معاشی نظام انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے
جس کے بغیر انسانی زندگی کا پہیہ گھومنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی
ہے ۔
اس معاشی نظام میں بغور مطالعہ کیا جائے تو آج کے دور میں معاشرتی زندگی
میں دو بڑے معاشی نظام نظر آتے ہیں
• بیع کا نظام
• سود کا نظام
ان دونوں معاشی نظاموں کی بات کی جائے تو ایک نظام میں سرمایہ معاشرہ کے
تمام افراد میں گردش کرتا نظر آتا ہے۔
دوسرے نظام کی بات کی جائے تو صرف مخصوص افراد یا چند طبقہ کے افراد تک
سرمایہ گھومتا ہو انظر آئے گا ۔ پہلے نظا م بیع(تجارت) اور دوسرے نظام کو
ربوا(سود) کہتے ہیں ۔
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام نے بیع (تجارت) کو حلال اور
ربوا(سود ) کو حرام کر دیا ہے ۔
رب کائنات نے فرمایا :
احل اللہ البیع و حرم الربوا۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا اور ربوا(سود ) کو حرام فر مایادیا
۔
معاشی نظام کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھنا ہو تو چند بنیادی نکات کا سمجھنا
ضروری ہے۔
آسمانی ہدایت پر ایمان :
سب سے اہم اور اولین عقیدہ ہے جس کے گرد تمام تصورات گھومتے ہیں ۔کہ “پوری
کائنات کا خالق اللہ تعالی ہے ”
تخلیق ِ کائنات کے بعد اس نے انسان کو اپنا جانشین ، خلیفہ اور نائب کے طور
پر دنیا میں مبعوث فرمایا۔
ارشاد باری تعالی ہے :
انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔
ترجمہ: بے شک میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ۔
انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ایک قانون اور ضابطہ اسلام نے عطاء فرمایا ہے
۔ جس میں اتنا اختصار بھی نہیں کہ انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہو۔ اور اس
میں اتنی تفصیل بھی نہیں کہ انسانی سرگرمیوں کو محض انسان کے عقلی فیصلوں
کے رحم و کرم چھوڑ دیا جائے ۔
انسان کو زندگی گزارنے کے لیے اس نے ایسے قوانین عطاء فرمائے ہیں جو کہ
انسانی زندگی کے لئے کافی و شافی ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام اسلامی معیشت:
اسلام منڈیوں کی طلب و رسد کا منکر بھی نہیں حتی کہ ذاتی منافع کی معقول حد
تک قابل ِ قبول ہے۔ اس کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام اور اسلامی نظام میں
واضح فرق نظر آتاہے۔
لادین سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی فیصلے بے لگام طاقت اور لا محدود
اختیارات دے دیے گئے ہیں ۔جو کہ ان کے فیصلہ جات
کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے ، یہاں تک کہ بعض مقامات پر تو ایسا بھی نظر
آنے لگتا ہے کہ فرد واحد کے منافع کی خاطر تمام
جمہوری فوائد نظر انداز کر دیے جاتے ہیں ۔ اسی قانون کی ترویج و اشاعت کی
ایک جھلک امریکی ڈالر پر نظر آتی ہے ۔اور اس پریہ تحریر ہوتا ہے ۔”Trust in
good“ جس بنا پر معاشی نظام ریزہ ریزہ ہو کر بکھرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اور
یوں دولت سمٹ کر چند اشخاص یا ایک طبقہ کی حد تک جمع ہو جاتی ہے اور معاشرہ
میں غر بت اور افلاس ڈیرے جما لیتی ہے ۔اور لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتے
ہیں ۔
اس کے بر عکس اسلام کسی طبقہ یا مخصوص افراد کو بے لگام اور لامحدود فیصلے
کا اختیار نہیں دیتا بلکہ اس کی حدود قیود مقرر کی گئی ہیں ۔ جس بناء پر
معاشی نظام میں معتدل فضاء پیدا ہوتی ہے ۔ اور سرمایہ ہر طبقہ کے افرادتک
گردش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔
سرمایہ اور تنظیم :(Capital and Entrepreneur)
سرمایہ دارانہ نظریہ کے مطابق سرمایہ (Capital) اور آجر(Entrepreneur) دو
الگ الگ پیداواری عوامل ہیں۔
سرمایہ (capital) سود حاصل کرتا ہے ۔ جب آجر(Entrepreneur) نفع حاصل کرتا
ہے ۔ وہ بھی بایں صورت جب زمین کی آمدنی سے اجرت وغیرہ سب کچھ دینے کے بعد
اگر کچھ بچ جائے تو نفع ہوگا وگرنہ نفع بھی نہیں ہوگا ۔
اس کے بر عکس اسلام سرمایہ اور آجر کو دو الگ الگ پیدواری عوامل نہیں تسلیم
کرتا بلکہ اسلام سرمایہ اور آجر کو ایک ہی تصور کرتا ہے ۔ اور مالیاتی
خسارے اور فوائد دونوں میں برابر برابر تقسیم کرتا ہے ۔ تاکہ آجر سود سے
بھی بچ جائے اور نفع بھی حاصل کرے۔
اسلامی تمویلی نظام پر ایک بہت بڑا اعتراض ہے کہ گزشتہ تین عشروں سے جتنے
بھی اسلامی بنک کام کر رہے ہیں ۔ وہ فائنانسنگ کے مدلان مںا کو ئی واضح
تبدییے نہںک لاسکے ۔
ثابت ہوا کہ اسلامی تمویلی نظام کے زیرِ سایہ جو بھی نظام پر وُردہ ہیں ۔
وہ تقسیم دولت میں انصاف فراہم نہیں کر سکا
یہ تنقید حقیقت پر مبنی نہیں ہے ۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں ۔
• اسلامی بنکوں کا روایتی بنکوں سے تناسب دیکھیں تو یہ سمندر سے قطرہ کے
برابر ہیں ۔ جب اسلامی بنک نہ ہونے برابر ہیں تو وہ معاشرہ کو کس طرح تبدیل
کر سکیں گے ۔
• اسلامی بنک ابھی تک بچپن کی عمر میں ہیں ۔ اس میں سے اکثر تو ایسے ہیں جو
اسلامی قوانین کی پاسداری بھی نہیں کر سکتے بلکہ فرضی حد تک ان کواسلامی
بنک تصور کیا جاتا ہے ۔
• اسلامی بنکوں ، مالیاتی اداروں کو متعلقہ حکومتوں سے ٹیکسوں اور قانونی
نظام کو مربوط رکھنے کے لیے حکومتی پالیسیوں سے جڑے رہتے ہیں ۔ایسی صورت
میں حاجت وضرورت کی بنیاد پر ان کو رعایتیں یا منافع (profit) دیے جاتے ہیں
۔ جوکہ شریعت کے اصول اور مثالی قواعد پر مبنی نہیں ہوتے ۔
ضرورت و اہمیت:
معاشرتی نظام کے لئے تجارت ، لین دین بہت ہی اہمیت کے حامل عنصر ہے ۔ جس کے
بغیر معاشرتی زندگی کی بقاء ناگزیر ہے ۔ جب کہ جدید معاشی نظام کا لین دین
بینکاری نظام بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے اپنے کاروبار کی
بقاء یا وسعت کے لیے قرض لیا ہو ا ہے ۔یا ان کا کاروبار بنک سے منسلک ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ذکر کیا جائے تو اسلام
بیع (تجارت) کو جائز ،حلال اور ربوا( سود ) کو حرام قرار دیتا ہے ۔اس لیے
ضروری ہے کہ ہمارے بنکوں کا نظام تمام معاملات میں اسلامی اصولوں کی بنیاد
پر ہونا چاہیے تا کہ ایک اسلامی معاشرہ اسلامی نظام کے ساتھ مربوط ہوسکے ۔
اسلامی نظام مسلم دنیا کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے ۔کہ اللہ تعالی نے سود
خوروں کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے۔ کیونکہ رزق کا رازق حقیقی اللہ تعالی ہے۔
جب اس رازق حقیقی سے اعلان جنگ ہو تو انسان کو رزق کیسے اور کیوں کر ممکن
ہوگا ۔
اسلامی بینک یا اسلامی مالیاتی نظام آج وقت کی عین ضرورت ہے، یہ صحیح ہے کہ
اسلام اور سود یکجا نہیں ہو سکتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے سارے
مسلمان اور خاص کر 57اسلامی ممالک (OIC)بین الاقوامی سعودی بنک نظام سے
مربوط ہیں جس پر یہودیوں کا کنٹرول ہے۔اور یہودی تسلط سے چھٹکارا حاصل کرنے
کے لیے اسلامی بنکاری نظام کا وجود میں آنا نہایت ہی ضروری ہے۔
سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ:
سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ لیا جائے تو اس پر قدرے کافی حد تک کام ہوا ہے ۔
جس میں اکابر علماء ڈاکٹر مفتی تقی عثمانی صاحب اور ڈاکٹر طاہر القادری اور
دیگر علماء کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی علماء نے اس پر کافی حد
تک تحقیق کی ہے ۔
اگر ریسرچ آرٹیکلز کی بات کی جائے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ بنکاری کا
مروجہ نظام کا تنقیدی جائزہ اور اسلامی نظام پر ہونے والے اعتراضات کا
تحقیقی و علمی اور مدلل جواب اور اسلامی نظام کا عملی نمونہ سامنے لایا
جائے تاکہ ہر خاص و عام اس سے مستفیذ ہوسکیں ۔
اہداف تحقیق :
1. کنونشنل بنکاری نظام میں سودی نظام کو واضح کرنا اور ان کا سدِ باب کرتے
ہوئے اسلامی نقطہ نظر سے حل تلاش کرنا ہے۔
2. بنکاری نظام میں تقریباً مضاربت کے اصول کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور
مروجہ معاہدات میں خرابیوں کا ادراک اور ان کا تدارک کرنا ۔
3. بنکاری قرضہ جات جو اس وقت بہت اہم مسئلہ ہے جس میں عام طور سودی نظام
رائج ہو چکا ہے ۔ اس میں بنک کی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ اور اسلام کے
فراہم کردہ اصولوں کی روشنی میں سود سے چھٹکارا نجات حاصل کرنا ہے ۔
فرضیہ تحقیق:
1. نفع، حصص اور کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کا حقیقی تصور۔
2. مضاربت کی تعریف اور مضاربت کے اصول سے ہم اہنگی ۔
3. کثیر المیعا د قرضوں کی ضرورت اور غیر سودی قرضہ کے لیے اصول متعارف
کروانا۔
4. مشرکہ کاروبار میں نفع کی تقسیم اور نقصان کی ذمہ داری کے اصول واضح
کرنا ۔
5. بیع کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرنا ۔
6. اسلامی سرمایہ کاری کے فنڈ کے متعلق شرعی اصول اور شیئرز میں سرمایہ
کاری کے لیے شرائط۔
|