طبیعت پریشان کیوں……!

 جب طبیعت پریشان ہو، کسی کام میں دل نہ لگے، دماغ خالی خالی ہو، آپ کوئی کام یکسوئی کے ساتھ نہ کرسکیں تو ظاہری اسباب کے ساتھ اپنے گناہوں پر غور کریں ، اور غور کریں کہ کہیں ہمارا خالق حقیقی ہمارا معبود حقیقی ہم سے ناراض تو نہیں۔اور پھر اپنی طبیعت میں سدھار کے لیے اﷲ ربّ العزت کے حضور تو بہ کریں ۔ بلاشبہ توبہ ہی کی بدولت تمام پریشانیاں ختم ہوتی ہیں، اور اﷲ ربّ العزت کو توبہ کرنے والوں سے خصوصی محبت ہے۔ جب انسان گنا ہ کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے ،ظلم کرتا ہے، لیکن جب وہ اﷲ ربّ العزت کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے ، توبہ کرتا ہے، عاجزی کرتا ہے، روتا ہے اور تو یقینا توبہ قبول ہوتی ہے۔ اور پھر یہ توبہ باعث رحمت اور باعث نجات بنتی ہے۔ محققین کے نزدیک کامل توبہ کی چند شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ، انسان اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرکے دنیا اور آخرت میں عذاب الٰہی سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔

توبہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہ، طور طریقوں اور برے اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے، جو کہ درحقیقت برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے محبوب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے ،اور بندہ پر عذاب الٰہی کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے جو کہ خلوص دل سے کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔
توبہ کی دوسری شرط ترک گناہ و معصیت ہے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس کے بعد بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اس نے اﷲ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا، یہ احساس ترک گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اﷲ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اﷲ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اﷲ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا‘‘ (سورۃ النساء)۔ اس آیت مبارکہ کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کروا رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اﷲ ربّ العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔

بندہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب وہ کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے، کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اس لئے پکا عزم کرے کہ آئندہ یہ گناہ ہر گز نہیں کروں گا۔ اگر شیطان کان میں کہے کہ تو دوبارہ یہ گناہ کرے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تقوی کا عزم قبولیت توبہ کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اس عزم کو توڑنے کا ارادہ نہ ہو۔بس توبہ کے وقت اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کر لیا جائے کہ اے اﷲ میں آپ کے بھروسہ پر پکا عزم کرتا ہوں کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، تو بندہ جب تک گناہوں پر نادم اور تائب رہے گا اﷲ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی۔

اس کے علاوہ حقوق العباد میں سے اگر کسی کیساتھ ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اﷲ تعالیٰ سے عفو و درگزر کے لئے دست بہ دعا رہے۔آج بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقہ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے، بیک وقت لوٹ کھسوٹ، ظلم و ناانصافی، حق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادت کے ساتھ ساتھ محض لفظی توبہ بھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حدیث نبوی ہے کہ ’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے‘‘۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔ بلاشبہ صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے ۔ایسی کامل توبہ کے بعد زندگی کی مشکلیں آسان ہوتی ہیں ، ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں ، معاشرے کو آفات سے امان ملتی ہے اور ربّ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے ، ایسی رحمت جوکہ دونوں جہانوں کے لیے خیر و برکت کا باعث بنتی ہے۔

 

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817256 views Journalist and Columnist.. View More