پرانی ہندی فلموں کاایک ٹرننگ پوائنٹ مقبول عام مکالمہ’یہ
شادی نہیں ہوسکتی‘ بھی ہوا کرتا تھا ۔ اس کے ساتھ اچانک بہت کچھ بدل جاتا
تھا۔ خوشی کے شادیانے غم کے نغموں میں بدل جاتے تھے۔ دلہن کا باپ (عام طور
پرنذیر حسین) اپنی پگڑی ہونے والے سمدھی کے قدموں میں رکھ دیتا تھا اور وہ
اسے ٹھوکر سے اڑا کر آگے بڑھ جاتا تھا ۔ اس کے بعد شائقین رونے لگتے اور
فلمساز خوشی سے پھولا نہیں سماتا کیوں کہ فلم ہٹ ہوجاتی تھی۔ موجودہ دور
سمیت اس کی فلمیں شادی کی جھنجھٹ سے بے نیاز ہورہی ہیں اس لیے فلموں سے
شہنائی کی تان غائب ہوچکی ہے۔ اس معاشرتی انحطاط میں مغرب کی اباحیت کے
ساتھ حکومت ہند کا نادانستہ تعاون بھی شامل ہے۔ملکی قانون کے مطابق شادی کے
لیے لڑکی کی کم سے کم عمر پہلے 18 برس اور لڑکے کا21 سالہ ہونا لازمی تھا ۔
سرکار میں اس کے حوالے احساس جرم پیدا ہواتو وہ قانون میں ترمیم کر کے لڑکی
کی کم از کم عمر بھی 21 سال کرنے کا بل لا چکی ہے۔
مذکورہ قانون پر اگر سختی سے عمل کرایا جائے تو ملک کے بہت سارے علاقوں میں
لڑکیاں بن بیاہی رہ جائیں گی لیکن حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس
کو انتخاب سے مطلب ہے جب تک ووٹ ملتے رہیں سرکار بنتی رہے سب کچھ چنگا ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس حماقت کی وجہ کیا ہے؟ موجودہ حکومت انتخابی مہم
کے دوران تو خوب دقیانوسی مذہبیت کا مظاہرہ کرتی ہے جیسا ابھی حال میں
ہماچل اور گجرات میں نظر آرہا ہے لیکن قانون سازی کے وقت وہ اپنے آپ کو
روشن خیال اور ترقی پسند ثابت کرنے کی سعی کرنے لگتی ہے ۔ مغرب کی مرعوبیت
کا شکار بڑے بڑے دانشور اس کی پذیرائی بھی خوب کرتے ہیں لیکن ایسا کرتے وقت
ان میں سے کوئی بھی اس حوالے سے یوروپ و امریکہ کا جائزہ نہیں لیتا ۔
نام نہاد ترقی یافتہ ممالک شادی کے بجائے جنسی تعلقات کی کم از کم عمر طے
کرتے ہیں اور یہ ہندو پاک میں 18سال ہے مگر برطانیہ ، امریکہ ، ہانگ کانگ
اور آسٹریلیا کے بیشتر صوبوں میں 16 سال ہے۔ فرانس جیسے ترقی یافتی ملک
میں یہ 15؍ سال چین میں 14 برس اور جاپان میں 13 سال ہے۔ اس معاملے میں
عالمی سطح پر کوئی یکسانیت نہیں پائی جاتی ہر کوئی الل ٹپ کسی عمر کا تعین
کرکے اپنے آپ کو ترقی یافتہ ملک کا تمغہ دے دیتا ہے۔ مذکورہ ترمیم کے
نتیجے میں ہندو ستان دنیا کے کئی ایسے ممالک سے آگے نکل جائے گا جہاں جنسی
بے راہ روی تمام حدود و قیود کو توڑ چکی ہے۔ وطن عزیز میں اس قانون کے عملی
نفاذ کا امکان بہت کم ہے لیکن اگر اس معاملے میں سختی کی گئی تو لا قانونیت
کے ساتھ فحاشی و اباحیت کا ایک ایسا طوفان برپا ہو گا کہ جس پر قابو پانا
مشکل ہوجائے گا کیونکہ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ملک میں جنسی جرائم کی
تعداد بہت زیادہ ہے۔
اس حوالے سے ملک عدالتوں میں بڑا کنفیوژن ہے اور ان کے ذریعہ مختلف ریاستوں
متضاد فیصلے صادر ہو رہے ہیں۔یکم نومبر 2022 کوکرناٹک کی عدالت ِ عالیہ نے
ایک مسلمان لڑکی کی شادی اس بنیاد پر کالعدم قرار دے دی کہ 18 برس سے کم
عمر کی لڑکی سے جنسی تعلق قانون کی رو سے جرم ہے حالانکہ بہت جلد 21 سال سے
قبل ہونے والی شادی بھی غیر قانونی ہوجائےگی ۔ اس وقت موجودہ قانون کے لحاظ
سے جو نکاح کرچکے ہوں گے ان کا کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ اس معاملے میں
