گزشتہ دنوں پاکستان سمیت پوری دنیا میں دماغی امراض کا
عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں یہ شعور اجاگر کرنا
تھاکہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگ ہماری خصوصی توجہ اور شفقت کے مستحق ہیں
اور ان کی بحالی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا یہ شعور
اجاگر کرنا حکومت کا کام ہے اور ان امراض میں مبتلا افراد کو علاج کے لیے
مفت اور بہترین سہولیات کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کے بعد
معاشرے کی بھی ذمہ داری ہے کہ ان افراد کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرے
مگر یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ نہ تو حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں
اور نہ ہی معاشرے نے پاکستان میں 80%دماغی امراض میں مبتلاافراد کے لیے
علاج معالجے کی سہولت ہی میسر نہ ہے اب ہم اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
پاکستان میں ان افراد کا کیا حال ہے حالانکہ دماغی امراض دوسری امراض کی
طرح قابل علاج ہیں جس طرح شوگر ،بلڈ پریشر وغیرہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ
شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض اگر اپنی دوائی کھائے گا تو وہ ٹھیک رہے گا
لیکن باقاعدگی سے دوائی نہ کھانے کی صورت میں مریض کو ہارٹ اٹیک فالج یا اس
کے دماغ کی شریان پھٹ سکتی ہے یہی مثال دماغی امراض میں مبتلا افراد کی بھی
ہے کہ جب ڈپریشن کے مریض کو دوائی نہیں ملے گی تو وہ خود کشی کا ارتقاب بھی
کر سکتا ہے۔
یہ میرا چیلنج ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کا کوئی سائیکاٹرسٹ یہ
کہہ دے کہ ڈپریشن عذاب نہیں ہے تو مجھے الٹا لٹکا دیا جائے ڈپریشن کا واحد
سہارا اس کی ادویات ہوتی ہیں مگر جب اس کی ادوایا ت کو بند کر دیا جائے گا
تو پھر مریض کے پاس واحد آپشن خود کشی ہو گا آج حالت یہ ہے کہ ڈپریشن کی
ادویات یا تو مل ہی نہیں رہیں یا پھر شارٹ ہیں نیورولِتھSRمکمل طور پر بند
ہو چکی ہے لورازِی پام جو ATون اور اوور کے نام سے آتیں ہیں کہیں سے نہیں
مل رہیں یہی حال دوسری دماغی امراض شیزوفرینیا اور ہسٹیریا وغیرہ میں دی
جانے والی ادویا ت کا ہے آپ اندازہ کریں کہ میں جس گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں
وہا ں ڈٖپریشن میں مبتلا تین افراد خود کشی کر چکے ہیں اور سینکڑوں دوسری
ذہنی امراض میں مبتلا ہیں ایک گاؤ ں کی یہ حالت ہے تو پھر پورے پاکستان کا
کیا حال ہو گا سیّد یوسف رضا گیلانی جب وہ وزیراعظم پاکستان تھے تو انہوں
نے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ دماغی امراض میں مبتلا افراد ہماری خصوصی توجہ
اور شفقت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے کاش سید یوسف
رضا گیلانی صاحب یہ بھی بتا دیتے کہ قانون سازی کے راستے میں کیا رکاوٹ
ہائل تھی یہ تو دماغی امراض میں مبتلا افراد کا مذاق اڑانے والی بات تھی کہ
ملک کا وزیر اعظم قانون سازی کا تو کہہ رہا ہے لیکن قائد ایوان ہونے کے
باوجود قانون سازی نہیں کرتا دوسری بھی کسی سیاسی جماعت نے دماغی امراض میں
مبتلا افراد کے لیے کچھ نہیں کیا ۔
آج جو دماغی امراض کی ادویات نہیں مل رہیں یا ان کو ختم کر دیا گیاہے اور
جو دماغی مریض یہ دوا ئیاں استعمال کرتے تھے کوئی دماغی مریض اب جس کو یہ
دوائی نہیں مل رہی اور وہ اپنے مرض سے تنگ آکر خود کشی کر لے تو اس کا ذمہ
دار کو ن ہو گا ؟میری جناب چیف جسٹس آف پاکستا ن ، وزیر اعظم پاکستان اور
چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ سے یہ اپیل ہے کہ ان ادویا ت کی فراہمی کو یقینی
بنایا جائے دوسری صورت میں ان امراض میں مبتلا افراد اجتماعی خود کشیوں کا
سلسلہ شروع کر دیں گے میں ایک بار پھر ان افراد سے یہ اپیل کرونگا کہ دماغی
امراض میں مبتلا افراد دوائی نہ ملنے کی صورت میں خود کشی جیسے فعل کا
ارتقاب کر سکتے ہیں یہ کسی سائیکاٹرسٹ سے پوچھیں اگر اس کا اس کا جواب ہاں
میں ہو تو میری حکومت پاکستان سے یہ اپیل ہے کہ یہ لوگ جو پہلے ہی زندہ
درگور ہیں ان پر رحم کریں ان کی بند میڈیسن کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے
اور مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہر DHQاور THQہسپتال
میں ایک ایک سائیکاٹرسٹ اور سائی کالوجسٹ کا بندوبست کیا جائے اور ان امراض
میں مبتلا افراد کو علاج معالجہ مفت فراہم کیا جائے ۔
|