سپورٹس ڈائریکٹریٹ ، غیر معیاری تعمیرات ، اور کے پی اتھلیٹ کی ڈیپارٹمنٹ سے انٹری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور ، یہ ایک محاورہ ہے جسے اگر موجودہ دور میں جملے میں استعمال کرنے کا کہا جائے تو یہی ہم یہی کہ سکتے ہیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے ایماندار افراد کرتے کچھ اور ہیں اور دکھاتے کچھ اور ہیں ،اسی بناء پر یہ محاورہ ان پر فٹ آتا ہے.وہ ادارہ جس کم و بیش دو دہائی قبل کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود اور انہیں مالی امداد فراہم کرنے کیلئے سپورٹس فائونڈیشن جیسا ادارہ قائم کیا جس کا کام کھلاڑیوں کو سامان کی فراہمی کرنا بھی تھا یہ ادارہ جو کھلاڑیوں کی بہتری اور انہیں سہولیات کی فراہمی کیلئے بنایا گیا تھا اب صرف سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہورہا ہے.سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے " بڑے صاحب" کے دروازے پر لکھا گیا ہے کہ مالی امداد اور سامان کی فراہمی کیلئے آنے کی اجازت نہیں.مالی امداد کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کون آتا ہے کھیلوں سے وابستہ افراد ہی آئیں گے یا پھر سپورٹس کاسامان لینے کیلئے کون آئیگا وہی لوگ ہی آئیں گے جو کھیلنا تو چاہتے ہیں مگر غریب ہیں یا پھر دیگر مسائل کا شکار ہیں لیکن ان پر یہ دروازے بند ہیں.
کچھ دن قبل موجودہ حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ملاقات ہوئی ، وہ موجودہ حکومت کے بہت بڑے فین ہیں ، کیونکہ انہیں او ر ا ن کے بیروزگار بھائی کو روزگار بھی موجودہ حکومت نے "زندہ باد اور مردہ باد" کی وجہ سے دی وہ صاحب اسی ڈیپارٹمنٹ کے وزیر کے دستخط شدہ لیٹر لیکر آئے تھے کہ وہ اپنے علاقے میں اپنے پارٹی کا انتخابی نشان" بیٹ "چاہتے ہیں تاکہ ان کا بھی واہ واہ ہو جائے اور وزیر موصوف نے انہیں دستخط کرکے لیٹر دیا کہ جا کر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جمع کروا دو ، وہاں سے کھیلوں کا سامان مل جائے گا.اور پھر انہیں کہا گیا کہ " سامان "مل جائے گا .یہ وہ ادارہ ہے جس کے " بڑے صاحب"نے اپنے دروازے کے گیٹ پر لکھا ہے کہ سامان کیلئے نہیں آنا. اگر اسی دروازے پر لکھا جاتا کہ " ٹٹ پونچئیے " یا پھر "غریب کھلاڑیوں" یا پھر بغیر"سیاسی اپروچ"والے افراد کو یہاں پر آنے کی ضرورت نہیں تو شائد بہتر ہوتالیکن یہاں پر "ہاتھی کے دانت کھانے او ر دکھانے کے اور ہیں" اور اسی صوبے میں " تبدیلی "کا دور دورہ ہے.
تبدیلی کے شکار سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چوالیس کروڑ روپے کی لاگت سے پشاو ر سپورٹس کمپلیکس میں " تعمیر نو" کے منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے کم و بیش دس سال قبل اس گرائونڈ پر کروڑوں روپے لگے تھے.حیران کن بات یہی ہے کہ گرائونڈ میں تماشائیوں کیلئے بیٹھنے کی جگہ یعنی " تشریف کی ٹوکری" رکھنے والی جگہ کو بڑھایا جارہا ہے کہ تاکہ تماشائی آرام سے بیٹھ سکیں ، اور لوگ آسانی سے آجا بھی سکیں. اللہ بھلا کرے اس منصوبے کے خالق کا ، کوئی ان سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ تماشائیوں کی تشریف کی ٹوکری والی جگہ یعنی سٹیپس کو بڑھانے کی ضرورت ہی کیا ہے ، کیونکہ اس سٹیڈیم میں تو سوائے نیشنل گیمز کے کہیں پر لوگ نہیں آتے اور اگر کہیں کوئی میچ بھی ہو تو پھر "سکولوں کے بچوں "کو بھر کر لایا جاتا ہے تاکہ تماشائی گرائونڈ میں موجود ہیں کا "بھرم"بھی قائم رہے . چلیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے تعمیراتی کا م کا آغاز کردیا اب اس تعمیراتی منصوبے کے معیار کو کون چیک کرے گا یہ وہ سب سے بڑا سوال ہے جو کرنے کا ہے.اس منصوبے کی نگرانی اگر سی اینڈ ڈبلیو کررہی ہے تو کیا ان کے اانجنیئرز کہیں پر نظر آتے ہیں ، یا غلطی سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اپنی "انجنیئرنگ ونگ" جو اب ماشاء اللہ ایک الگ ڈیپارٹمنٹ بن گیا ہے کے لوگ کہاں پر ہیں کہ وہ یہ دیکھ لیں کہ " 33 " نمبر کی جو اینٹ گرائونڈ میں دکھائی جارہی ہیںوہ کتنی "معیاری "ہیں ، صرف دو دفعہ ایک دوسرے سے ٹکرانے سے اینٹ "ٹکڑے ٹکڑے"ہوجاتی ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کو نظر آئے کہ "عوامی ٹیکسوں"کا پیسہ کتنی "بے دردی" سے غیر معیاری تعمیرات پر اڑایا جارہا ہے جبکہ حال دوسری طرف یہ ہے کہ "ہر ماہ تنخواہوں" کیلئے صوبے کے بیشتر ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین روتے ہیں .
