ہمارے ہاں معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر خواتین اور
خاص طور پرکم عمر بچیوں پر جسمانی وجنسی تشدد کا خاتمہ ناممکن نظر آتا ہے
خاص طور پر گھروں میں کام کرنے والی کم عمر بچیاں جسمانی تشدد کا نشانہ
بنتی رہتی ہیں میڈیا پر آئے روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں ،سانچ کے
قارئین کرام !آج بھی پسماندہ علاقوں میں قرآن سے شادی،کاروکاری جیسی رسومات
کے زریعے عورت کا استحصال کیا جارہا ہے، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنے،
نوکریوں کے حوالہ سے معاشرتی پابندیوں، عدم مساوات، غربت اور زبردستی کی
شادیوں کی وجہ سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھاجاتا ہے، یہ بات
بالکل درست ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے حکومتی اقدامات ناگزیر ہیں،
جب تک قانون حرکت میں نہیں آئے گا عورت کو مساوی حقوق اور انصاف نہیں مل
سکتا،موجودہ دور میں میڈیا خواتین کے حقوق کے حوالے سے موثرشعور اجاگر کر
سکتا ہے ، کسی بھی ملک میں امن قائم رکھنے، تشدد اور جرائم کے خاتمے
اورانصاف کی فراہمی میں پولیس کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،سانچ کے
قارئین کرام !دین اسلام نے خواتین کوجو حقوق دیے ہیں وہ کسی اور مذہب میں
حاصل نہ ہیں لیکن اس کے باوجود پسماندگی، استحصال اور زیادتیوں کی شکار
خواتین کو اپنے حقوق سے واقفیت نہ ہے ، اس کی آگہی کے لئے علمائے کرام،
میڈیا اہم کردار اداکرسکتے ہیں،خواتین پر ہونے والے ذہنی ، جسمانی ، جنسی
اور گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے ماضی میں بھی
قانون سازی تو کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود وطن عزیز پاکستان میں جنسی
وجسمانی تشدد کا خاتمہ تو دور کی بات بلکہ اس میں گزشتہ چند سالوں میں
اضافہ دیکھنے کو ملا ،ایک غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سالانہ 9
ہزار سے زائد خواتین مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی
بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں بھی خوفناک اضافہ ہورہاہے ، پاکستان بھر میں
روزانہ تیرہ بچوں کو جنسی وجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اگر تمام
واقعات رپورٹ ہوں تو یہ تعداد اس سے زائد ہو پنجاب کے بڑے شہروں
لاہور،ملتان ، راولپنڈی اور فیصل آباد میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات
سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔امسال خواتین پر تشدد کے
خلاف عالمی دن کے موقع پر ہونے والے آگاہی سیمینار کی تفصیلات سانچ کے
قارئین کرام کے لیے تحریر کررہا ہوں ، خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن
کے موقع پرسماجی تنظیموں ایف ڈی او ، فافین اور ماڈا کے زیر اہتمام سیمینار
کا انعقاد کیا گیا، جس سے سابق سینئر نائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن/جنرل
سیکرٹری ’ماڈا‘ مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ،ایف ڈی او کے ضلعی کوارڈینیٹر رانا
عبداﷲ،پرنسپل انفارمیٹکس رانا ساجد،راقم الحروف ( محمد مظہر رشید چودھری)
نے خطاب کیا ، کالج کی طالبات نے دن کی مناسبت سے خواتین پر تشدد کے خلاف
پلے کارڈز اور ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر نعرے درج کر رکھے تھے ، سیمینار سے
خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ موجودہ دور میں خواتین کو ان کے حقوق سے
آگاہی وقت کی ضرورت ہے، معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر خواتین اور خاص
طور پرکم عمر بچیوں پر جسمانی وجنسی تشدد کا خاتمہ ناممکن نظر آتا
ہے،معاشرتی پابندیوں، عدم مساوات، غربت اور زبردستی کی شادیوں کی وجہ سے
خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ،مس صائمہ رشید ایڈووکیٹ نے
کہا کہ عظیم مذہب اسلام عورت کے حقوق، تحفظ، چادر کی حرمت کو مکمل طور پر
یقینی بناتا ہے، آئین پاکستان اور قانون میں عورت کے تحفظ کا خصوصی اہتمام
کیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ ایک تحقیقی کے مطابق دنیا بھر میں 35 فی صد
خواتین اورلڑکیاں اپنی زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا
سامنا کرتی ہیں، موجودہ دور میں دنیا بھر میں 70کروڑخواتین کی شادی بچپن
میں ہی کردی گئی ،جن میں سے ان میں سے 25 کروڑکی شادی 15 سال کی عمر سے
پہلے ہوگئی ، بچیوں کی کم عمری کی شادی خواتین کے حقوق پر کاری ضرب ہے ، مس
صائمہ رشید نے کہا کہ اس سال کی صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 روزہ مہم جو
آج ہی شروع ہورہی ہے جس میں تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے گی ،راقم الحروف (محمد
مظہر رشید چودھری )نے کہا کہ موجودہ دور میں میڈیا خواتین کے حقوق کے حوالے
سے موثرشعور اجاگر کر رہا ہے، گزشتہ دو دہائیوں سے اس سلسلہ میں تیزی بھی
آئی ہے جو یقیناََ قابل تعریف ہے، ابھی بھی ہمیں بہت کام کرنے اورخواتین کو
اُنکے حقوق سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے، سانچ کے قارئین کرام ! حکومت کی
جانب سے قانون سازی تو کی گئی ہے لیکن ان قوانین سے آگاہی بہت کم ہے ، ماضی
میں ہمارے معاشرے کی خواتین کی عزت پر اگرکوئی حر ف آتا تھا تو انہیں شکایت
کے اندراج کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب آئین اور قانون
میں عورت کے تحفظ کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے، اور ضلع میں خواتین کے لئے
الگ سے ہیلپ لائن کا آغازبھی کیاگیا ہے ، سب سے اچھا اقدام تو یہ ہوگا کہ
آئندہ غیرت کے نام پر کسی بھی خاتون کا قتل ہوا تو پولیس اسکی مدعی بنے ،
تاکہ جرم کرنے والا قانونی سزا سے بچ نہ سکے٭
|