شعور کا روشن نقطہ

اسرارِ خودی علامہ اقبال کی پہلی تصنیف تھی اور اس کا دیباچہ علامہ اقبال نے خو د سپردِ قلم کیا تھا جبکہ بانگِ درا کا دیباچہ سر عبدالقادر نے تحریر کیا تھا۔اسرارِ خودی کا دیباچہ اتنااہم اور خوبصورت ہے کہ بار بار اس کی ورق گردانی کو جی چاہتا ہے۔اسے کئی بار پڑھنے کے باوجود اسے دوبارہ پڑھنے کی تشنگی ختم نہیں ہوتی۔یہ لٹریچر کا نادر شاہکار ہے لہذا اس کی چند منتخب سطور قارئین کی نذر کر رہا ہوں تا کہ تصورِ خودی مزید واضح ہو جائے ۔ (یہ واحدتِ وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام تجلیات و جذبات مستینیر (منور)ہوتے ہیں۔ یہ پر اسرار شہ جو فطرتِ انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے۔یہ خودی، یا انا، یا میں، جو اپنے عمل کی رو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رو سے مضمر ہے ، جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدہ کی گرم نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتی۔کیا چیز ہے ؟؟؟۔کیا یہ ایک لا زوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طور ہر اپنے فوری ردِ عمل کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریب ِ تخیل یا دروغ ِ مصلحت کی صورت میں نمایاں کیا ہے ۔اخلاقی اعتبار سے افراد واقوام کا طرزِ عمل اس نہائیت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے اور شائد یہی وجہ پے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہو گی جس کے حکماء اور علما ء نے کسی نہ کسی صورت میں اس سوال کا جواب پیدا کرنے کیلئے دماغ سوزی نہ کی ہو۔مشرقی اقوام اس نتیجے کی جانب مائل ہوئیں کہ انسانی انا ایک فریب ِ تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اتاردینے کا نام نجات ہے۔مغربی اقوام کا عملی مذاق انھیں ایسے نتائج کی طرف لے گیاجس کی طرف ان کی فطرت متقاضی تھی ۔ ہندو قوم کے دماغ میں عملیات و نظریات میں ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے لہذا اس قوم کے موشگاف حکماء نے قوت ِ عمل کی حقیقت پر نہائیت دقیق بحث کی ہے اور بالآخر اس نتیجہ پرپہنچے کہ کہ ا نا کی حیات کا یہ مشہود تعطل جو تمام آلائم و مصائب کی جڑ ہے عمل سے متعین ہوتا ہے ۔یعنی یہ کہ جب انا کی تضمین عمل سے ہے تو انا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے ،اور وہ ترکِ عمل ہے۔یہ نتیجہ انفرادی اور ملی پہلو سے نہائت خطرناک تھا اور اس بات کا متقاضی تھا کہ کہ کوئی مجدد پیدا ہو جو اس ترکِ عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کرے۔بنی نوعِ انسان کی تاریخ میں سری کرشن اور سری رام کا نام احترام سے لیا جائے گاکہ انھوں نے ایک نہائت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقیدکی اور اس حقیقت کو آشکارا کیا کہ ترکِ عمل سے مراد ترکِ کلی نہیں کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے بلکہ ترکِ عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دل بستگی نہ ہو ۔اسلامی تحریک کے مطابق انا ایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے۔مگر مسئلہ انا کی تحقیق و تدفین میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ میں عجیب و غریب مماثلت ہے اور وہ یہ کہ جس طرح سری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی ،اسی نقطہ خیال سے شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی اندلسی نے قرآنِ ِ پاک کی تفسیر کی جس نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈلا۔شیخِ اکبر کے علم و فضل اورزبردست شخصیت نے مسئلہ واحد ت الوجود کو جس کے وہ انتھک مفسر تھے اسلامی تخیل کا ایک لا یننفک عنصر بنا دیا۔اس مسئلہ نے عوام تک پہنچ کر تمام اسلامی اقوام کو ذوقِ عمل سے محروم کر دیا۔علمائے قوم میں سب سے پہلے ابن تیمیہ نے اسلامی تخیل کے اس ہمہ گیر میلان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ابن تیمیہ کی زبردست منطق نے کچھ اثر ضرور کیا مگر حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی شعر کی دلربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔مغربی اقوام اپنی قوتِ عمل کی وجہ سے تمام اقوام میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اسرارِ زندگی کو سمجھنے کیلئے ان کے ادبیات و تخیلات اہلِ مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں۔مغرب کی طبائع پر رنگِ عمل غالب تھا لہذا واحد ت الوجود کا طلسم جس کو ریاضیات کے طریقہ ِ استدلا ل سے پختہ کیا گیا تھا دیر تک قائم نہیں رہ سکتا تھالہذا فلاسفہِ مغرب بالخصوص حکمائے انگلستان اپنے عملی ذوق کی بدولت اس خیالی طلسم سے آزاد ہو گے ۔ ) ۔،۔

