امی جان کی کہانی سنے بغیر بچے سونا نہیں چاہتے تھے۔ گو
بچے اب کہانی سننے والے بچوں کی فہرست سے باہر ہو چکے تھے مگر کہانی سننا
جیسے ان کے سارے دن کی تھکان اتار دینے کے مترادف تھا۔ بچوں آج میں آپ کو
تاریخ کی ایک بہت ذبردست روایت کی کہانی سناؤنگی جو آج بھی ترکی کے باشندوں
نے اپنائ ہوئ ہے۔ تم لوگ کہانی کے درمیان سوالات کر سکتے ہو بچوں اگر کچھ
سمجھ میں نہ آۓ تو۔
بچے: ٹھیک ہے امی جان کہانی شروع کریں۔
امی: یہ خلافت عثمانیہ کے دور کی بات ہے جب۔۔۔
آبان: ایک منٹ رکیں امی پہلے خلافت عثمانیہ کے بارے میں کچھ بتائیں۔
امی: ہاں ضرور کیوں نہیں۔ ترکی کے کچھ قبائل نے اناطولیہ میں خلافت عثمانیہ
کی بنیاد رکھی۔ یہ مسلمان سلطنت پندرھویں اور سولہویں صدی میں دنیا کی ایک
عظیم الشان اور طاقتور سلطنت بن گئ۔
موسٰی: ارے واہ مسلمانوں کے تو خوب مزے رہے ہونگے۔
امی: ہاں بیٹا ایسا ہی ہے۔ اس دور میں ایک روایت قائم کی گئ تھی جسے "نیکی
کی ٹوکری" کا ٹائیٹل دیا گیا۔
آبان:نیکی کی ٹوکری میں کیا لوگ اپنی نیکیاں جمع کرتے تھے امی؟
امی: کہہ سکتے ہو۔
موسٰی: وہ کیسے امی؟
امی: بیٹا اصل میں یہ نیکی کی ٹوکری ہر تندور یا روٹی والے کے پاس رکھی
ہوتی تھی۔ جب بھی کوئ گاہک روٹی لینے آتا وہ اپنی استطاعت کے مطابق اضافی
روٹی کے پیسے تندور والے کو دیتا۔ وہ تندور والا ان اضافی پیسوں کی روٹیاں
نیکی کی ٹوکری میں رکھ دیتا۔
موسٰی: پھر ان روٹیوں کا کیا ہوتا تھا؟
امی: بیٹا! اس زمانے میں بھی سفید پوش لوگ ہوتے تھے۔
آبان: سفید پوش لوگ؟
امی: بیٹا وہ لوگ جو غربت کا شکار تو ہوتے ہیں مگر وہ اپنی ضروریات کے لۓ
کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ وہ لوگ پھر کیا کرتے کہ تندور پر جاتے اور
جتنی روٹی کی انہیں ضرورت ہوتی وہ نیکی کی ٹوکری سے لے لیتے۔ اس طرح اس
زمانے میں کوئ بھی شخص بھوکا نہیں سوتا تھا۔
آبان: یہ تو بڑی ذبردست روایت ہوئ امی جان۔
امی: ہاں بیٹا اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ترکیوں نے اس عظیم روایت کو
بر قرار رکھا ہوا ہے۔
موسٰی: امی جان کیا ایسی نیکی کی ٹوکری ہمارے ملک میں نہیں ہو سکتی کیونکہ
یہاں بھی تو بہت غربت ہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں کھانے کو روٹی میسر
نہیں۔
آبان: ہاں بالکل ٹھیک کہا تم نے موسٰی، ہمیں اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیۓ۔
امی: ہمارے ملک میں اس روایت کے بارے میں ذیادہ عوام واقف نہیں، مگر میں نے
انٹرنیٹ پر دیکھا ہے کہ جو لوگ نیکی کی ٹوکری سے آگاہ ہیں انہوں نے اپنے
تندور یا دکان پر اسے رکھا ہوا ہے مگر ابھی اس روایت کو مزید فروغ کی ضرورت
ہے۔
آبان: آپ ٹھیک کہتی ہیں امی جان۔ کل میں اور موسٰی ابو جان کے ساتھ جا کر
کم از کم ایک دو تندور والوں کو راضی کر کے نیکی کی ٹوکری رکھواتے ہیں۔
امی: بہت خوب بیٹا! مجھے آپ کا جذبۂ ہمدردی اچھا لگا۔
موسٰی: بھائ ہم اپنے دوستوں کو بھی نیکی کی ٹوکری کے بارے میں ضرور بتائیں
گے۔
آبان: ہاں کیوں نہیں تاکہ وہ بھی اس نیک کام کو کرنے اور پھیلانے میں
مددگار ثابت ہو۔
امی: شاباش میرے بچوں۔ اللہ سبحان و تعالٰی آپ کی نیک نیتی اور جذبہ کو
قبول فرماۓ۔ آمین
آبان: اچھا امی ایسی نیکی کی ٹوکری تو میڈیکل سٹورز پر بھی رکھی جا سکتی ہے
جس میں عام بیماریاں جیسے نزلہ، زکام، بخار، سر درد، بچوں کی کھانسی وغیرہ
کی دوائیاں اور شربت شامل ہو تاکہ سفید پوش لوگوں کو عام بیماری کی دوا کے
لۓ پریشان نہ ہونا پڑے۔
امی: ارے واہ یہ تو ذبردست آئیڈیا ہے۔ چلو اسے بھی آپ اپنے ابو جان سے شیئر
ضرور کرنا۔
امی: چلو بیٹا اب سو جاؤ۔ صبح سکول بھی جانا ہے۔ شب بخیر۔
موسٰی: شب بخیر امی۔
آبان: شب بخیرامی جان۔
ختم شد
|