پھندا

کسی خواب کی طرح ہی اس نے زندگی کو گزارا تھا۔ آج یوں لگ رہا تھا جیسے سبھی رستے ختم ہوگئے ہوں اور ایک نہ ختم ہونے والا اَن دیکھا سلسلہ اُسکی راہوں میں آکر رُک گیا ہو۔۔۔۔ منزلوں تک جاتے راستے اس سے گریزاں ہی رہے تھے۔۔۔

وہ صبح گھر سے نکلتی، دفتر جاتی پھر واپس لوٹ آتی۔۔۔روز گھر سے دفتر کا سفر سعی ِ مُسلسل کا پیش خیمہ ثابت ہورہا تھا۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ اِنہی راہوں پر زندگی ایک دِن اُس سے دغا کرے گی، نظریں چُرائے گی پھر آنکھیں بدل لے گی۔۔۔

آج دفتر سے وآپسی پر جب وہ سڑک پہ تپتی دھوپ میں چلتی چلی جا رہی تھی تو سامنے والی سڑک پر سکول سے نِکلتے ہوئے کچھ بچوں پر اس کی نگاہیں ٹھہر گئیں۔ اُس کا جی چاہا کہ ننھے ننھے پھولوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر دھوپ کی تمازت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچا لے مگر یہ تمازت تو سعیِ مسلسل کے شبانہ روز پہلوؤں کانام تھی جس کی گزرگاہ سے ہوتے ہوئے صدیوں بعد تھکن اور تپش کا احساس زائل ہوتا اور کبھی کبھار چھاؤں نصیب ہو جاتی تھی۔۔۔۔

ماتھے پر پسینے کی بُوندیں بہے چلی جار ہی تھیں۔جلد ہی تپتی سڑک پہ نازُک وجود قدم بہ قدم جلنے لگا۔ یہ جُون کا مہینہ تھا۔۔۔تپش کے احساس سے بچنے کیلئے اُس نے فائل اپنے سر پر رکھ لی۔ فائل کیا تھی؟ خواہشوں، ضرورتوں اور نہ قبول ہونے والے سوالوں کا ایک پلندا تھی! درخواستیں جو کہ بہت سی ادھوری خواہشوں اور حسرتوں سے پُر اُس کے سر پر لاد دی گئی تھیں جو اُسے رات گئے تک دفتر کے اعلیٰ افسران کے میز کی زینت بنانے کیلئے ٹائپ کرنا تھیں۔ کسی میں جگہ کی تبدیلی کی عرضی تھی، کسی میں گھر حاصل کرنے کی حسرت سالوں سے آہیں بھر رہی تھی، کسی درخواست میں دفتری سہولت کے تحت بچوں کی فیس معافی کاتذکرہ تھا، کسی میں دفتر سے دوری کے باعث ٹرانسپورٹ کی سہولت کا تقاضا! اور کسی درخواست میں پروموشن حاصل کرنے کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی خواہش! ضرورتوں کی چکّی میں پستا ہوا نازک بدن سر پہ اِتنی خواہشوں اور حسرتوں کا انبار اُٹھائے اور بھی وزن محسوس کر رہا تھا۔۔۔

کہنے کو تو وہ ٹائپسٹ تھی جو دفتری معاملات اور کاروائیوں پرکیس فائیلز تیار کرتی تھی، مگر اِس بار افسران بالا کی ہدایات پر تمام چھوٹے بڑے ملازمین کی ذاتی نوعیت کی درخواستوں کا پلندا سر پر اُٹھائے کسی مجبوری کو ہونٹوں میں دبائے دفتر سے باہر نکل آئی تھی۔ وہ چلتی جاتی اور سوچتی جاتی کہ کئی خواہشات اور حسرتوں کے جال میں جکڑے ملازمین افسران سے اپنے استحقاق کیلئے نوحہ کناں ہیں۔ دِن بھر محنت و مُشقت کے بعد کہیں جا کے دیر رات کو اُن کی آنکھ بے پناہ پریشانیاں دیکھنے اور جھیلنے کے بعد لگتی ہوگی اور پھر اگلی صبح ایک نیا دِن انہی جان توڑ مشقتوں کو گلے لگانے کیلئے منتظر ہوتا ہے! وہ سوچ رہی تھی کہ فائلز ٹائپ ہوں گی تو آگے جائیں گی جیسے وہ ان کی اِکلوتی پیغام رساں ہے یا ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ایک سبب! ورنہ یہ حسرتوں اور خواہشوں کا پلندا کئی صدیاں دور جا گرے گا جس کے دورانیے میں بہت سی نسلیں جل بھن جائیں گی۔ اُس گٹھڑی میں سِوائے ایک درخواست کے تمام درخواستیں موجود تھیں اور وہ ایک درخواست جو نہیں تھی وہ اُسکی اپنی تھی۔ جِسے لکھ کر اُس نے پھاڑ دیا تھا! اُس میں فقط اِتنا تحریر تھا کہ "دو وقت کی روٹی کے علاوہ ہم دونوں ماں بیٹی کو تحفظ کون دے گا؟" ہم کہاں جائیں گی؟“۔۔۔۔۔۔ نا معلوم کیا سوچ کر اُس نے وہ حسرتیں ریزہ ریزہ کر ڈالیں کہ افسران کیلئے وہ کسی کاغذی سچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھیں! اُس پر سُرخ آنکھیں آنسوؤں کی بوچھار پسینے میں مِلاتی اپنا رستہ تکتی جاتیں!

سامنے سڑک پر جہاں بچے چلے آرہے تھے وہیں ایک طر ف سے تیز ویگن محنت و مشقت کی چکّی میں پستے،ایک کبھی نہ ختم ہونے والے جمِ ٖغفیرکو جانوروں کی مانند خود میں لادے ہوئے، شور مچاتی، دھوئیں چھوڑتی، ضرورتوں کے عذاب میں گھِری زور زور سے دیوانہ وار گرجدار ہارن بجاتی دوڑتی چلی آرہی تھی جوکسی صورت رُکتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ دوڑی۔۔۔ اور دوڑی۔۔۔۔ زور سے دوڑی۔۔۔۔ موبائل فون جو اُس نے ابھی حال ہی میں پچھلی تنخواہ سے خریدا تھا، ہاتھ سے پھسلا اور دھڑام سے نیچے جا گِرا۔ اُسکے وجود سا نازُک موبائل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تپتی زمین کی نذر ہوگیا۔۔۔ وہ بے پرواہ دوڑی اور دوڑی۔۔۔۔ بچے کو ایک دم سے دھکا دے کر ایک طر ف کیا، مگر خود کو بچانے کی کوشش میں دوپٹہ پیر کے نیچے آگیا، جس کے باعث گلے میں پھندا لگنے سے وہ بس سے جا ٹکرائی اور دور جا گری۔۔۔۔ فائل بھی اُڑ کے ایک طرف جا پڑی۔۔۔۔۔ تمام کی تمام حسرتیں، خواہشیں اور ضرورتیں ہوامیں بکھریں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تپتی سڑک پر کبھی نہ ختم ہونے والی تپش کی نذر ہوگئیں۔۔۔۔۔
 

Sameera Rafique
About the Author: Sameera Rafique Read More Articles by Sameera Rafique: 3 Articles with 5615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.