مسلمان ممالک اور اسرائیل کے درمیان قربتیں بڑھتی جارہی
ہیں، ابراہام ایکارڈکے تحت مسلم ممالک کے اسرائیل سے راہ و رسم بڑھائے
جارہے ہیں لیکن دوسری طرف فلسطین میں 7 دہائیوں سے فلسطین کے نہتے اور بے
یار و مددگار مسلمانوں کی تکلیفوں اور مصائب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس
کے باوجود او آئی سی چارٹر کے شروع میں ہی یہ اعادہ کیا گیا ہے کہ
فلسطینیوں کی جدوجہد کی مکمل طور پر حمایت کی جائیگی اور فلسطینیوں کو اتنا
مضبوط بنایا جائیگا کہ وہ اپنا حق حاصل کرسکیں اور بیت المقدس کو اپنا
دارالخلافہ بناسکیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق میں کئی
قراردادیں منظور کیں مگر ان کے ثمرات سامنے نہ آسکے۔آج یوم یکجہتی منانا
بھی 1977 میں جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والی قرار داد 32/40 کے تحت ہے، جس
کا مقصد فلسطین کاز کو پوری دنیا میں اجاگر کرنا ہے اورفلسطینی مسلمانوں کے
مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے مسلمانوں کو اپنے مسائل کا خود ذمہ دار قرار دینا حقائق
کے بالکل برعکس ہے کیونکہ فلسطینیوں نے جو زمینیں فروخت کیں وہ بہت کم تھیں
، یہ زمینیں اتنی نہیں تھیں کہ ان کے عوض وہاں کوئی قابض قوت حکومت بناکر
بیٹھ جائے۔
اگر بفرضِ محال زمین بیچنے کی اس قیاس آرائی کو مان بھی لیا جائے تو1947
میں منظور ہونیوالی سلامتی کونسل کی ایک قرار داد کے تحت فلسطینیوں کے خطے
پر ایک ملک کا بن جانا کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
فلسطینیوں نے ایک غاصب ریاست کے قیام کو بھی برداشت کرلیا لیکن 1967 کی جنگ
کے عوض اسرائیل نے ایک چوتھائی مزیدعلاقے پر قبضہ کرلیاجس کا تسلسل کسی نہ
کسی شکل میں بتدریج جاری ہے۔اگر ہم تھوڑا ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو 1917
میں صرف 6 فیصد یہودی وہاں آباد تھے جو 1947 میں 33 فیصد ہوگئے اور اس کے
بعد 9 ملین یہودی فلسطینیوں کی سرزمین پر حکومت قائم کرکے آباد ہوگئے۔
قبل ازیں 1947 میں سلامتی کونسل میں ایک قرارداد 181 پاس کرکے 55 فیصد
فلسطینی زمین پر تسلط قائم کرلیا گیا۔ اس کے بعد کہا گیا کہ 18 فیصد علاقہ
اسرائیل کے زیر تسلط رہے گا لیکن پھر بی ایریا بناکر مزید 42 فیصد پر قبضہ
کیا گیا ور بعد ازاں فلسطینیوں کاسی ایریا بناکر 60 فیصد تک علاقہ غصب
کرگئے۔
یہ درست ہے کہ اسرائیلی قبضے کا دائرہ بڑھانے میں فلسطینیوں کی اپنی بھی
کوتاہیاں ہیں لیکن عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کثیر غیر قانونی
سیٹلمنٹ کی گئی تھی اور اسی وجہ سے نہ صرف فلسطین بلکہ کشمیر میں بھی
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں اور مقبوضہ فلسطین میں بتدریج
قابضین کی نئی بستیاں بسائی جارہی ہیں۔
یہودی بستیوں کا قیام جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے بالکل برخلاف ہے ،مقبوضہ
اراضی پر نئی آباد کاری پر عالمی قوانین لاگو ہوتے ہیں ، اقوام عالم کی بے
حسی کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اسرائیل کی طرف واضح جھکاؤ رکھتی ہے جبکہ او
آئی سی غیر موثر ہوچکی ہے ۔
دنیا کے بااثر ممالک کے اسرائیل کے ساتھ بے شمار مفادات جڑے ہیں جس کی داغ
بیل سوئٹرز لینڈ 1897 میں یہودی لابی کے اجلاس میں گریٹر اسرائیل کا منصوبہ
پیش کرکے رکھی گئی۔اسی کے سبب اب بھی بڑے ممالک اسرائیل کے غیر قانونی
اقدامات کی حمایت کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل نے جنگوں کے
بعد مصر، اردن اور مسلمان ملت کے دیگر ممالک کو بھی مسلسل دباؤ کے تحت
اپنی طرف کرلیا ہے۔
اس وقت صرف فلسطینی مسلمان اپنے حق کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں اور جنرل اسمبلی کی
قرار داد 2649کے تحت فلسطینی اور کشمیری مسلمان اپنے حقوق کیلئے جدوجہد
کرسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں جب بھی
فلسطین کا معاملہ آتا ہے تو بڑے ممالک اس کو ویٹو کردیتے ہیں۔
فلسطین اور کشمیر میں جو ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے اس پر دنیا کے مختلف
ممالک کے عوام کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور قطر میں جاری فیفا ورلڈکپ میں
بھی لوگوں کا اسرائیل کیخلاف غم و غصہ اس بات کی درست عکاسی ہے کہ
ظلم و تعدی جبر وستم شاہی آقائی کتنے دن
جو اپنی جڑ چھوڑ چکیں گرنا ہے ان دیواروں کو |