|
|
کند ذہن، ناکارہ، ناکام یہ وہ الفاظ ہیں جو کہ عام طور
پر ان بچوں کو سننے کو ملتے ہیں جو کہ کسی نہ کسی وجہ سے اسکول میں دوسرے
بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں یا امتیازی نمبروں سے کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں۔
ایسے بچوں کے ساتھ معاشرے کا سلوک انتہائی ناروا ہوتا ہے- |
|
ایسے ہی ایک بچے نے اپنی کہانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ
ہیومن آف بمبئی میں شئير کی ہے جس کا یہ کہنا تھا کہ اس کو ہمیشہ اسکول میں
دوسرے بچوں سے پڑھائی میں پیچھے رہ جانے کے سبب مورکھ یا بد نصیب یا منحوس
کے نام سے پکارا جاتا تھا- |
|
حروف میرے سامنے ناچنے
لگتے تھے |
اس نوجوان کا یہ کہنا تھا کہ پڑھائی کے شوق کے باوجود وہ جب بھی پڑھنے کی
کوشش کرتے لفظ اس کے سامنے ناچنا شروع کر دیتے اور اس کو استاد کا پڑھایا
کوئی سبق نہ تو سمجھ آتا اور نہ ہی یاد ہوتا جس کا نتیجہ امتحانات کی
ناکامی کی صورت میں نکلتا یہاں تک کہ نو سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے دوسرے
لوگوں کی طرح اس کے والد نے بھی یہ تسلیم کر لیا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا ہے- |
|
لہٰذا انہوں نے اس کو کہا کہ کھیتی سیکھ لو پڑھائی تو تمھارے بس کی بات
نہیں ہے ان کی بات مان کر اس نے ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا شروع کر
دیا- دن کے اوقات میں والد کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا اور رات میں بچے
ہوئے وقت میں پڑھائی کی کوشش کرتا چونکہ اس کی رہائش ایک چھوٹے سے گاؤں میں
تھی جہاں بجلی کا کوئی انتظام نہ تھا لہٰذا اس کو لالٹین کی روشنی میں
پڑھنا پڑتا تھا- |
|
|
|
زندگی میں عامر خان جیسے
استاد کی آمد |
اس بچے کی زندگی بالکل بھارتی فلم تارے زمین جیسی تھی
فرق یہ تھا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے والدین نے
اس کو بورڈنگ نہیں بھیجا بلکہ اسکول سے ہٹا کر کھیتی باڑی میں لگا دیا تھا- |
|
اسی دوران اس کے اسکول میں ایک استاد آئے جنہوں نے اس کے
مسائل کو دیکھتے ہوئے اس پر کچھ اضافی توجہ دینی شروع کر دی استاد کی اس
محبت اور شفقت نے اس کے لیے جادو کا کام کیا اور 14 سال کی عمر میں وہ گرتے
پڑتے دسویں کے امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو گیا- |
|
بس اب پڑھائی ختم |
دسویں کے بعد اس کے گھر والوں نے ایک بار پھر اس کو
احساس دلانا شروع کر دیا کہ پڑھائی اس کے بس کی بات نہیں ہے اس کو کوئي کام
سیکھ لینا چاہیے مگر اس نے اپنے والد سے ضد کر کے پٹنہ کے کالج میں داخلہ
لے لیا- |
|
اجنبی شہر، اجنبی لوگ اور تنہائی یہ سب ایسے حالات تھے
جو اس کے لیے مسائل کا سبب بن رہے تھے ایسے وقت میں جب بارہویں کے امتحان
میں وہ فیل ہوا تو واپس گاؤں آگیا اور کھیتی باڑی شروع کر دی- مگر اس بار
اس کے والد نے اس کا داخلہ دوبارہ سے ترچی نامی قصبے میں کروا دیا- |
|
لوگوں کی تنقید اور
حوصلہ |
ایک بار پھر نیا شہر نیا لوگ مگر اس بار اس کے گاؤں والے
حلیہ اور انگریزی سے ناآشنائی کے سبب اردگرد کے لوگ مذاق کا نشانہ بناتے
اور اس کو مایوس کرنے کی کوشش کرتے- |
|
مگر اس نوجوان نے ہمت ہارنے کے بجائے کوششوں کو
مزید تیز کر دیا اپنی انگریزی اور معلومات میں اضافے کے لیے یو ٹیوب ویڈيوز
دیکھنا اور مطالعہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا- یہاں تک کہ ماسٹرز میں کامیابی
حاصل کر لی- |
|
|
|
شدید محنت اور کوشش کے سبب وہ لڑکا اس قابل ہو
گیا تھا کہ یونیورسٹی میں نوکری کی تلاش میں آئی کمپنیوں کو انٹرویو دے سکے
مگر اس کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ اس کو اپنے پورے بیج
کے لوگوں کے مقابلے میں کم ترین درجے اور تنخواہ پر ملازمت ملی- |
|
مشکلوں کے ساتھ
آسانی بھی ہے |
ڈيڑھ سال بعد اس کو ایک بہتر ملازمت کا موقع
ملا جس نے اس کا اعتماد بڑھا دیا اور پھر آخر کار مائکروسافٹ نے اس کا
انتخاب کر لیا اور اس کو ملازمت دے دی جس نے اس کی زندگی بدل ڈالی- |
|
اب وہ ایک کامیاب ترین انسان تھا اس نے اپنے
گاؤں والے گھر کو ٹھیک کیا، تنخواہ سے ہونے والی بچت سے زمینوں کا کاروبار
شروع کیا اور اپنی دونوں بہنوں کی انتہائی شاندار طریقے سے شادیاں کیں۔ اور
آج وہ انتہائی فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کھیتی باڑی ، لالٹین کی روشنی
میں پڑھائی اور لوگوں کے طعنوں کے باوجود اس نے محنت اور لگن سے یہ کامیابی
حاصل کی- |