کرناٹک کے شیموگہ جیل میں پچھلے دنوں ایک رپورٹ کے تعلق
سے جانا ہوا جہاں پر دیکھا گیا کہ جیل میں جملہ 648 قیدی موجود ہیں جس میں
سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد بہت کم تھی اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد لگ
بھگ 600 کے قریب ہے ، ان تمام قیدیوں میں تشویشناک بات یہ دیکھنے کو ملی کہ
مذہب کی مناسبت سے یہاں 200 سے زیادہ قیدی مسلمان ہیں جن میں زیادہ تر کا
تعلق غنڈہ گردی ، منشیات جیسے معاملات سے جڑا ہواہے ۔ مسلمان کسی محکمے ،
کمپنی یا پھر تجارت میں اتنی بڑی تعداد میں ہوں یا نہ ہوں لیکن جیلوں میں
زیادہ ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کے حالات کیا ہیں ۔
ہردن مسلم نوجوان جرائم کی دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور معاشرہ
اس تعلق سے پوری طرح سے لاپرواہ اور خاموشی اختیار کیا ہواہے ۔ اس بدنظمی
کے تعلق سے کسے مورد الزام ٹہرایا جاسکتاہے اسکا اندازہ نہیں ہورہاہے
کیونکہ معاشرے میں کوئی اس بدنظمی کے تعلق سے بات کرنے کے لئے تیار ہی نہیں
ہے ۔ سماجی و ملی تنظیمیں اس سمت میں نوجوانوں کے درمیان بیداری لانے کے
لئے تیار نہیں ہیں تو علماء کرام کے بیانات ان نوجوانوں کے سمجھ سے باہر
ہیں یا پھر بیشتر علماء اس معاملے میں بات ہی کرنا نہیں چاہتے ۔ سماجی
کارکنان ، عمائدین اور دانشوران کے پاس اس تعلق سے کام کرنے کے لئے لائحہ
عمل نہیں ہے تو والدین اپنے بچوں کو صحیح راستے پر لانے کی کوششیں کرنے کے
بجائے اپنے بچوں کی غلطیوں کو صحیح ٹہراتے ہیں ۔ جیل میں جونوجوان ہیں وہ
بھلے ہی دنیا کی پریشانیوں سے آزاد ہوکر چار دیواریوں میں قید ہیں لیکن
انکے گھر وں کی حالت ، بیوی بچوں کی حالت ، والدین اور بہن بھائیوں کی حالت
کا جائزہ لیا جائے تو وہ جی جی کر مررہے ہیں ۔ ایسے ہی ایک قیدی کی ماں
پچھلے دنوں ہی ایک مسجد کے سامنے مدد مانگتی ہوئی کھڑی تھی ، جب اس سے
پوچھا گیا تو اس خاتون نے بتایا کہ اسکا بیٹا پچھلے 7 مہینوں سے جیل میں
بند ہے اوراسے مقامی عدالت میں ضمانت نہیں ملی اور وہ ہائی کورٹ سے ضمانت
لینا چاہتی ہے ، جبکہ اس کے گھر میں اس نوجوان کی 3 ماہ کی بچی ہے جس کے
لئے گزارا مشکل ہوچکاہے ۔ ایسے اور بھی کئی قیدی ہیں جنکے گھریلو حالات
بدترین ہیں جس پر ہمارے سماج کی نظریں بہت کم جاتی ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ
جو کیا وہ پارہاہے لیکن اس میں انکے گھر والوں کی کیا غلطی ہے ، انکے بچوں
کا کیا قصور ہے جنہیں بھوکا ننگا رہنا پڑرہاہے ۔ ان لوگوں کے حالات بہت ہی
بدترین ہوتے جارہے ہیں اور ہم سماج کے ٹھیکے دار اپنے آپ میں مست ہیں ۔ ہم
اپنے آپ پر ، اپنے بچوں پر ، شادیوں ، پارٹیوں ، دعوتوں اور نمائش کے لئے
لاکھوں روپئے خرچ کردیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ ایک ملزم کا
خاندان کیسے جی رہاہے ، کبھی ان قیدیوں کے اہل خانہ کی مدد کے لئے ہاتھ
بڑھاتے ہیں یقیناََ کل کے دن شاید ان قیدیوں کو احساس ہوگا کہ انکی وجہ سے
آج دوسرے انکے اہل خانہ کی مدد کرنے کے لئے آگے آرہے ہیں ، ان قیدیوں کو
احساس دلایا جاسکتاہے کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے ؟۔ انہیں سماج سے کاٹ کر
رکھنے کے بجائے سماج سے جوڑا جاسکتاہے ۔ یہ بھی ایک دین کاحصـہ ہے ۔ ہمارا
دین صرف نماز ، روزہ ، حج عمر ہ نہیں ہے بلکہ ہمارا دین انسانیت کا پیغام
دیتاہے ۔ اللہ نے قرآن پاک میں مسلمانوں کی مدد و تعاون کرنےکی ہدایت نہیں
دی ہے بلکہ انسانوں کی مدد کرنے کا حکم دیاگیاہے ۔ ایسے میں ہم اپنے آپ کو
کیوں محدود بنا رہے ہیں یہ سوچنا ضروری ہے ۔
|