ملزم کے وکیل نے مسلم پرسنل لا کا حوالہ دے کر اپنے مؤکل کا دفاع کرنے کی
کوشش کی تو ہائی کورٹ نے اسے مسترد کردیا۔ عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ اگرچہ
مسلم پرسنل قوانین کے تحت ماہواری کے لحاظ سے بالغ ہونے والی لڑکی کی شادی
کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر لڑکی کی عمر 18 برس سے کم ہے، تو وہ قانون کی رو
سے نابالغ ہے اور ایسی شادی بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کےقانون کی خلاف ورزی
ہے۔
یہ معاملہ بڑے دلچسپ انداز میں سامنے آیا۔ امسال جون میں ایک حاملہ مسلمان
لڑکی بنگلور کے سرکاری دواخانے میں جانچ کے لیے گئی۔ ڈاکٹر نے اس کی صحت پر
توجہ دینے کے بجائے پہلے تو عمر کا پتہ لگایا اور پھر پولیس میں شکایت درج
کرادی۔ یعنی جو کام اس کے ذمہ تھا اس کے علاوہ باقی سب کردیا۔ اس نے پولیس
کو بتایا کہ 17 برس کی حاملہ لڑکی نابالغ ہے ۔ پولیس نے بھی بڑی سرعت کے
ساتھ اس معاملے میں نابالغ بچوں کی شادی روک تھام اور جنسی زیادتی کی دفعات
کے تحت لڑکی کے شوہر پرمقدمہ درج کرلیاحالانکہ جس نام نہاد نابالغ پر جنسی
زیادتی کو لے کر ڈاکٹر ٹسوے بہا رہا ہے وہ حاملہ ہے۔ پولیس کا عملہ اور
عدالت جس پر زیادتی سے پریشان ہے اس نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی بلکہ وہ تو
اس کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس لیے یہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسی
صورتحال ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اس لڑکی کو بنیادی حق سے محروم کرنے کی زیادتی
کا ارتکاب تو یہ سب مل کر کررہے ہیں ۔
اس مقدمے میں مظلوم شوہر نے ضمانت کی درخواست داخل کرتے ہوئے یہ دلیل دی
کہ مسلم پرسنل لا کے تحت جس لڑکی کو ماہواری شروع ہو چکی ہو، وہ شادی کی
مجاز ہے اور 15 سال کی عمر کو سن بلوغت مانا گیا ہے۔ اس بنیاد پر یہ نکاح
چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے ان کی دلیل کو قطعی
طور پر مسترد کر تے ہوئے یہ فرمان جاری کر دیا کہ اس طرح کے معاملات میں
مسلم پرسنل لا پر نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی روکنے کا قانون حاوی رہے
گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر پرسنل لا اس طرح کے معاملات میں نافذ نہیں ہوگا تو
کب ہوگا؟مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف بھی یہی رہا ہے کہ اسلامی ضوابط کے
مطابق 15 برس یا اس سے زیادہ عمر کی مسلمان لڑکی شادی کی مجاز ہے اور اس پر
بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق تعزیرات ہند کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا ۔
ہندوستانی آئین میں ہر شہری کے اپنے مذہب پر چلنے کا حق تسلیم کیا گیا ہے
لیکن اگر عدالت خود آئین کو پامال کرنے پر تُل جائے تو اس کی حفاظت کون
کرے گا؟ تاہم عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ لڑکی نے خود اس شادی کی مخالفت نہیں
کی تھی اور اس شادی میں اس کی مرضی بھی شامل تھی۔ اس لیے ملزم شوہر کی ایک
لاکھ روپیوں کے ذاتی مچلکوں (بانڈ) پر ضمانت منظور کر لی۔ کرناٹک عدالتِ
عالیہ کا یہ فیصلہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔ ابھی
حال میں( 30 ستمبر کو ) اس نے ا سی طرح کے ایک مقدمے میں کہا تھا کہ 15 سال
