974 میں لاہور میں قائم پاکستان کے پرانے سٹوڈیوز میں سے ایک، شاہ نور، میں قدم رکھا۔
 
یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے وسطی صوبے پنجاب میں پنجابی فلموں کا عروج تھا۔ اس وقت سلطان راہی اور انجمن کی جوڑی بطور ہیرو اور ہیروئن سپرہٹ جا رہی تھی جبکہ مصطفیٰ قریشی سمیت دیگر کئی فنکار ولن کے روپ میں کامیابیاں سمیٹ رہے تھے۔
 
1979 میں بننے والی پنجابی فلم مولا جٹ میں سلطان راہی کی بطور ہیرو اور مصطفیٰ قریشی کی بطور ولن اداکاری نے اس فلم کو لازوال بنا دیا تھا۔ اس کی کہانی پر مبنی 2022 کی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ میں شفقت چیمہ نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ فلم کے شعبے میں آئے تو ’میں کسی سے جھجھکایا نہیں، شرمایا نہیں۔ میں نے سب سے پہلے شاہ نور سٹوڈیو کی زمین کو بوسہ دیا اور دعا مانگی کہ یااللہ میں اس فیلڈ میں آیا ہوں، مجھے بھی ستارہ بنا دے اور لوگ ہنس پڑے جو وہاں پر موجود تھے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’آخر یہ میرے عقیدے کی بات ہے۔ وہ وقت آ ہی گیا جب سنہ 1974 میں مجھے ایک فلم میں ایکسٹرا فائٹر کا رول ملا۔ 1974 سے لے کر 1989 تک میں نے بطور ایکسٹرا فائٹر فلموں میں کام کیا۔‘
 
پندرہ سال تک فلم انڈسٹری میں چھوٹے موٹے رول کرنے والے شفقت چیمہ نے بتایا کہ سنہ 1989 میں فلم ڈائریکٹر شاہد رانا نے انھیں اپنی ایک پنجابی فلم ’کالکا‘ میں اس وقت کے سپرہٹ ہیرو سلطان راہی کے مدمقابل ’ولن‘ کا رول دیا جس نے، بقول شفقت چیمہ، ان کے لیے کامیابی کے تمام دروازے کھول دیے۔
 
یہ وہ دور تھا جب دیہی پنجاب میں بسنے والی بے شمار قوموں کے درمیان اکثر برادریوں کی بنیاد پر دشمنیاں چلتی تھیں جس کے نتیجے میں خونی جھگڑے کرنا فخر سمجھا جاتا تھا۔
 
ایسے وقت میں بیشتر شائقین پنجابی فلمیں صرف ہیرو سلطان راہی اور ولن مصطفیٰ قریشی کے مابین ہونے والی لڑائیاں دیکھنے کے لیے سنیما گھروں کا رُخ کرتے تھے۔
 
ایسے وقت میں شفقت چیمہ جیسے چھوٹے فنکار کی پنجابی فلموں میں بطور ولن انٹری اور پھر کامیابی کسی معجزے سے کم نہ تھی۔
 
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’اس وقت پنجاب میں عیدالفطر پر تقریباً سات، آٹھ فلمیں ایک ساتھ ریلیز ہوتی تھیں۔ سلطان راہی صاحب کا وہ ’بوم پیریئڈ‘ تھا۔ جب ’کالکا‘ فلم لگی تو اور اس کے ساتھ ریلیز ہونے والی باقی سات فلمیں، جو بڑے بڑے ڈائریکٹرز کی تھیں، وہ فلاپ ہو گئیں حالانکہ اس وقت شفقت چیمہ بھی نیا اور اس کا پروڈیوسر بھی نیا تھا لیکن وہ فلم ہٹ ہو گئی۔‘
 
image
 
شوٹنگ کے دوران شیر نے میری ٹانگ پر پنجہ مارا
شفقت چیمہ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے والدین اور ان کی بڑی بہن انڈین پنجاب کے علاقے امرتسر کے ایک گاؤں منڈیالہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ آئے تھے جہاں سے بعد میں وہ لاہور آ بسے۔
 
تاہم اپنے چہرے کے خدوخال کی وجہ سے وہ پنجابیوں سے بالکل مختلف تاتاری یا منگول دکھائی دیتے ہیں۔
 
شفقت چیمہ کہتے ہیں کہ 1982 میں انھیں ایک فلم میں ہیرو کا کردار کرنے کی آفر ہوئی جس کا نام ’جنگل کنگ‘ تھا اور اس کے پروڈیوسر محمد دین کھوکھر تھے۔ وہ اس سے قبل محلے دار، ڈھول سپاہی، یاراں نال نبھاندے یاریاں وغیرہ جیسی کامیاب فلمیں بنا چکے تھے۔
 
’محمد دین صاحب بولے کہ تم ولن کے رول کرتے ہو تو اگر میں تمہیں بطور ہیرو فلم میں لے لوں تو؟ ’تیرا چہرہ ایسا ہے۔‘ وہ مجھے ’تاتاری ہیرو‘ کہتے ہیں، تاتاریوں کے چہرے میرے جیسے ہوتے ہیں۔‘
 
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’اس فلم کی تیاری کے لیے میں نے 1982 میں مسٹر لاہور کے لیے تن سازی کے مقابلے میں حصہ لیا، دن رات محنت کی لیکن جب تیار ہو گیا تو فلم کی شوٹنگ کے دوران (سرکس کے) شیر کے ساتھ میری لڑائی کا سین تھا۔ شیر نے میری ٹانگ پر پنجہ مار کر اسے چیر دیا۔‘
 
شفقت چیمہ کے بقول اب پروڈیوسر سے اچھا تعلق رکھنے کی بجائے انھیں سرکس کے شیر سے دوستی کرنا تھی۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس واقعے کے بعد محمد دین صاحب نے لکی ایرانی سرکس کے مالک سے کہا کہ اس کو ہم نے فلم میں ٹارزن بنانا ہے لہٰذا اس کو سرکس کے شیر ’سلمان‘، جو بہت بڑا تھا، کے ساتھ چھوڑ دو۔
 
’تین، چار مہینے جہاں بھی سرکس لگتی میں وہاں جاتا۔ شیر کو میں نے اپنا یار بنا لیا، اس کو نہلایا، اس طرح شیر کو مانوس کر لیا۔‘
 
image
 
شفقت چیمہ نے بتایا کہ ’آخر میں علاقے میں لکی ایرانی سرکس لگی ہوئی تھی وہیں پر درختوں کا سیٹ لگا کر شیر کے ساتھ فائٹ کا سین شوٹ کیا۔‘
 
تاہم پروڈیوسر محمد دین کھوکھر کی وفات کے باعث فلم ’جنگل کنگ‘ کے نامکمل رولز سٹور روم کی نذر ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی شفقت چیمہ کا ہیرو بننے کا خواب بھی۔
 
لیکن ان کی مضبوط جسامت اور لمبے قد کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے پروڈیوسرز نے انھیں بطور ولن فلموں میں لینا شروع کر دیا اور اس کبھی نہ ریلیز ہونے والی فلم کی تیاری کے دوران مقابلہ تن سازی کے لیے کی گئی محنت کام آئی۔
 
’میں نے سوچا کہ یار میں کس طرح اپنے آپ کو متعارف کراؤں۔ اس وقت میری تن سازی کے لیے کی گئی محنت کام آئی۔ مرحوم پروڈیوسر محمد دین صاحب نے مجھے بادام کی بوریاں لے کر دی تھیں تیاری کے لیے۔‘
 
شفقت چیمہ کہتے ہیں کہ سنہ 1989 سے لے کر آج تک ’میں بطور ولن ہی کام کر رہا ہوں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں نے 34 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا کیونکہ ڈائریکٹروں نے کہا کہ کوئی دوسرا شفقت چیمہ ابھی آیا ہی نہیں۔‘
 
وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے 45 سال کے فلمی کیریئر میں 941 فلموں میں کام کیا ہے جو کہ، ان کے مطابق، پنجابی فلم انڈسٹری کے سپرہٹ ہیرو سلطان راہی کی فلموں سے بھی تعداد میں زیادہ ہیں۔
 
’یہ پوری دنیا میں ایک ریکارڈ ہے، سلطان راہی صاحب کی 827 فلمیں ہیں۔ میری 941 موویز ہیں۔ تقریباً سترہ، اٹھارہ سال تو میں نے بطورایکسٹرا فائٹر کام کیا۔‘
 
اگرچہ شفقت چیمہ اپنی پیشہ ورانہ کامیابیوں پر فخر محسوس کرتے ہیں تاہم اس کی وجہ وہ اپنے پختہ مذہبی عقائد بیان کرتے ہیں۔
 
’آپ دیکھیں کہ منفی رول کرتا ہوں لیکن یہ عاجزی و انکساری کی بات ہے کہ ماضی کے جو ولن تھے جب وہ سکرین پر آتے تھے تو لوگ انھیں گالیاں دیتے ہیں۔ آپ یقین کریں لوگ میرے قدموں تلے اپنے ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ اللہ نے میری دعا قبول کرلی۔‘
 
image
 
اداکار بننے کے فیصلے سے والدین ناخوش
تاہم شفقت چیمہ کہتے ہیں کہ اداکار بننے کے فیصلے سے ان کے والدین ناخوش تھے اور وہ انھیں دین کی تبلیغ کی طرف لانا چاہتے تھے۔
 