اپنے تصورِ خودی کے جوہر کو عوام پر واضح کرنے کیلئے علامہ اقبالؔ نے حافظ شیرازی اور افلاطون کے نظریات و خیالات پر تنقید کی تو آستانوں اور مزاروں سے ان اشعار کے خلاف جس طرح کا ردِ عمل دیکھنے کو ملا اور جس طرح کی آوازیں اٹھیں اس کے پیشِ نظر علامہ اقبالؔ کو اپنے کچھ اشعار (اسرارِ خو دی ) سے خد ف کرنے پڑے ۔اسرارِ خودی ۱۹۱۵؁ میں شائع ہوئی تھی جو فارسی زبان میں تھی ۔اقبالؔ اس وقت بالکل نوجوان تھے لہذا ان کا حلقہِ اثر اور آواز بہت نحیف تھی۔اس وقت ان پر دباؤ ڈالنا آسان تھا اور یہی سب کچھ نظامِ خانقاہی کے حاملین نے کیا۔ان کی شعرہِ آفاق کتب بانگِ درا،بالِ جبرئیل اورضربِ کلیم ۱۹۲۰؁ کے بعد منظر عام پر آئیں۔ شکوہ، جوابِ شکوہ ،مسجدِ قرطبہ ،ساقی نامہ۔لینن خدا کے حضور،ٹیپو سلطان،شمع اور شاعر،طلوعِ اسلام اور ،والدہ مرحومہ کی یاد جیسی نظموں نے عالمی ادب میں جو دھوم مچائی وہ بیان سے باہر ہے ۔ ان مجموعوں کے بعد ایک ایسے اقبال کا ظہور ہوا جس کی ہر ایک بات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا، ان کے خیالات و افکار کو احترام سے نوازا گیا اور عوام کے اندر ان کی شخصیت کا ایک ایسا ہیولہ تشکیل پایا جو آفاقی شاعری کا استعارہ بنا ۔جاوید نامہ،پیامِ مشرق ا،زبورِ عجم اور ارمغانِ حجاز نے ادب کے جس بلند و بالا مقام کو چھوا وہ بیان سے باہر ہے۔ایسی شہرت،ایسی محبت،ایسی عقیدت، ایسی رفعت ،ایسی بلندی اور ایسا عروج شاعروں کا مقدر نہیں ہوا کرتا لیکن یہ سب کچھ علامہ اقبالؔ کا مقدر بنا کیونکہ ان کی شاعری خودی کی ترجمان تھی ۔ علامہ اقبال نے افلا طونی فلسفہِ حیات کے خلاف مسلسل احتجاج کیا اور اپنا فلسفہ خو دی پیش کیا جس کا ملخص یہ ہے کہ ( حیات عالمگیر یا کلی نہیں ہے بلکہ انفرادی ہے۔حتی کے خدا بھی ایک فرد ہے اگر چہ وہ واپنی انفرادیت میں یگانہ اور نادر ہے۔اس انفرادی زندگی کی اعلی ترین صورت کا نام خودی ہے۔جس سے انسانیت کی شخصیت یا انفرا دیت متشکل ہوتی ہے۔لہذا زندگی کا مقصود سلبِ ذات نہیں بلکہ اثباتِ خودی ہے) ۔علامہ اقبال کے بقول (جوں جوں انسان اس فردِ کامل اور نادر کی مانند ہو تا جاتا ہے جسے انائے مطلق یا خدا کہتے ہیں تو وہ خود بھی منفرد اور نادر ہو تا جاتا ہے ۔ اسی کا نام استحکامِ خودی ہے۔خدا کی مانند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اندر صفاتِ خدا وندی کو منعکس کرے اور ایک خاص ڈھنگ سے انائے مطلق کو اپنے اندر جذب کرتا جائے ۔خودی کے ضعف اور استحکام کو پرکھنے کا معیار یہ ہے کہ انسان اپنی راہ میں آنے والے موانعات پر کس حد تک غالب آتا ہے۔زندگی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ مادہ شر ہے اور اس لئے قابلِ نفرت ۔مادہ شر نہیں بلکہ یہ زندگی کی خوابیدہ قوتوں کو بروئے کار لانے کا ذریعہ ہے ۔جب انسانی خودی موانعات پر غلبہ حاصل کرنے سے پختہ تر ہو جاتی ہے تو پھر موت کا جھٹکا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور یوں انسانی زندگی دوام سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ہر وہ عمل جس سے خودی میں استحکام پیدا ہو خیر ہے اور ہر وہ عمل جس سے خودی کمزور ہو شر ہے۔)ساقی نامہ ایک ایسی نظم ہے جس میں تصورِ خودی اپنی پوری رعنا ئیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔اس نظم کے چند اشعار اس فلسفہ کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔(یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے۔،۔خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے)۔،۔(خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات۔،۔ خودی کیا ہے بیداریِ کائنات)۔،۔(خودی جلوہ بد مست و خلوت پسند ۔،۔ سمندر ہو اک بوند پانی میں بند)۔،۔(جاری ہے )
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 447834 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.