یا اس سے زیادہ عمر کی کوئی بھی مسلمان لڑکی اپنی مرضی اور اپنے انتخاب سے
کسی بھی لڑکے سے شادی کی مجاز ہے اور ایسی شادی پر 2006 کے بچوں کی شادی
روکنے کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ملک کے ہر
شہری کو زندگی اور آزادی کے تحفظ کا حق حاصل ہے ۔
اس معاملے میں ایک مسلم جوڑے نے پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں اپنے تحفظ کی
خاطر عرضی داخل کی تھی کیونکہ ان کا نکاح گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہوا
تھا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس جسجیت سنگھ بیدی نے اس عرضی کو منظور کرلیا اور
پٹھان کوٹ کے ایس ایس پی کو 16 سالہ لڑکی کو شوہر کے ساتھ رہنے کیلئے ضروری
تحفظ فراہم کرنے کا حکم بھی دے دیا ۔ جسٹس بیدی نے اپنے فیصلے میں مسلم
پرسنل لا پر دنشاہ فریدون جی ملا کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے اس نکاح کو
جائز ٹھہرایا۔کرناٹک اور پنجاب وہریانہ کورٹ کے فیصلوں میں تضاد حیرت انگیز
ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ نذیر موجود ہونے کے باوجود کرناٹک کی عدالت نے
یہ ناٹک کیوں کیا ؟ یہ بات درست ہے کہ حقوق اطفال کا تحفظ کرنے والے قومی
کمیشن نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر
رکھا ہے۔ اس لیے اگر کرناٹک ہائی کورٹ کو پنجاب و ہریانہ کے عدالت عالیہ سے
اختلاف ہوتا تب بھی اسے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔اپنے
سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی اتنی جلدی آخر کیا تھی؟ ایسے خوشامندانہ
فیصلوں نے عدلیہ کے وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔
اس جوڑے کا قانونی جرم یہ ہے کہ ان دونوں نے نہایت مہذب انداز میں شرعی
نکاح کیا اور وہ اپنے جائز بچے کی پیدائش اور اس کی پرورش کرنا چاہتے ہیں۔
بفرض محال اگر ان دونوں نے نکاح نہیں کیا ہوتا اور اپنے بچے کا اسقاط یعنی
قتل کرنا چاہتے تو انہیں قانونی تحفظ مل جاتا ۔ فی الحال ملک میں میڈیکل
ٹرمینیشن آف پریگننسی بل کا قانون 2021 نافذ ہے ۔ اس کے مطابق چوبیس ہفتوں
کے اندر نابالغ لڑکیوں کا حمل ساقط کروانا جائز ہے۔یعنی کوئی نام نہاد
نابالغ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہو اور اگر وہ کسی ناجائز رشتے سے حاملہ
ہوجائے تو وہ اپنا حمل ساقط کراسکتی ہے مگر جائزنکاح کر کے اپنے بچے کو جنم
دینے سے قبل عدالت اس کا نکاح فسخ کردے گی۔ اس کے شوہر کو جیل میں اور اسے
چلڈرن ہوم میں بھیج دیا جائے گا۔یہ کون سا انصاف ہے ؟ ہندوستان کے اندر
اسقاط حمل کے حق کو ازدواجی حیثیت سے آزاد کردئا گیاہے ۔ سپریم کورٹ نے
اسقاط حمل سمیت تمام خواتین کو 'تولیدی خود مختاری' عطا کرتے ہوئے شادی کے
بغیر ٹھہرنے والے حمل کو گرانے کے حوالے سے عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں ۔
سپریم کورٹ نے عورت کے اسقاط حمل کروانے یا نہ کرنے کا فیصلہ کو بیرونی
مداخلت یا اثر و رسوخ کے بغیرکرنے کا اختیار تو دے دیا مگر ایک نامعقول عمر
کی شرط لگا کر اٹھارہ سال سے عمر کی لڑکی سے نکاح کا حق چھین لیا ۔ سوال یہ
ہے اسقاط حمل زیادہ اہم ہے یا نکاح ؟ اس سوال پر اسلامی نقچۂ نظر سے غور
کیے بغیر سماج کے اندر جاری و ساری جنسی بے راہ روی ازدواجی تشدد سے نجات
حاصل کرنا ناممکن ہے۔ |