میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی
حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان
بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی
ہے۔
ان کو پہنانے جائین گے سونے کے کنگن اور موتی اور وہاں ان کی پوشاک ریشم
ہے" (الحج:23) سونا موتی اور ریشم خوشحالی کی علامات ہیں۔ خوشحال ہو کر
انسان دو میں سے ایک قسم کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ اپنی
انکساری کے معترف ہو کر شکرگذاری میں اضافہ کرلیتے ہیں۔اس حالت کی ترجمانی
حضرت ابو حریرہ ؓ کی روائت میں بخاری شریف میں ذکر ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے
فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اللہ حضرت ایوب علیہ السلام برہنہ ہو کر نہا
رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنا شروع ہو گئیں۔ ایوب نے انھیں کپڑے میں
اکٹھا کرنا شروع کر دیا تو ان کے رب عزوجل نے آواز دی اے ایوب کیا میں نے
تجھے اس چیز سے جو دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کر دیا؟ عرض کیا ہاں کیوں
نہیں، اور تیری عزت کی قسم تیری برکتوں سے مجھے استغنا ء نہیں ہے۔
غربت اور قناعت دو مختلف چیزیں ہیں۔ صبر او ر محرومی میں واضح فرق ہے۔ ہوس
اور استغناء کا اکٹھ ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہش ہر دل میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کی
پیدائش پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ ان پر مٹی ڈالنے کو تعلیمات کی
تاویلات سے جوڑا جاتا ہے۔
میرا ایک دوست ہے جس کی رہائش گیٹیڈ کمیونٹی کی ایک کالونی میں ہے۔ آرام دہ
گھر ہے۔ برآمدے کے سامنے کئی گاڑیاں بمعہ ڈرائیور ہر لمحہ خدمت بجا آاوری
کے لیے مستعد ہیں۔ دفتر اچھے علاقے میں ہے۔ چلتے کاروبار میں سے اس نے
سیکڑوں ایکڑ زمین خریدی ہوئی ہے۔ اس کے گھر میں ہم بچپن کے دوست اکثر اکٹھے
ہو کر اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے گھر سے واپسی پر ہر
بار ہمارا موضوع سخن اس کی دولت ہوتی ہے۔ اکثر دوست میری اس توضٰیح سے
اتفاق نہیں کرتے کہ جب ہم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کو کامیابی کا یقین بنائے
ہوئے تھے۔ اس وقت اس نے کمپیوٹر سیکھنے کا ڈول ڈالا ہوا تھا۔ جب ہم ٹی وی
خریدنے کو دنیا کی سب سے بڑی عیاشی گردانتے تھے۔ اس نے وقت وہ کمپیٹوٹر
خریدنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ ایک بار اس کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسی
کے ڈرائیور نے بتایا "وہ ولی اللہ ہے" ۔ گھریلو ملازم کی شہادت بہت وزنی
ہوتی ہے۔ اس شہادت کے بعد میں نے تنقیدی عینک پہن کر اس کو دیکھنا شروع
کیامگر سالوں بعد بھی قابل بیان قابل گرفت عمل نہ ڈہونڈ پایا تو اعتراف
کرنا پڑا کہ ذاتی انکساری کا معترف ہو کر شکر ادا کرنا ایسا عمل ہے جس کے
باعث اسے ہر ماہ ڈالر میں چیک وصول ہوتا ہے۔
میرے دوستوں میں سے ایک کی ملازمت سہولت والی ہے۔ روٹی کپڑا مکان ہی نہیں
ماہانہ مشاہرہ بھی ادارے کے ذمہ ہے۔ اس کے پاس وقت کی فراوانی اور کتب کی
کثرت ہے۔ علم اس کا ایسا کہ بحث میں کسی کو "پھڑکنے" نہ دے۔ ایک بار اس نے
مجھ سے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی "دعاوں کی نا مقبولیت" کا گلہ
کیا تو اچانک میرے منہ سے نکلا کام بدل لو شائد تمھارے حالات بدل جائیں۔
اگلے ہفتے وہ مجھ سے ملنے آیا تو اس کے پاس رکشہ تھا۔ میں نے پوچھا رکشہ
چلاتے شرم نہیں آتی اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ میری نظرشرمندگی سے نیچی ہو
گی۔ آج وہ اچھے علاقے میں رینٹ اے کار کا دفتر کھولے بیٹھا ہے۔ وہ اپنی
دینی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ساتھ احسان کی رسم
بھی پوری کر رہا ہے۔ آخری بار عمرہ کر کے آیا تو اس کا کہنا تھا "اللہ بندے
کی ہر دعا قبول کرتا ہے" تو مجھے سالوں قبل اس کا گلہ یاد آیا کہ دعا قبول
نہیں ہوتی "بس انسان کو دعا مانگنے کا سلیقہ آنا چاہئے"۔
سلیقہ وژن سے آتا ہے اور وژن علم کے ساتھ ساتھ میل جول، بات چیت، سفر اور
معاملات سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری قسم میں وہ لوگ شامل پوتے ہیں جو نصیحت والی کتابیں پڑہتے ہیں۔ الفاظ
کا من پسند مطلب نکالتے ہیں۔ تقابلی علم کو ناقص گردانتے ہیں۔ یہ اعمال
انھیں کام چور بنا دیتے ہیں۔ اور وہ قسمت، رازق کی تقسیم، نصیب اور اللہ کا
لکھا جیسے مضبوظ قلعوں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔ خالق کائنات کا حکم ہے
"اور اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت کرتا لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے
چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے۔ اور ضرور تم سے تمھارے کام پوچھے جائیں گے
" (النحل:93)۔ سونا، موتی اور ریشم اگر جنت میں نعمت ہیں تو دنیا میں بھی
نعمت ہی کہلائیں گے۔
میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک
آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان
میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔
|