انصاف کی تلاش!

بڑا ہی دردناک ہوتا ہے جب کوئی صحافی اپنی ڈیوٹی کے دوران مر جاتا ہے۔ اس بار مرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ارشد شریف تھا،جس نے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر کینیا کی طرف رخ کیا۔

ہر کوئی سچ نہیں کہتا کیونکہ سچ بولنا بہت بہت بہت مشکل ہوتا ہے اور سچ بولنے کے لیے آپ کو مرنا پڑتا ہے یا آپ کو مار دیا جاتا ہے۔ جب تک آپ سچ بولتے رہیں گے آپ مار کھاتے رہیں گے کیونکہ سچ کہنا اور سننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بطور صحافی ہمیں ہرحال میں سچ بولنے کی تربیت دی جاتی ہے مگر جب بات ہو مزہبی بددیانتی،سماجی مسائل یا اسٹیبلشمنٹ کی تو ہم پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور مارا پیٹا جاتا ہے۔میں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے جب بھی حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے یا تو میرا اکاؤنٹ بین کر دیا جاتا ہے یا پھر لوگوں کی طرف سے یہ کلمات سننے کو ملتے ہیں کہ تمہیں اٹھا کرکسی گمنام جگہ پر منتقل کر دی جائے گا تمہارا سافٹ وئیر اپڈیٹ کر دیا جائے گا آخر صحافی کے سچ بولنے پر مسلئہ کس کو ہے سب کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔

مجھ سمیت پوری قوم کو دکھ ہے جس طرح ارشد شریف کو قتل کروایا گیا،سب جانتے تھے وہ سچ بولے گا خاموش نہیں بیٹھے گا اور ارشد سریف بھی جانتا تھا کہ اس کی زندگی کو خطرات کا سامنا ہے اس کے باوجود بھی وہ راہ حق پر چلتا رہا اس نے ہار نہیں مانی۔

میری کبھی بھی ارشد شریف سے ملاقات نہیں ہوئی،مگر بطور صحافی میں بڑا حیران ہوتی تھی کہ یہ بندہ کتنا بہادرہے کہ سچ بولنے سے ڈرتا نہیں، میں نے ارشد شریف کو تب فالو کرنا شروع کیا جب انھوں نے پاناما کیس میں شریف خاندان کے (غیر قانونی) اثاثوں سے متعلق دستاویزی ثبوتوں کا ناقابل تسخیر سلسلہ پیش کیا اور اس دن کے بعد سے یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔۔۔۔۔

اے آر وائی نیوز چینل چھوڑنے کے بعد بھی وہ اپنے میشن کو آگے بڑھانے میں لگا رہا۔ کچھ وقت کے بعد سننے کو ملا کہ ارشد شریف صاحب بول نیوز جوائن کرنے جا رہے ہیں تو دل میں جیسے لڈو پھوٹنے لگے کہ اب اپنے من پسند صحافی سے ملنے کا موقع ملے گا اور ان سے بہت کچھ سکھنے کو بھی ملے گا مگرررر۔۔۔۔۔۔۔ افسوس۔

سچ کے راستے پر چلنا انتہائی کٹھن ہوتا ہے، جبکہ آپ کو یہ بھی پتہ ہو کہ اپنے ہی ملک کے وہ ادارے جو آپ کی حفاظت کے لیے ہوں وہ ہی آپ کے خلاف ہو جائیں توزندگی کا ایک ایک پل کاٹنا کتنا بھاری ہوتا ہے کاش ارشد شریف بتا سکتا، کس طرح اس کے اپنے ہی لوگوں نے اس پر درجنوں کے حساب سے ایف۔آئی۔آر کٹوائیں، اپنا ملک پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا،ان ظالموں نے بیرون ملک مین بھی اس کے لیے زمین تنگ کر دی، دبئی نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے اور ارشد شریف نےخود کو بچانے کے لیے کینیا کا انتخاب کیا مگر ظالموں نے اپنی ملی بھگت سے اس کو وہاں گولیوں کا نشانہ بنایا اور اس کو ایک حادثہ قرار دینے کی کوشش کی گئی.

جس طرح اس کو پلاننگ کے ساتھ تشدد کر کے قتل کروایا گیا اتنا دردناک ہے کہ کسی کو بتانے کے لیے بھی ہمت چاہیے۔اس پوری قوم کو ارشد شریف کی ماں کی ہمت کی داد دینی پڑے گی جس نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر اور دوبیٹوں کو اس دھرتی کے لیے شہید ہوتے دیکھا،اس بیوی کو سلام جو اپنے شوہر کے اس بد ترین دنوں میں شانہ بشانہ اسکے ساتھ کھڑی رہی کبھی کمزور دکھائی نہیں دی ان بچوں کا حوصلہ جنہوں نے چھوٹی چھوٹی عمروں میں اپنے باپ کو مٹی کی نظر کیا۔

ارشد شریف ہمیشہ سے شہید ہونے والے تھے۔ وہ ہم میں سے کبھی نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ سے مختلف تھا۔ وہ خاص بنایا گیا تھا۔ شاید وہ خاص پیدا ہوا تھا۔ وہ داغدار نہیں تھا۔

پاکستانی عوام یعنی ہم کم ظرف لوگ ہیں جو نہ تو ارشد شریف کی حفاظت کر سکے اور نہ ہی ہمارے پاس اس کا بدلہ لینے کے لیے کوئی اسٹیشن ہے۔ کیونکہ شاید پاکستانی قوم اب اپنے ہی ملک میں ایک یتیم بچے کی طرح زندگی گزربسر کررہی ہے،کیونکہ نہ وردی والے محافظ ہمارے ہیں نہ یہ انصاف دینے والی عدالتیں ہماری ہیں جہاں انصاف کوڑیوں کے بھاؤ بکتا ہو۔

ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک بڑا ’نظام‘ ہے جو ہماری حقیقت پر حکمرانی کرتا ہے۔ وہ جو نہ ہمارے قوانین کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے، نہ ہی ہمارے نظام کے ذریعے مقدمہ چلاتا ہے، اور نہ ہی ہماری عدالتوں کے ذریعے سزا دیتا ہے۔ یہ وہ خاموش طاقت ہے جس کا ذکر کریں گے تو مارے جائیں گے۔

میرے بھائیوں، بہنوں ہوشیار رہو۔ وردی میں ملبوس اور کرپٹ سیاستدان آپ کے قلم سے خوفزدہ ہیں کیونکہیہہرآنے والے دنوں میں تلواروں سے زیادہخطرناک ہوتے جاہیں گے۔

شہید ارشد شریف کو کھونا ہمارے لیے بہت بڑا نقصان ہے اور دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے ایک افسوسناک دن بھی ہے۔

ہمارا معاشرہ اس قدر عدم برداشت کا شکار ہے کہ سچ لکھنا بعض اوقات جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس گونگے بہرے معاشرے میں ارشد شریف کے قتل کا انصاف حاصل کرنا اس کے خاندان کے لیے ناممکن ہے مگرہم نہ بھولیں ہیں نہ بھولنے دیں گے۔
خوش رہو ارشد شریف۔۔۔۔۔۔
 

Maisha Aslam
About the Author: Maisha Aslam Read More Articles by Maisha Aslam: 8 Articles with 4485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.