رونے سے یاد آیا کہ خیبر پختونخواہ کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں"صاحب" لوگوں نے تمام گرائونڈ سمیت مختلف دفاتر کے دروازوں پر لکھاہے کہ پرائیویٹ کوچنگ بند ہے ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دو دو جگہوں پر ملازمتیں بند ہیں ، مگر ان کا حال یہ ہے کہ انہیں اپنے ناک کے نیچے کے بال نظر نہیں آتے ، ہمارے ہاں پشتو میں ایک محاورہ ہے چی "دا ڈیوے دا لاندے تیارہ وی " یعنی موم بتی کے نیچے ہمیشہ اندھیرا ہی ہوتا ہے بس یہی حال سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا بھی ہے اتنے "قابل اور ایماندار "افسران کے ہوتے ہوئے بھی انہیں دوسری جگہوں پر ملازمت کرنے والوں کا پتہ ہی نہیں ، حالانکہ کلاس فور ملازمین تک پتہ ہے کہ کون کہاں پر ملازمت کررہا ہے لیکن اگر نظر نہیں آتا تو جن کے ہاتھ میں کچھ کرنے کی صلاحیت اور طاقت ہے انہیں نظر نہیں آتا ا.اسی طرح کی صورتحال پرائیویٹ کوچنگ کی بھی ہے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنے کوچ پرائیویٹ کوچنگ میں مصروف ہیں ، مستقل ملازمت کرنے والے کوچ نے ڈیپارٹمنٹ کی اتھلیٹس کو ٹریننگ دینے کا ٹھیکہ لیا ہے ایسا ٹھیکہ کہ گرائونڈ میں انہیں کوئی اور نظر نہیں آتا کوئی اور اگر ٹریننگ کررہا ہے توانہیں اس سے کوئی غرض نہیں البتہ صرف اپنا "کلائنٹ" نظر آتا ہے ، اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو ایک ہفتے قبل کی لاہور میں ہونیوالے اتھلیٹکس کے مقابلوں کا ریکارڈ دیکھ لیں.
کہ کس طرح آرمی کی ایک خاتون اتھلیٹ کو خیبر پختونخواہ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ، حالانکہ اس خاتون اتھلیٹ کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچ نے گذشتہ ایک سال سے زائد عرصہ تربیت دی ، خاتون صوبے کے ساتھ گئی بھی نہیں پاک آرمی کے دستے کی طرف سے کھیلی ،صوبے کے دستے کیساتھ گئی بھی نہیں لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مستقل کوچ انکے ساتھ گئے ، وسائل و کوچ خیبر پختونخواہ ڈائریکٹریٹ کے استعمال ہوئے ، لیکن نام کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا ہوا ، اور مزے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ ظاہر کیا گیا کہ متعلقہ اتھلیٹ صوبے کی طرف سے کھیلی ہیں حالانکہ یہ جھوٹ ہے ، اور اس پر مبارکبادیں بھی دی جارہی ہیں کہ " خیبر پختونخواہ " کے کوچز نے تیر مارلیا ، ہاں تیر مارا ہے لیکن صوبے کے وسائل پر ڈیپارٹمنٹ کیلئے تیر مارا ہے حالانکہ تنخواہ متعلقہ کوچ کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہی دیتی ہیں.اور وہ کہیں اور سے بھی تنخواہ لیتے ہیں.
سوال یہ ہے کہ مبارکباد دینے والے " بھنگ " پی کرآتے ہیں یا کسی خمار کا شکار ہیں جو انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے پر خاتون اتھلیٹ پر صوبے کے وسائل استعمال ہوئے ، ایک مستقل سرکاری کوچ اتھلیٹ کیساتھ ٹریننگ پر لگا رہا ، اور کوچ بھی خیبر پختونخواہ کے ڈیپارٹمنٹ سے تنخواہ لیتا رہا لیکن "سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے تاریخ کے ایماندار اور قابل "افسرا ن کو پتہ ہی نہیں چل رہا . اس بارے میں اطلاع دینے پر بھی "خاموشی" چھائی ہوئی ہیں یا پھر " نوٹڈ" کا پیغام ملتا ہے اور کچھ ہوتا بھی نہیں بہر حال ان معاملات پر " عاطف خان"مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے "وزیراعلی خیبر پختونخواہ" کوبھی پیچھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ انہوں نے بھی مصروفیت کی وجہ سے اس ڈیپارٹمنٹ پر توجہ نہیںدی اور اب یہی حال عاطف خان نے بھی ڈیپارٹمنٹ کا کردیا بس ان کی یہاں پر "برین چائلڈ"ہی چلتی ہے.
|