قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے فرعون کی جو لاش
سجی ہوئی ہےاس کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے جیسے کسی سمندری مچھلی نے
اس پر منہ مارا ہو۔ قرآن حکیم میں فرعون کا واقعہ گواہ ہے کہ ساری لڑائی
ہی ناک کی تھی۔ ارشادِ ربانی ہے :’’کیا تمہیں موسیٰؑ کے قصے کی خبر پہنچی
ہے؟ جب اس کے رب نے اُسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ "فرعون کے پاس
جا، وہ سرکش ہو گیا ہے‘‘ ۔ دین میں ترجیحات اور مرحلوں کی بات بجا لیکن روز
اول سےہدف واضح ہونا ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو بعثت کے وقت ہی سرکش فرعون
کو دعوت دینے کی ذمہ داری سے آگاہ کردیا گیا۔حضرت موسیٰ کی پرورش ؑ فرعون
کے دربار میں ہوئی تھی اور ان پر ایک نادانستہ قتل کا الزام بھی تھا اس کے
باوجود:’’ موسیٰؑ نے اُس کو بڑی نشانی دکھائی مگر اُس نے جھٹلا دیا اور نہ
مانا ۔ پھر چالبازیاں کرنے کے لیے پلٹا‘‘ ۔ فرعون کی سازش دیکھیں کہ:’’
لوگوں کو جمع کر کے اس نے پکار کر کہا ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘۔ یہ
ہے ناک کا مسئلہ کہ نعوذ باللہ سب سے بڑا رب تو میں ہوں تو مجھے کس کی
بندگی کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس تکبر و سرکشی نے نہ صرف اس کو نشانِ عبرت
بنادیا۔
آزادی کی جدوجہد نہ صرف مجاہدین بلکہ حکمرانوں کے لیے بھی آزمائش ہوتی ہے
۔ ارشادِحق ہے :’’ہم اِن سے پہلے فرعون کی قوم کو اِسی آزمائش میں ڈال چکے
ہیں۔ اُن کے پاس ایک نہایت شریف رسول آیا اور اس نے کہا "اللہ کے بندوں کو
میرے حوالے کرو، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں‘‘۔ نبیٔ وقت نہ صرف
اپنی قوم کا نجات دہندہ بلکہ مستکبرین کی فلاح کا طالب بھی ہوتا ہے۔ حضرت
موسیٰؑ فرعون کو دعوت دینے کے بعد خبردار کرتے ہیں :’’ اللہ کے مقابلے میں
سرکشی نہ کرو میں تمہارے سامنے صریح سند پیش کرتا ہوں اور میں اپنے رب اور
تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں اِس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہواگر تم میری
بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو‘‘۔ یعنی فرعون کوانکار کا
اختیار تو ہے حملہ کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اتمام حجت کے بعد بھی جب وہ
باز نہیں آیا تو حضرت موسیٰ ؑ نے ’’بالآخرکار اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ
مجرم ہیں‘‘۔
رسول برحق کی فریاد کےجواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے :’’ موسیٰؑ کو وحی
بھیجی کہ "راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے
گا‘‘۔ یہ ذہنی تیاری ہے تاکہ تعاقب سے کوئی الجھن نہ ہو۔ اس صورتحال میں
فرعون نے اپنی تباہی کا جو اہتمام کیا اس کی تفصیل یوں ہے کہ :’’ اس پر
فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں نقیب بھیج دیئے۔ (اور کہلا
بھیجا) کہ "یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے
اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے‘‘۔ اپنی برتری
کے خمار میں مبتلا فرعون اور اس کے پیرو کاروں کو اللہ تبارک و تعالیٰ :
’’ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال
لایا اور بنی اسرائیل کو ان سب چیزوں کا وارث کر دیا‘‘۔
فرعون کے غرقابی کی منظرکشی بھی نہایت دلنشین ہے:’’صبح ہوتے ہی یہ لوگ اُن
کے تعاقب میں چل پڑے ۔ جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے
ساتھی چیخ اٹھے کہ "ہم تو پکڑے گئے" موسیٰؑ نے کہا "ہرگز نہیں میرے ساتھ
میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا" ۔ہم نے موسیٰؑ کو وحی کے ذریعہ
حکم دیا کہ "مار اپنا عصا سمندر پر" یکایک سمندر پھَٹ گیا اور اس کا ہر
ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا ۔ اُسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی
قریب لے آئے ۔موسیٰؑ اور اُن سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیا
اور دوسروں کو غرق کر دیا ‘‘۔فرعونیوں کی غرقابی میں سبق یہ ہے کہ :’’ اس
واقعہ میں ایک نشانی ہے، مگر اِن لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں
اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی‘‘۔
قرآن مجید میں فرعون کا انجام یوں بیان کیا گیا ہے کہ :’’جب وہ ڈوبنے لگا
تو بول اٹھا "میں نے مان لیا کہ خداوند حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس
پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے
ہوں" (جواب دیا گیا) “اب ایمان لاتا ہے! حالانکہ اِس سے پہلے تک تو
نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا‘‘۔فرعون کی لاش کو
نشانی بنانے کی خبر یوں دی گئی کہ: ’’اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں
گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں
جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔ دنیا بھرکے سیاح فرعون کی لاش کو
دیکھ کرعبرت نہیں پکڑتے کہ یہی ظالموں کا انجام بد ہے حالانکہ وہ توچیخ چیخ
کر کہہ رہی ہے کہ ؎
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
|