فٹبال ورلڈکپ قطر میں اسلام کا بول بالا

 فٹ بال کے شاندار عالمی میلے کا آغاز قطر میں ہو چکا ہے ۔92سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک اسلامی مملکت میں ناچ گانے کے بجائے قرآن پاک کی تلاوت سے شروع ہوا ۔ ایک فزیکل چیلنج بچے غانم المفتوح نے سورۃ الحجرات کی آیات کی تلاوت کی جن میں توحید و مساوات کا درس تھا ۔غنیم المفتاح 2017ء میں وہیل چیئر کے بغیر ہاتھوں کے بل عمرہ کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں وہ فٹ بال بھی کھیلتے رہے ہیں ۔قطر نے ایک ڈس ایبل بچے سے افتتاح کرواکر عالمی دنیا کو پیغام دیا ہے کہ قرآن پاک اتحاد ، برداشت اور معذوروں یعنی معاشرے کے چھوٹے طبقات پر رحم کی ترغیب دیتا ہے۔ مذکورہ افتتاحی تقریب کا تھیم ’’انسانی اتحاد‘‘ تھا ۔ تقریب میں معروف امریکی اداکار مورگن فری میسن نے بھی شرکت کی جنہوں نے انسانیت کو متحد کرنے کاپیغام دیا ۔اس رنگا رنگ تقریب میں امیر قطر تمیم بن حمادکے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ترک صدر طیب اردغان ،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گویتریس، مصر کے صدر عبدالفتح السیسی، فلسطین کے صدر محمود عباس اور فیفا کے صدر سمیت دیگر کئی عالمی شخصیات نے خصوصی طور پرشرکت کی ۔قطر کے 5بڑے شہروں کے8 اسٹیڈیمز میں 64میچ کھیلے جائیں گے ۔2014ء اور2018ء کی طرح اس بار بھی پاکستان میں بننے والی فٹبال استعمال ہورہی ہے ۔ سب سے بڑی بات کہ اس عالمی مقابلے کی تمام تر سیکورٹی عساکر پاکستان کے سپرد ہے ۔تقریب میں جہاں عربی ثقافت و تاریخ کو جاگر کیا گیا وہیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور دل آویز فائر ورک نے شائقین کے دل موہ لئے ۔بلاشبہ اس وقت ورلڈ کپ کے موقع پر قطر کھل کر اسلامی اقدار کی تشہیر کر رہا ہے اور پہلی بار اسٹیڈیم میں نماز پڑھنے کے مقامات اور وضو کیلئے جگہ مختص کی گئی ہیں ۔ جبکہ مختلف ممالک سے آنے والے شائقین و سیاحوں کو اسلام سے متعارف کروانے کیلئے چوکوں ، گلیوں اور شاہراؤں پر نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ اور اعمال صالحہ آویزاں کئے گئے ہیں ۔ ایسے میں جب امریکہ و یورپ میں اسلامو فوبیا کی مسلم مخالف مہم زوروں پر ہے ْ قطر حکومت کے اقدامات قابل تحسین ہیں کہ جس سے صحیح معنوں میں پوری دنیامیں اسلام کا بول بالا ہوا ہے ۔معروف مذہبی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر ذاکر نائیک خاص طور پر فیفا ورلڈ کپ کے دوران اسٹیڈیم میں مذہبی لیکچرز کے لئے مدعو ہیں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مذہبی لیکچرکے نتیجے میں 4 لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔ دوسری جانب دنیا بھرسے سینکڑوں علمائے کرام اور سکالرزمنگوائے گئے ہیں جو کہ مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔دو ہزار مقامی علمائے کرام بھی فٹبال ورلڈ کپ کی ڈیوٹی انجام دینے میں مشغول ہیں۔ ملک بھر کی مساجد کے مؤذن تبدیل کرکے دلکش آوازوں والے مؤذن مقرر کر دئیے گئے ہیں۔ تمام مساجد کو اسلامی میوزیم طرز پر پیش کیا گیاہے تاکہ جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی آکر معلومات لے سکے ۔ قرآن مجید کے تراجم، مختلف زبانوں میں، اسلامی تاریخ و سیرت کی کتب بانٹی جا رہی ہیں۔ شاندار افتتاحی تقریب دنیا بھر کے 500چینلز پر براہ راست دکھائی تو دوسری جانب قطری ریاست کی جانب سے اسلامی اقدار روشناس کروانے پر مغربی منافقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مغربی میڈیا آرگنائزیشن ، برطانوی چینلز بی بی سی اور آئی ٹی وی نے تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے نشر نہیں کیا ۔ بلکہ تقریب کے فوری بعد قطر میں مزدوروں کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ پیش کر دی ۔رد عمل میں پوری دنیا کے فٹ بال شائقین نے ان چینلز پر خوب تنقید کی ۔ مغربی مسلم مخاصمت اور ہسٹریا کی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس کے ایک اخبار نے اپنے صفحہ پر قطر کے فٹبال کھلاڑیوں کے کارٹون بناکر انہیں دہشت گرد تک کہنے سے گریز نہیں کیا۔ فرانس یہ وہی ملک ہے جہاں سے کبھی صلیبی جنگوں کا جتھہ چلا تھا اور اسلام کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہا تھا۔ اس کی یہ روش آج بھی جاری ہے۔ برطانیہ سے شائع ہونے والا اخبار گارجین نے سب سے پہلے قطر کے خلاف پروپیگنڈوں کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔معروف ٹی وی اینکر پرسن پئیرس مورگن نے ٹویٹ میں کہا کہ’’ بی بی سی کا فٹبال ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب نہ دکھانا منافقت کے سوا کچھ نہیں ۔اگر وہ اس قدر مایوس ہیں تو اپنے ملازمین کی فوج واپس بلا لیں ۔‘‘ فیفا کے صدر قطر میں پہلی پریس کانفرنس میں یورپ کے ناقدین پر تقریبا پھٹ پڑے اور انہوں نے یورپی دنیا کی انسانیت کے خیرخواہی کا بھانڈا پھوڑ ڈالااور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے بے جا تنقید پر سخت اعترض کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کاروباری کمپنیاں جو قطر یا خطے کے دوسرے ممالک میں اربوں ڈالر کماتی ہیں انہوں نے کبھی بھی حکام سے تارکین وطن مزدوروں کے حقوق پر بات نہیں کی ۔حالیہ دہائیوں کے دوران قطر میں قدرتی گیس کے حوالے سے آنے والی ترقی نے ملک میں روزگار کے مواقع بہت بڑھا دیے ہیں۔ اس کے ہاں کارکنوں کے لیے حالات کار کی لندن میں موجود انسانی حقوق گروپ ایکیویڈیم نے بھی اعتراف کیا ہے ۔ قطر کے امیر کا کہنا ہے کہ قطر کو ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز ملنے کے بعد سے نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا تا رہا بلکہ ان کیخلاف فیک مہم بھی چلائی گئی ۔ دراصل فٹبال کے کھیل پر یورپ اور امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ اب اس کھیل کے عالمی کپ کا ایک تو ایشیا میں ہونا اور دوسرا مشرق وسطیٰ کے مسلم ملک میں، عالمی سامراج کی برداشت سے باہر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرب اسلامی ملک میں اس عالمی مقابلے کے انعقاد میں روڑے اٹکائے گئے اور قطر حکومت کیلئے مشکلیں کھڑی کی گئیں۔ فٹ بال کے کل بائیس عالمی ایونٹس میں یہ دوسرا ہے جو ایشیا میں ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے 2002 ء میں جنوبی کوریا میں ہو چکا ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ قطر میں منعقد ہ فیفا فٹبال مقابلوں کے ٹکٹ خریدنے کے لئے 4 کروڑ لوگوں نے درخواست دی تھی جس میں سے 30 لاکھ ٹکٹس فروخت ہو چکی ہیں جنہوں نے 2018ء روس ورلڈ کپ کا ریکارڈ توڑ دیا ہے وہاں24لاکھ ٹکٹیں بکی تھیں ۔ یقیناً قطر میں فٹبال ورلڈ کپ کی کامیابی کا واضح ثبوت ہے ۔اس کو فٹبال کی دنیا کا مہنگا ترین ورلڈ کپ قرار دیا گیا ہے ۔ گزشتہ 12 سال میں ورلڈ کپ کی تیاریوں پر تقریباً 300 ارب ڈالرز خرچ ہوئے جس کیلئے 8 نئے اسٹیڈیمز اور جدید ترین نیا میٹرو سسٹم بنایا گیا۔نئی شاہراہیں تعمیر ہوئیں اور مرکزی ہوائی اڈے کو بھی وسعت دی گئی، 15 لاکھ فینز کے قیام کے لیے 100 نئے ہوٹلز بھی تعمیر کیے گئے۔ فائنل 18دسمبر ہو گا اور ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیم کو 82 ملین ڈالر یعنی 9ارب روپے کا انعام ملے گا ۔ قطر کے حکمرانوں نے جس طرح اسلامی ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت کو منوایا اور جس طرح اس عالمی مقابلے میں شراب پر پابندی عائد کر دی ہے اس کی مثال اسلامی دنیا میں نہیں ملتی۔پوری دنیا میںLGTB کے حق میں بڑے زوروں شور سے تحریک چلائی جا رہی ہے اس دوران قطر ی حکمرانوں نے ہم جنس پرستوں کو اسٹیڈیمز میں مخصوص جگہ دینے سے بھی انکار کر دیا ۔قطر میں شراب کی فروخت پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ بڈوائز برانڈز ٹورنامنٹ کے بڑے سپانسرز میں شامل اس کمپنی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہر ورلڈ کپ کے لیے فیفا کو ساڑھے سات کروڑ ڈالر تک ادا کرتی ہے۔ بڈوائز برانڈ کا تعلق امریکہ سے ہے جو 2026 ء کے ورلڈ کپ کے تین میزبان ممالک میں سے ہے۔ْورلڈ کپ کے دوران شائقین پرمختصر لباس پہننے اور شراب پینے پر جیل یا جرمانہ عائد ہے۔ ورلڈ کپ کے دوران فٹبال شائقین اپنی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے مختلف روپ اختیار کرتے ہیں جبکہ کچھ افراد مختصر لباس پہن کر میچ دیکھنے آتے ہیں۔ قطری حکام کے مثبت اقدام نے مغرب کو باور کرا دیا ہے کہ انہیں اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ اسلامی تہذیب وثقافت کا تمسخر اْڑانے کے لیے اپنی غلاظت زدہ تہذیب مسلط کردیں ۔


 

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 194 Articles with 162422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.