کھیل اور کھلاڑی جائے بھاڑ میں ، پیٹ تو بھر گیا نا..
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے دنیا کی طرح اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں یا پھر ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو کم از کم دنیا کے لئے قابل قبول بھی ہوں اور ہمیں ان کے مقابل میں لے آئیں.لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرتے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے. قیامت کی بڑی نشانیوں میں ایک نشانی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ نااہل افراد کو حکومت مل جائے گی ، جب نااہل افراد کو حکومت، اقتدار اورکرسی ملے گی تو وہ لازما ایسے فیصلے کرینگے جو عوام کے مفاد میں نہیں ہونگے جس کا اثرعواام پر لازما پڑے گا.خیبرپختونخوا میں تبدیلی والی سرکار نے تبدیلی کے نام پر جتنے بھی فیصلے کئے اس کے اثرات و ثمرات تو آہستہ آہستہ آنا شروع ہوگئے ہیں.لیکن اس صوبے میں کھیلوں کیساتھ جوکھیل وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے اپنے دور وزارت میں کیا اس سے بدتر موجودہ وزیر کھیل عاطف خان کررہے ہیں جسے اس ڈیپارٹمنٹ نے بیورو کریٹ اور پی ایم ایس افسران " خوشامد " کی وجہ سے وزیر کھیل کی "برین چائلڈ" کہتے ہیں اور حقیقت میں یہ کھیلوں کا پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا بنیادی کام نرسری سطح پر کھیلوں کا فروغ ہے اور اس حوالے سے مقابلوں کا انعقاد ہے لیکن یہ "اعزاز" وزیراعلی کو جاتا ہے کہ انہوں نے انڈر 23مقابلے منعقد کروائے ، پھر انڈر 21 مقابلے منعقد کروائے ، جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن کھلاڑی کوئی نہیں نکلا ، ہاں سرکارکے کاغذات میں بہت کچھ نکل گیا ، اب وزیراعلی خیبر پختونخو ا نے یہ وزارت عاطف خان کے حوالے کردی جنہوں نے انٹر یونیورسٹی ، انٹر کالجز اور اب حلقہ وائز مقابلوں کا آغاز کردیا ، جس کا بنیادی مقصد صرف تبدیلی کے نام پر مخصوص لوگوں کے جیبوں کو بھرنا ، اپنے ممبران اسمبلی کو نوازنا ہیں.کیونکہ حلقہ وائز مقابلوں میں انڈر 29 میں کس طرح کے لوگ نکلیں گے.یہ بھی بڑا سوالیہ نشان ہے.
کیا یونیورسٹیوں کیلئے کھیلوں کا اپنا فنڈز نہیں ہوتا ، ان کے اپنے ڈائریکٹریٹ نہیں ، ان کے اپنے ملازمین نہیں ، ان کے اپنے مقابلے نہیں ہوتے ، بالکل سب کچھ ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ آئیڈیا وزیر کے ذہن میں ڈال دیا گیا تو پھر آئو دیکھا گیا نہ تائو ، یہ مقابلے کروائے گئے ، سامان منگوایا گیا جس میں بھی مخصوص لوگوں کو نوازا گیا .سامان یونیورسٹیوں میں تقسیم کیا گیا ، حالانکہ ایسی یونیورسٹیاں بھی آئی تھی جن کے پاس کھلاڑی بھی نہیں تھے لیکن انہیں لاکھوں روپے کا سامان دیا گیا ، راقم نے بذات خود ایک بڑی یونیورسٹی کے شعبہ کھیل سے وابستہ ایک صاحب کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں یہ کہتے سنا کہ ہم کھیلیں گے ضرور لیکن ہم سے سامان واپس نہیں لینا ، کیونکہ اس سے ہمارے لڑکے یونیورسٹی میں کھیلیں گے، اب سوال یہ ہے کہ صوبے کی ایک بڑی جامعہ میں کھیلوں کا سامان کیا نہیں آتا ، آتا ہے ، پورے ڈیپارٹمنٹ موجود ہے ، فنڈز بھی آتے ہیں لیکن ان ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے پیٹ بھی تو بھرنے ہیں پھر صاحب لوگوں نے بھی کہا تھا اس لئے انٹر یونیورسٹی مقابلے کروائے گئے.
