چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
دنیا میں بہت سے رشتے ہیں مگر سب سے انوکھا ، نرالہ اور شفقت بھرا رشتہ ایک
ہی ہے اور وہ ہے ماں کا۔ لفظ’’ ماں‘‘ ایسا ہے جو دونوں ہونٹوں کے ملائے
بغیر ادانہیں ہو سکتا۔ لفظ ماں سنتے ہی دل و دماغ ایسے تروتازہ ہوجاتے ہیں
جیسے بارش بنجر زمین کو اور بہار گلشن کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ماں کے
بغیرگھرہمیشہ ویران نظرآتاہے۔اﷲ تعالیٰ نے جنت کو ٓسمانوں سے اٹھا کر ماں
کے قدموں تلے رکھ دیا۔ ماں اولاد کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں
کا نعم البدل دنیا میں کہیں نہیں۔ ماں کے بغیر گھر سنسان لگتا ہے۔
مائیں کتنی سادہ ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ پرانے زمانے میں زندہ رہتی ہیں۔ ماں
اپنی اولاد کو دنیا کی معصوم ترین مخلوق سمجھتی ہے۔ ان کے نزدیک ان کا 80
سالہ بچہ بھی ہمیشہ بچہ ہی رہتا ہے جو دنیا کی چالاکیوں سے ناواقف ہے ۔ یہ
دنیا کے ہر مسئلے کا حل دعاؤں کو قرار دیتی ہے اور حیرت انگیز طور پراس کی
دعائیں رنگ بھی لے آتی ہیں ۔ سادہ زندگی گذارتی ہے، کسی بھی بات کو سچ سمجھ
لیتی ہے،بڑی جلدی گھبرا جاتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر سہم جاتی ہے، لڑائی
سے گھبراتی ہے۔
یاد کیجئے اپنے بچپن کے وہ دن جب آپ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے تھے اور ماں
ہمیشہ ہانڈی پونچھ پونچھ کر پیٹ بھرتی تھی۔ ہم میں سے کتنے لوگوں کو یادہے
کہ و وہ کیا کھاتی ہے؟اسے جو بھی دے دیا جائے یہ صبر شکر کرکے کھا لیتی
ہے۔یہ سخت بیمار بھی ہو تو اسے بچوں کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اپنی بیماری کی
اتنی فکر ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جائے بغیر خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔
ماں کی سوچ سمندر سے بھی زیادہ گہری ہوتی ہے ۔ماں اپنے جہیز کی چیزیں بھی
یہ سوچ کر رکھ دیتی ہے کہ آنے والے وقت میں اسکی بیٹی کے کام آئیں گی۔اپنے
حصے کی کھانے کی چیز یہ سوچ کر رکھ دیتی ہے کہ جب بچہ روئے گا تو اس کو دے
دوں گی۔ ہمیں ایسا ہی لگتاہے جیسے ہماری ماں بس شروع سے ہی ایسی تھی۔ نہیں
بالکل ایسا نہیں، یہ ماں بھی کبھی جوان تھی، اس کی بھی کچھ خواہشیں اور
امنگیں تھیں لیکن ماں بنتے ہی اس نے اپنے سارے جذبے، سارے شوق دفن کرڈالے
اوروہ صرف اولاد کی ہی ہوکر رہ گئی۔
ماں کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ماں کا سایہ سر سے اٹھا لیا جاتا ہے۔آج سے
کچھ دن پہلے میر ی جنت (ماں)بھی اجڑ گئی۔ میری جنت اپنے اصلی مقام پر پہنچ
گئی۔ وہ جنت جس کو پانے کے لیے ہم دنیا لائے گئے ۔ اس جنت کو حاصل کرنے کے
لیے اﷲ نے دنیا میں ماں کی صورت میں جنت بھیجی۔خوش نصیب میں وہ لوگ جس نے
اپنی جنت کی دل بھر کر خدمت کی اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس جنت کے پاس
ہوتے ہوئے بھی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ کل تک میں نہ صرف خوش نصیب تھا بلکہ قدم
قدم پر میرے ساتھ میری ماں کی دعائیں تھیں کیونکہ میری ماں میری جنت میرے
پاس تھی اور میری کوشش رہی تھی کہ میں اپنے جنت کو ناراض نہ کرسکوں مگر
دنیا میں احساس اس کو ہی ہوتا ہے جس کے پاس وہ چیز نہ ہو۔ اب رہ رہ کرخیال
آتا ہے کہ میر ی ماں نے جس چیز سے منع کیا اور میں باز کیوں نہ آیا۔ میں نے
اپنی ماں سے اس لہجے میں کیوں بات کی؟ میں ماں کی خدمت اس طرح کیوں نہ
کرسکاجس طرح میرے اﷲ نے حکم دیا مگر دل میں بار بار اب یہ خیال آتا ہے جب
میرا سب کچھ اجڑ گیا۔ ماں کا سایہ وہ سایہ ہوتا ہے جو بارش، دھوپ، طوفان
سمیت دنیا کی ہر تکلیف دہ چیز سے بچا سکتی ہے۔ اگر میرا بس چلے تو ماں کے
لیے ہر چیز قربان کرسکتا ہوں مگر یہ خیال بھی اس کے جانے کے بعد آتا ہے۔
آج کل کے دور میں اولاد اتنی مصروف ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں۔ اگر ماں
بیمار ہو جائے یا ماں کو ایک مستقل تیماردار کی ضرورت ہو یا وہ ہسپتال میں
داخل ہو جائے تو ہم سارے بہن بھائی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔آپس میں بحث کی
جاتی ہے کہ’ ’یہ بھائی کا فرض ہے‘‘ ،نہیں ’’بیٹیوں کو ماں کا خیال رکھنا
چاہیے۔‘‘ غریب لوگ تو اس بحث و تکرار میں دن پورے کردیتے ہیں مگر اشرافیہ
کا ایک نرس پر سب کا اتفاق ہو جاتا ہے اور جو خرچہ آئے گا وہ سب مل کر بانٹ
لیں گے مگر اپنی ماں کے لیے وقت نہیں ۔ جس ماں نے وقت کا ایک ایک لمحہ
اولاد پر خرچ کیا ہوتا ہے اس کی اولاد کتنی لاچار بلکہ خود غرض ہو جاتی ہے
کہ اس کے پاس اپنی جنت کے لیے وقت کی کمی ہے۔
میری ماں تو اپنی جنت کے لیے سدھار گئی مگر میری جنت کی تلاش بڑھ گئی ،مجھے
اب جنت کے حصول کے لیے بہت زیادہ محنت اور مشقت کرنا ہوگی۔ جن کی زیارت سے
حج مبرور کا ثواب ملے اس عظیم نعمت اور سعادت سے محرومی مقدر ہو گئی۔ مصروف
دور کے مصروف لوگوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ کہ جن کی مائیں نہیں ہیں وہ تو
اپنی ماؤں کے لیے دعاؤں کے نذرانے بھیج سکتے ہیں اور جن کے پاس یہ نعمت
موجود ہے ان کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ اپنی ماں کی قدر کریں۔ اگر اب تک
کوئی غفلت ہو چکی ہے تو اس سے معافی مانگ لیں اور ازالہ کر لیں حالانکہ اس
کوتاہی کا کوئی ازالہ نہیں۔ ماں کا ظرف اور اس کا دامن بہت وسیع ہوتا ہے،
اس کے آنچل میں محبت کی گرمی اور خوشبو کا امتزاج ہے۔ آج آپ اسے محبت دیں
کل یہی محبت پلٹ کر آپ کی اولاد کی طرف سے آپ کو ملے گی۔
بیشک ماں باپ کا وجود اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔اﷲ ہمیں اپنے ماں باپ
کی قدر و منزلت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے-آمین
شام ڈھلے اک ویرانی سی ساتھ مرے گھر جاتی ہے
مجھ سے پوچھو اس کی حالت جس کی ماں مر جاتی ہے
|