لگ بھگ دو صدیوں پہ پھیلی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا درس یہ ہے کہ کھیل سے بڑھ
کر کوئی نہیں ہے۔ آسٹریلوی بلے باز کرس لِن کہا کرتے ہیں کہ اگر کوئی حد سے
آگے بڑھ کر کھیل پہ حاوی ہونے کی کوشش کرے تو پھر کھیل اپنے ہی طریقوں سے
لپک کر جوابی وار کرتا ہے۔
آنجہانی شین وارن نے ایک بار علیم ڈار کی امپائرنگ پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا
تھا کہ اگر بولر یا بلے باز بری فارم دکھلائے تو اسے ٹیم سے ڈراپ کر دیا
جاتا ہے مگر امپائرز جب متواتر بری فارم دکھلا رہے ہوں تو بھی اس پہ کوئی
ایکشن نہیں لیا جاتا۔
بہرحال آئی سی سی کے ہاں امپائرز کی کارکردگی جانچنے کے پیمانے موجود ہیں
اور باقاعدہ درجہ بندی طے کرنے کا ایک ریٹنگ سسٹم بھی متحرک رہتا ہے۔ علاوہ
ازیں، مدِ مقابل ٹیموں کو بھی یہ سہولت میسر ہوتی ہے کہ میچ کے بعد ریفری
کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں اپنے گلے شکوے بیان کریں۔
مگر کرکٹ کی حالیہ تاریخ میں شاذ ہی کسی امپائر کی فیصلہ کن غلطیوں پہ کوئی
واضح کارروائی سامنے آئی ہے۔ میچز کے انتظامی معاملات میں پلئینگ کنڈیشنز
کے غلط تعین پہ اکا دکا کارروائیوں کے سوا، کرکٹنگ فیصلوں پہ کبھی کوئی
قابلِ ذکر ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ علیم ڈار اعلیٰ پائے کے امپائر رہے ہیں اور آئی سی
سی کے بہترین امپائر بھی قرار دیے جا چکے مگر انسان اور نسیان کبھی جدا
نہیں ہو سکتے۔ بجا کہ بہترین فیصلہ ساز بھی مشکل ترین لمحات میں غلطی کے
مرتکب ہو سکتے ہیں مگر کرکٹ جیسے کھیل میں ایسی غلطیاں نتائج کا حلیہ بدل
دیتی ہیں۔
چیمپئینز ٹرافی 2009 میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں جب پاکستان ایک
تگڑا ہدف ترتیب دینے کی سمت رواں تھا، عمر اکمل بہترین فارم میں تھے اور
آئی سی سی کے بہترین امپائر سائمن ٹوفل ان کی اننگز کی نگرانی کر رہے تھے۔
ٹوفل نے ایک ایل بی ڈبلیو اپیل پہ عمر اکمل کو بے جا آؤٹ قرار دے دیا اور
پاکستانی اننگز کا شیرازہ بکھر گیا۔
میچ کے اگلے روز سائمن ٹوفل نے ذاتی حیثیت میں عمر اکمل سے ملاقات کر کے
اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معذرت بھی طلب کی۔ اگرچہ اس معذرت کی خبر دنیا
بھر کے ذرائع ابلاغ پہ نشر ہوئی مگر وہ معذرت پاکستان کو ٹورنامنٹ میں واپس
نہ لا پائی۔
قصور مگر محض امپائرز ہی کا نہیں، آئی سی سی کہیں زیادہ شریکِ جرم ہے۔ جہاں
ہر سال ڈیڑھ بعد درجنوں قوانین بدلے جاتے ہیں اور کھیل کی بہتری کے عزم کا
اعادہ کیا جاتا ہے وہاں سافٹ سگنل جیسے بے سر و پا قانون پہ نظرِثانی کیوں
نہیں ہو پاتی؟ یہ امر بجائے خود مضحکہ خیز ہے کہ ایک طرف امپائر اپنے مخمصے
کا اعتراف کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی سے رجوع کر رہا ہے اور دوسری طرف اس پہ
اپنا 'خیال' بھی صادر کر رہا ہے۔
امپائرز کے فیصلوں پہ نظرِ ثانی کے لیے ڈی آر ایس سسٹم متعارف کرانے کی
غایت ہی یہ تھی کہ متنازع فیصلوں سے متاثر ہونے والے کھیل کے حسن کو بحال
کیا جا سکے مگر امپائرز کال اور سافٹ سگنل جیسے قوانین نے اس سارے نظام کی
روح کو شرما دیا ہے۔
آئی پی ایل سنہ 2021 سے آن فیلڈ امپائر کے سافٹ سگنل کا قانون ختم کر چکی
ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان قوانین پہ تنقید کے جواب میں آئی سی سی کی عمومی
دلیل یہ رہی ہے کہ امپائرز بھی انسان ہیں اور انسانی بھول چوک کی گنجائش
باقی رہنی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب آف سٹمپ سے باہر جاتی گیند پہ بلے
باز سے کوئی خفیف سی خطا ہوتی ہے اور بلے کے باہری کنارے کا ایک ایسا کھدرا
گیند سے چھیڑخانی کر جاتا ہے جو نہ تو امپائر کی نظر میں آ پاتی ہے اور نہ
ہی سٹمپ مائیک پہ کچھ سنائی دیتا ہے مگر جونہی وہ اپیل ریویو میں جاتی ہے،
نہ تو ٹیکنالوجی بلے باز کو کوئی شبہے کا فائدہ دے پاتی ہے اور نہ ہی
انسانی بنیادوں پہ آئی سی سی کوئی گنجائش پیدا کرتی ہے۔
بعینہٖ جب ایک بولر سے ہلکی سی بھول ہوتی ہے اور اس کا فرنٹ فٹ کریز کی
سفید لکیر کے عین اوپر جا پڑتا ہے جہاں اس کے جواز کا تعین کلی طور پہ
امپائر کی صوابدید سے مشروط ہو جاتا ہے، وہاں اسے بھی کسی انسانی غلطی کی
گنجائش میسر نہیں کی جاتی۔
مگر امپائر کو انسانی غلطی کی گنجائش کا فائدہ پہنچا کر آئی سی سی امپائر
کو کھیل سے عظیم ثابت کرنے کی غیر شعوری کوشش میں محو نظر آتی ہے۔
بنی نوعِ انسان کی ایجاد کردہ کھیلوں میں ٹیسٹ کرکٹ وہ انوکھا کھیل ہے جس
کے حسن کا تقابل کسی دوسری شے سے ممکن ہی نہیں۔ گیند اور بلے کی اس پانچ
روزہ مڈھ بھیڑ میں اگر چار پانچ روز کی بہترین کرکٹ کا اختتامی نوٹ ایک
ناقابلِ توجیہہ فیصلے کی بھینٹ چڑھ جائے تو یہ امر بجائے خود ٹیسٹ کرکٹ کے
لیے کسی اہانت سے کم نہیں۔
اینڈرسن اور رابنس نے پہلے نئے گیند کے ساتھ جو شاندار سپیل پھینکے اور
ملتان کی وکٹ کی دراڑوں کو نشانہ بنایا، وہ صرف بابر اعظم اور محمد رضوان
ہی نہیں، پوری دنیائے کرکٹ کے لیے ایک نظارہ تھا۔ کرِک انفو کے تجزیہ کار
اینڈریو میکگلیشن ایڈیلیڈ کے پریس باکس میں بیٹھے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا
کے مابین میچ دیکھ رہے تھے مگر اینڈرسن کی اس گیند کے بعد ایڈیلیڈ کے پریس
باکس کی توجہ کا رخ بھی ملتان کو ہو گیا۔
انگلش پیس کی اس ابتدائی یلغار کے بعد بہت سے کرکٹ شائقین کی طرح بین سٹوکس
بھی پر امید تھے کہ پاکستانی بیٹنگ پہلی اننگز کی کارکردگی دہرائے گی مگر
سعود شکیل کے اعصاب تمام خدشات پہ بھاری پڑ گئے۔ امام الحق کے ساتھ
پارٹنرشپ میں انھوں نے بھرپور عزم کے ساتھ اس انھونی کو ٹالا جو عموماً
ایسے مظاہر میں پاکستان کے لیے نوشتۂ دیوار ہو جاتی ہے۔
سعود شکیل کی اننگز کسی بھی نوجوان بلے باز کے لیے ایک سبق تھی کہ چوتھی
اننگز میں دنیا کے تجربہ کار ترین فاسٹ بولر کی یلغار کے سامنے کیسے ڈسپلن
سے ڈٹا جا سکتا ہے۔ اس سیریز میں مجموعی طور پہ پاکستانی بیٹنگ نے پیسرز کی
بجائے سپنرز کے خلاف زیادہ سہولت سے بیٹنگ کی ہے مگر بابر اعظم اور سعود
شکیل دو ایسے بلے باز ہیں جنھوں نے پیس پہ بھرپور گرفت اور مہارت کا مظاہرہ
کیا ہے۔
محمد نواز کے جوابی وار نے جب بین سٹوکس کی حکمتِ عملی کو پسپا کرنا شروع
کیا تو جیت پاکستان کے دروازے پہ دستک دینے کو تھی۔ سعود شکیل بھی آج صبح
جب میدان میں اترے تو وہ میچ کو اختتام تک پہنچانے کے عزم سے معمور تھے۔
محمد نواز کی اننگز نے ان کا کام اور سہل کر دیا تھا۔ یہ طے تھا کہ اگر
سعود آخری گیند تک کریز پہ موجود رہتے تو میچ کا نتیجہ یکسر مختلف ہوتا۔
مگر علیم ڈار کے اس متنازع فیصلے نے سیلِ رواں کے رستے کھول دیے اور باقی
ماندہ پاکستانی اننگز، نئی گیند اور مارک ووڈ کے طفیل، تین وکٹوں کے عوض
محض 37 رنز جوڑ پائی۔
عین ممکن ہے کہ اگرعلیم ڈار وہ متنازع فیصلہ صادر نہ فرماتے تو بھی مارک
ووڈ، اینڈرسن اور روبنسن اپنی پیس کا جادو جگا کر سیریز اپنے نام کر لیتے۔
مگر علیم ڈار کے اس متنازع فیصلے نے صرف ٹیسٹ کرکٹ ہی نہیں، اس یادگار
انگلش جیت کا حسن بھی گہنا دیا۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |