تیس سال قبل ایودھیا میں آج کے دن بابری مسجد کو شہید
کردیا گیا ۔ ’یہ یاد رکھا جائے گا اور یہ بھی یاد رکھا جائے گا ‘ کہ تین
سال پہلے عدالتِ عظمیٰ میں انصاف کوسولی پر چڑھا دیا گیا۔ بابری مسجد کی
شہادت کے لیے ملک بھر سے کارسیوکوں کو جمع کرنا پڑا لیکن عدلیہ کے انہدام
کی خاطر تو ایک جج کی بلیک میلنگ اور ایوان بالہ کی نشست کافی ہوگئی۔
9؍نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کی تعمیر مندر کو
توڑ کر نہیں کی گئی تھی۔ محکمۂ آثار قدیمہ نے جو ملبہ نکالا وہ قدیم بودھ
وہار کا تھا۔ یعنی جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا ان کے آبا و اجداد
نے وہاں موجود بودھ وہار کو بھی زمین بوس کیا کیونکہ اس وقت مسلمان تو وہاں
تھے ہی نہیں ۔ سمراٹ اشوک نے جو 84,000بدھا وہار تعمیر کئے تھے وہ اسی طرح
غائب کردئیے گئے۔ یہ ان تخریب کاروں کی تاریخ ہے جنھوں نے ماضی میں یہاں
کےاصلی باشندوں(دراوڑوں) کو جنوب میں ڈھکیل کربودھوں کا دیس نکالا کردیا
اور اب مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1528 میں جب ایودھیا کے اندر بابر کےسپہ سالار
میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ نہیں بنائی کیونکہ مسلمان
اپنی عبادتگاہ چوری کی زمین پر نہیں بناتے ۔ مندروں کی مدد سے اپنی سیاست
چمکا نے والے اور بدعنوانی کے ذریعہ حرام کی کمائی کرنے والے ایسا کرتے
ہیں۔ اس کا کھلا مظاہرہ فی الحال ایودھیا میں ہورہا ہے۔ بابر کے سپہ سالار
میر باقی کو انتخاب نہیں لڑنے کی خاطر بھی مندر کا تنازع درکار نہیں تھا۔
بابر کی صلح جوئی کا سب سے بڑا ثبوت اس کی سوانح حیات بابر نامہ ہے۔ مشہور
تو یہ بھی ہے کہ اسی دور میں عظیم رام بھکت تلسی داس نے ایودھیا بیٹھ کر
رام چرت مانس لکھی اور اس میں رام مندر کے انہدام کا کوئی ذکر نہیں
کیا۔مغلوں کے دور میں بابری مسجد کی بابت کوئی تنازع نہیں ہوا۔ اس کی
ابتداء 1857میں اس وقت ہوئی جب ہنومان گڑھی کے ایک مہنت نے مسجد کےصحن (
مشرقی حصہ ) پر قبضہ کر لیا اور انگریزوں کی مدد سے جنوب مشرقی حصہ میں
’’رام چبوترہ‘‘تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔
بابری مسجد کے موذن مولوی محمد اصغر نےجب مجسٹریٹ سے غاصبانہ قبضہ کی شکایت
کی تو 1859ء میں برطانوی حکومت نے ہندو اور مسلمانوں کی عبادتگاہوں کے
درمیان ایک دیوار تعمیر کر دی اور دونوںکے لئے مختلف سمتوں سے دروازے مختص
کر دیئے۔ اس طرح گویا انگریزوں نے اس غاصبانہ قبضے کو سند عطا کردی ۔ اس
غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف 1860، 1877، 1883، 1884ء میں مسلمانوں عدالت سے
رجوع کیا مگرانہیں خارج کر دیا گیا۔رام مندر کی تحریک میں پہلا خطرناک موڑ
1885ء میں آیا جب مہنت رگھوبر داس نے رام چبوترہ پر مندر تعمیرکی کے لیے
زمین کی قانونی ملکیت پر اپنا حق جتانے والا مقدمہ دائر کیا۔ انگریز سامراج
کے مفادات اس مندر سے وابستہ تھے کیونکہ ان کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں
سے تھا۔ اس کے باوجود ان کی عدالت نے رگھوبر داس کو رام جنم استھان کا مہنت
تو تسلیم کیا مگر مندر کو چبوترے سے آگے نہیں بڑھنے دیا اور مسجد کی جگہ
پر مندر ہونے کے سلسلے میں کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔
عدالت سے علی الرغم سرکاری ریشہ دوا نیاں جاری رہیں اور 1870ء سے 1923ء کے
دوران ایودھیا کے اندر مندر مسمار کر کے بنائی جانے والی تین مساجد کا
ریکارڈ تیار کرواگیا جس میں بابری مسجد شامل تھی نیز مسجد کے صدر دروازے پر
ایک پتھر کے کتبہ پر ’’رام جنم بھومی‘‘ لکھ کر لگا دیا گیا۔ مسلمانوں کی
نماز میں چونکہ اس سے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اس لیے یہ اندازہ کیے بغیر کہ
آگے کیا فتنہ برپا ہوسکتا ہے اسے نظر انداز کردیا گیا ۔ 1947 میں انگریز
تو چلے گئے مگر اپنے پیچھے یہ قضیہ چھوڑ گئے ۔ دسمبر 1949ء میں ’’اکھل
بھارتیہ رامائن مہاسبھا‘‘ کی مجلس کے اختتام پر یعنی 22 اور 23 دسمبر کی
درمیانی رات میں رام اور سیتا کی مورتیاں مسجد کے اندر رکھ دی گئیں۔ ان
مورتیوں کے بارے میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ وہ ازخود ظاہر ہوئی ہیں۔
29 دسمبر 1949ء کے دن اس نامعقول دلیل کی بنیاد پر بابری مسجد کو متنازعہ
جگہ قرار دے کر صدر دروازے پر قفل ڈال دیا گیا مگر ہندووں کو دوسرے دروازے
سے درشن کی اجازت دی گئی نیز بھوگ چڑھانے کے چار پجاریوں کا تقرر کیا گیا ۔
یعنی آزاد ہندوستان میں وہ ہوگیا جس کی جرأت انگریز نہیں کرسکے حالانکہ
عدالتِ عظمیٰ نے اپنےآخری فیصلے میں مورتی کے رکھے جانے اور مسلمانوں کو
عبادت سے روکنے کو غلط بتایا ۔ مورتی رکھنے کے بعد ہندووں کا حوصلہ بڑھااور
دس سال بعد 1959 میں نرموہی اکھاڑے کی طرف سے بابری مسجد کے منتقلی کی عرضی
داخل ہوئی ۔ اس وقت تک ملت خواب خرگوش میں مبتلا تھی مگر دوسال بعد 1961
میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔
1981میں میناکشی پورم کے اندر آٹھ سو دلتوں کے قبولیتِ اسلام قبول سے پورے
ملک میں کھلبلی مچ گئی ۔ وشو ہندو پریشد نے اس کے اثرات کو زائل کرنے کی
خاطر بھارت ماتا اور گنگا جل یاترا نکالی لیکن چونکہ اس میں کوئی تنازع
نہیں تھا اس لیے عوام کواپنی جانب متوجہ نہیں کرسکی ۔ 1983 میں اس نے رام
مندر کا مسئلہ اٹھا یا اور رام للاّ کو آزاد کرانے کا عزم کیا ۔ اس بار
اسے کامیابی ملی ۔ ایک طے شدہ فیصلے کے تحت 1986 کے اندر بابری مسجد کے
اندر ہندووں کو پوجا پاٹ کی اجازت دے دی گئی اور اسی سال بابری مسجد ایکشن
کمیٹی کی تشکیل ہوئی۔ اس ایکشن کمیٹی نے دہلی میں ایک غیر معمولی جلوس نکلا
۔ اس کے بعد یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کا منصوبہ عین وقت پر منسوخ کیا گیا
اور بابری مسجد کی جانب کوچ کرنے کے فیصلےپر عمل ہی نہیں ہوا۔
ایودھیا کے اندر شیلا نیاس کروانے کے باوجود راجیو گاندھی انتخاب ہار گئے ۔
وی پی سنگھ وزیر اعظم بنے تو ان کو اشتراکیوں کے علاوہ بی جے پی کی بھی
حمایت حاصل تھی۔ انہوں منڈل کمیشن کی سفارشات کا اعلان کرکے بی جے پی کے
ہوش اڑا دیئے اور اس طرح 1990 میں لال کرشن اڈوانی کو اپنی سیاسی بقاء کی
خاطر ملک گیر رتھ یاترا نکالنی پڑی ۔1990 میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم
سنگھ یادو نے رام بھکتوں پر گولی چلا کر انہیں بابری مسجد کو شہید کرنے سے
روک دیا مگر 1991میں ہمدردی کی لہر سے بی جے پی اتر پردیش کے اندر اقتدار
میں آ گئی۔ اس کے بعد 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں کار سیوکوں نے بابری مسجد کو
شہید کر دیا بعد ازاں جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
ایودھیا میں ایک عارضی رام مندر بنا دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤنے
مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ تو کیا مگر کہاں یہ نہیں بتایا۔ انہوں نے
مسجد کے انہدام کو تو نہیں روکا مگر بی جے پی کی تین ریا ستی حکومتوں کو
برخواست کرتینوں سے اسے بے دخل کردیا۔
16 دسمبر 1992 سے بابری مسجدکی شہادت کے لئے ذمہ دار صورت حال کی جانچ کے
لئے ایم ایس لبراہن کمیشن نے کام کرنا شروع کیا ۔ اس نے 17 سال بعد جولائی
2009 میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی اور دودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی کردیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔1994 میں الہ آباد ہائی
کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں مقدمہ کا آغاز ہوا۔2000 میں بی جے پی کی مرکزی
سرکار بن گئی اور 4 مئی 2001کو خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال
کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری
کر دیا۔یکم اپریل 2002 کو مالکانہ حق کے تعلق سے الہ آباد ہائی کورٹ کے تین
ججو ں کی بنچ نے سماعت شروع کی اور 30 ستمبر 2010 کو اس کی لکھنؤ بنچ نے
بابری مسجد کی زمین کو تین حصو ں میں تقسیم کر تے ہوئے ایک حصہ رام مندر،
دوسرا سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کو دے دیا ۔
اس معاملے میں ٹوسٹ اس وقت آیا جب 19 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ نے بابری
مسجد انہدام کے معاملے میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما
بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی رہنماؤں کے خلاف مجرمانہ
مقدمہ چلانے کا حکم سنادیا۔ یہ غالباً اڈوانی کو صدر مملکت بننے سے روکنے
کی سازش تھی ۔ رام ناتھ کوند کے صدر بننے اور بابری مسجد کا فیصلہ ہوجانے
کے بعد ان سب کو بری کروادیا گیا ۔ اس سے پہلے 2019میں نومبر کی 9 تاریخ کو
سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو پوری طرح غیر قانونی بتا کر اراضی
کی ملکیت اسی ہندو فریق کو سونپ دی جس نے اسے شہید کیا تھا ۔ عدل و انصاف
کو بالائے طاق رکھ کر یہ فیصلہ جن سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا گیا تھا
ان کوبروئے کار لانے کے لیے 5؍ اگست2020 کو حکومت ہند کے زیر اہتمام رام
مندر تعمیر کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے رکھا ۔ سیاسی مفادات کی
خاطر مسجد پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ کو یاد رکھنا ضروری ہے تاکہ سیاسی طاقت
حاصل کرکے اللہ کے گھر کی بازیابی ممکن ہوسکے۔ یہ امت مسلمہ پر بابری مسجد
کا قرض ہے ۔ ان شاء اللہ اسے وقت آنے پر چکایا جائے گا کیونکہ وطن عزیز
عدل و انصاف کے قیام کی خاطر بھی یہ ضروری ہے۔
|