انٹر یونیورسٹی کے بعد انٹرکالجز کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ، حالانکہ انہیں بھی کھیلوں کیلئے فنڈز ملتا ہے ، کھلاڑیوں سے بھی کھیلوں کے نام پر فنڈز نکالا جاتا ہے انٹر کالجز مقابلوں میں صرف تین کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد میں ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کتنا فائدہ اٹھایا اس کے کھیلوں سے وابستہ افراد کہاں سے کہاں پہنچے یہ تو الگ بات ہے لیکن اس کھیلوںکا بنیادی مقصد یہی تھا کہ نئے کھلاڑی سامنے آئیں اور انہیں بین الاقوامی معیارات کا بھی پتہ ہو لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ ساتھ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں نے بھی اپنی جیبیں بھرنی تھی اس لئے کوچز اور مقابلوں کی نگرانی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اپنے بندوں نے کی ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنے کوچز کو بھی نہیں چھوڑا گیا ، کیونکہ ان کوچز کو پھر ادائیگی کرنی پڑتی تھی اب اگر یہ مقابلے کھیلوں کے مستند کوچز کے بجائے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے من پسند افراد کے زیر سائے ہو تو پھر کیسے کھلاڑی سامنے آئیں گے اس کا اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے.
مزے کی بات یہی ہے کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کھیلوں کی نگرانی کرنے والے شخصیت جو ایک خیبرپختونخواہ میں ایک کھیل کے ایسوی ایشن سے وابستہ ہیں اور ان کی سال بھر میں کوئی مقابلے نہیں ہوتے لیکن مارچ او ر اپریل میں ان کے مقابلے شروع ہوجاتے ہیںجنہیں زیادہ تر گرلز کالجز میں ہی پورا کرتے نظر آتے ہیں یا پھر انہیں پہاڑی علاقوں میں "کیمپ " اور مقابلے کروانے پڑتے ہیں اور انہیں شعبہ کھیل کے "ٹھیکیداروں"کی مدد سے خوب پبلسٹی مل جاتی ہیں اور پھر سال بھر میں انہی دو تین مقابلوں کی وجہ سے انہیں لاکھوں روپے کا گرانٹس ملتا ہے ، کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ گذشتہ سال آپ کے اپنے کھیل میں کتنے کھلاڑی تھے اور امسال کتنے نئے کھلاڑی آئے ہیں . بس مقابلہ ہوگیا ، تصاویر چھپ گئی ، گرانٹس مل گیا پھر اگلے سال دیکھی جائیگی.
مزے کی بات یہی ہے کہ انٹر کالجز کی نگرانی کرنے والے ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کھیلوں کے مقابلوںمیں مختلف ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کو فون کرکے کہا جاتا ہے کہ ہمارے لئے " ٹرافیاں اور سامان "کا بندوبست کرو ، کہ یہ مقابلے ہم نے کروانے ہیں ، لیکن جب یہی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے فنڈز پر مقابلے منعقد کرواتے ہیں تو پھر انہیں کوچز اور یہی ایسوسی ایشن یاد نہیں رہتے پھر یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے پاس "اپنے بندے"ہیں جو مقابلوں کی نگرانی کرینگے.جنہیں بنیادی قوانین کا نہیں پتہ وہ کیسے مقابلے کروائیں ، کیسے کھلاڑی ان سے پیدا ہونگے ، یہ بھی بڑا سوال ہے.اور ہم دنیا سے کس طرح مقابلہ کرینگے.
دنیا بھر میں کھیلوں کیلئے ایک بنیادی اصول یہی ہے کہ کم عمری میں ہی بچوں کو مختلف کھیلوں کیلئے تیار کیا جاتا ہے جبکہ اپنے خیبر پختونخواہ میں تبدیلی کے بعد اٹھارہ سے " انڈر 29 " کے جوانوں پر حلقہ وائز مقابلوں پراخراجات کئے جارہ ہیں اول تو ان مقابلوں سے کھلاڑی نکلنے ہی نہیں ، اور اگر نکلے بھی تو پھر انہیں دنیا میں کس فورم پرکھلایا جائیگا ، یہ بھی بڑا سوالیہ نشان ہے ، لیکن کھیل اور کھلاڑی کا کیا ہے ، "بس صاحب لوگوں کے "برین چائلڈ" سے بہت ساروں کاپیٹ بھر گیا یہ بھی بڑی بات ہے.کھیل اور کھلاڑی جائے بھاڑ میں.
|