اور جب شفقت نے ان کی بات نہ مانی تو وہ کہتے ہیں کہ ’بس یہ سمجھ لیجیے کہ لڑکپن میں باپ کی دی ہوئی بدعا ہے کہ تم ایکٹر بن جاؤ۔ تیرا عشق لے گیا تجھے فلم انڈسٹری میں لیکن ایک وقت آئے گا جب تجھے یہ پتا چلے گا کہ دین کیا ہے، جب تمھیں یہ پتا چلے گا تو تم پھر واپس آؤ گے۔‘
 
کئی دہائیوں تک شائقین کو لازوال فلمیں دینے کے بعد سنہ 2000 کی دہائی میں ایسا وقت آیا جب پنجابی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوگئی۔
 
اسی دور میں ہی ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی لہر بھی پھیلی جس کے دوران پُرتشدد احتجاجی مظاہروں میں سنیما ہاؤسز کو نذرِ آتش بھی کیا گیا۔
 
کئی ایک نامور مدارس پر شدت پسندی کو فروغ دینے کے الزامات لگے تاہم جامعہ نعیمیہ کا شمار ان مدارس میں ہوتا ہے جنھوں نے امن پسند اسلام کی تبلیغ کی اور خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ دے کر انھیں حرام قرار دیا۔
 
ادھر فلم انڈسٹری کے بیٹھ جانے سے بیشتر نامور فنکار مفلسی کا شکار ہوگئے۔ شفقت چیمہ سمیت کچھ فنکاروں نے گزر بسر کے لیے تھیٹر ڈراموں کا رُخ کیا۔
 
انھی حالات کے دوران شفقت چیمہ 42 سال فلم انڈسٹری میں کام کرنے اور شہرت کمانے کے بعد واپس اپنے مدرسے کی جانب لوٹے۔
 
انھوں نے بتایا کہ ’ایک دن مجھے کچھ علما جامعہ نعیمیہ لے گئے جہاں مولانا مفتی راغب نعیمی نے ایک ہی جملے میں سب بکھیر کر رکھ دیا۔ وہ بولے شفقت حسین ہمارے بڑوں نے ایک درخت لگایا تھا جامعہ نعیمہ، اس کو اپنے دین کا پانی دیا ہم سب نے مل کر، جب وہ درخت جوان ہوگیا تو اس کی کرونبلیں (کونپلیں) آگئیں، پتے لگنا شروع ہوگئے۔ تو اس پر بڑے بڑے پرندے آکر بیٹھے جنھوں نے اپنے گھونسلے بنائے۔ وہ پرندے پتا ہے کون تھے، وہ بڑے بڑے علما تھے۔‘
 
’تم بھی تو ہمارے پرندے ہو نا، جب وہ پرندے ممبر پر بیٹھ کر چہچہاتے ہیں تو سب سے پہلے کہتے ہیں الحمداللہ رب العالمین لیکن جب تم چہچہاتے ہو تو لوگوں کے منھ سے کیا نکلتا ہے؟ یہ ایک ایکٹر ہے، ایکٹ کرتا ہے۔ (علما) کی زندگی بقا ہے، تمہاری زندگی فنا ہے۔ یار آجاؤ بقا کی طرف۔ یہ وہی الفاظ تھے جو لڑکپن میں میرے والد نے کہے تھے۔‘ شفقت چیمہ کہتے ہیں کہ اسی لمحے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ’بقا اور فنا‘ کو الگ الگ رکھنے کی بجائے ان پر ایک ساتھ سفر پر نکلیں گے۔
 
شفقت چیمہ نے بتایا کہ اب وہ باقاعدگی سے مولانا بلال حسین زیدی سے درس نظامی کا درس لیتے ہیں۔
 
’جب میں خطبہ دیتا ہوں تو لوگ مجھے بہت سراہتے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جو فتویٰ لگا دیتے ہیں کہ یہ اداکار ہے اور ممبر پر نہیں بیٹھ سکتا۔‘
 
’ایک مولانا صاحب نے کہا کہ شفقت جہاں تک نظر جاتی ہے لوگ ہوتے ہیں جو تمھیں دیکھنے آتے ہیں۔ اگر تم ایکٹر نہ ہوتے تو اتنے لوگ تمھیں دیکھنے نہ آتے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: