ہم کرپٹ نہیں ہیں

مہذب قومیں اور مہذب معاشرے ہمیشہ اچھے اور باشعور لوگوں سے بنتے ہیں کسی معاشرہ میں تبدیلی تب آتی ہے جب اس معاشرے کے فرد اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ہر طرح کی کرپشن سے باز رہیں اور معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کیلئے کسی بھی طرح کی کرپشن نہ خود کریں نہ کسی ایسے فرد کا ساتھ نہ دیں جو کرپٹ ہو۔اچھے برے لوگ ہر جگہ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں اسی طرح پاکستان جو کہ ایک اسلامی ریاست ہے اس کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے اس میں رہنے والا ہر دوسرا بندہ نیک اور پارسا ہونے کا لیبل لگائے پھرتا ہے جبکہ جب اس ملک میں رہنے والے باشندوں کا جائزہ لیا جائے تو ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی کرپشن میں ملوث نظر آتا ہے اس کے باوجود اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ میں کرپٹ نہیں ہوں آج روزمرہ کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو جو اس معاشرے میں ہورہا ہے اس کی جھلک واضح نظر آتی ہے کسی بھی شعبہ میں دیکھیں تو کہیں نہ کہیں کرپشن ضرور نظر آ تی ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم کرپٹ نہیں آج ایک پھل فروش سے لیکر اونچے لیول تک ہر بندہ کرپشن کی لپیٹ میں ہیں یہاں تک کہ لوگ مسجد کے نام پر اسلام کے نام پر کرپشن کر کے کہتے ہیں کہ میں کرپٹ نہیں دور حاضر میں جھوٹ بے ایمانی دھوکہ بازی فراڈ ملاوٹ رشوت عام سی باتیں ہیں اس کے باوجود حیرت اس وقت ہوتی ہے جب لوگ کہتے ہیں میں کرپٹ نہیں ایک دوکاندار سامان مہنگا بیچتا ہے یا چیز کی کوالٹی گرا دیتا ہے لیکن جب وہ اپنا سامان سیل کرتا ہے تو وہ کوالٹی بتاتا ہے جو اس میں نہیں اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم ایک نمبر چیز بیچتے ہیں میں کرپٹ نہیں۔اسی طرح سرکاری اداروں میں رشوت عام ہیں کوئی بھی کام رشوت کے بغیر ناممکن تو نہیں لیکن مشکل سے ہوتا ہے سرعام کرپشن کر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم کرپٹ نہیں۔اسی طرح ایک فروٹ والا سامنے اچھا پھل لگا کر گاہک کو معیاری پھل نہیں دیتا جو دکھا رہا ہے وہ بیچ نہیں رہا لیکن جب کوئی بات ہو تو کہتا ہے کہ میں کرپٹ نہیں۔دودھ والا خالص دودھ کے پیسے لے کر پانی اور پاؤڈر والا دودھ دیتا ہے لیکن کہتا یہی ہے میں کرپٹ نہیں۔ایک ڈآکٹر بھاری فیس کے علاؤہ مہنگی دوائیاں لکھ دیتا ہے جس سے میڈیسن کمپنی والے اسے کمیشن دیتے ہیں سستی دوائی بھی کام وہی کرتی ہے لیکن کہتے ہیں کہ میں کرپٹ نہیں ہسپتالوں میں سرعام بخشش کے نام پر پیسے لیئے جاتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں کتابیں مہنگی سیل کر کے اور ڈونیشن کے نام پر رشوت لیکر داخلہ دیا جاتا ہے۔دکاندار سودا سلف لینے پر چھٹہ نہ ہونے کا بہانہ کر کے دو سے پانچ روپے تک واپس نہیں کرتے۔پیڑول پمپس پر پیٹرول کم بھر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کرپٹ نہیں اقتدار میں ملک کو لوٹ کھانے کے بعد سیاستدان کہتا ہے کہ میں کرپٹ نہیں۔ ہر دوسرا بندہ جب کہتا ہے کہ میں کرپٹ نہیں تو کون کر رہا ہے ساری کرپشن اس ملک کا جو حال ہے جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے اپنے اردگرد ہونے والے چھوٹے چھوٹے جرائم جو کہ ہمیں دکھائی دیتے ہیں لیکن ہم ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں ہماری نظر میں وہ کرپشن ہی نہیں ہوتی لیکن جب کہیں بات ہو تو سب سے پارسا وہی لوگ ہوتے ہیں جو کہ اس طرح کی کرپشن میں ملوث ہوتے آج ہر بندہ دوسرے سے توقع کرتا ہے کہ اس کے ساتھ دوسرا جھوٹ نہ بولے اس سے فراڈ نہ کرے لیکن جس کی یہ سوچ ہے کہ اس کے ساتھ کچھ ایسا نہ ہو تو خود کوبھی ایسی بیماریوں سے بچا کر رکھنا چاہئیے۔ آج لوگ سرعام چوری کرنے والے پر تو لعن طعن کرتے ہیں لیکن اس طرح کے لوگ جو کرپشن کرتے ہیں جن کی کرپشن نظر بھی آتی ہے اس کے باوجود اگر یہ کہا جائے میں کرپٹ نہیں ہوں تو بہت ہی حیران کن بات ہوگی اس ملک میں کیا نہیں ہورہا ہروہ کام کیا جارہا ہے۔ جس کے کرنے پر پوری پوری قومیں تباہی ہوگئی لیکن آج ہروہ کام ہورہا ہے اسلام جس سے سختی سے منع کرتا ہے لیکن سب کر کے بھی بنی آدم کہتا ہے میں کرپٹ نہیں تو کون ہے کرپٹ کون کرتا ہے سب ہیرا پھیری جب کہ ہر کوئی خود کو پارسا کا لیبل لگانے کے چکروں میں سرگرم نظر آتا ہے لیکن ابن آدم اس کرپشن کی دلدل سے باہر آنے کو تیار دکھائی نہیں دیتا آج اگر کرپٹ حکمران مسلط کر دئیے گئے پاکستان پر تو اس کی وجہ۔ ہی یہ ہے کہ دین سے دوری جب دین سے دوری ہو گی تو ہدایت چھین جائے گی۔ آج دیکھیں تو معاشرے میں ایک بگاڑ جو کہ بڑھتا جا رہا ہے اولادیں ماں باپ کی عزت نہیں کرتی بچے بڑوں سے متنفر ہیں بڑوں کو بچوں سے شکوہ ہے ہر انسان دوسروں پر تو دل کھول کر تنقید کرتا ہے لیکن خود کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرتا ایک ایماندار بندے سے پوچھا کیا نماز کیوں نہیں پڑھتے تو اس نے بہت معصومیت سے جواب دیا کہ جو میرا کام ہے اس میں جھوٹ ہی چلتا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا میں نماز بھی پڑھوں اور جھوٹ بے ایمانی بھی کروں اس نے یہ نہیں کہا میں خود کو سدھارنے کی کوشش کرونگا یہاں یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان جانتا ہے کہ اچھا کیا ہے برا کیا ہے حلال کیا ہے حرام کیا ہے لیکن کوئی نہیں چاہتا کہ وہ اچھا کرے کیونکہ یہ ایک لوگوں کی رائے بن چکی ہے کہ اگر اچھائی کے راستے پر چلیں گے تو زندگی گزارنا مشکل ہوگیا اس لئیے کو سدھرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں خود کو کہ ابھی ٹائم ہے توبہ کر لیں گے یہ نہیں جانتے کہ کل آنی بھی ہے یا نہیں زندگی کی کسی شعبہ کو بھی لے لیں ان کے نیگٹو پوائنٹ دیکھیں تو بہت سارے ایسے کام جو کہ غلط ہونے کے باوجود کوئی غلط نہیں کہتا اگر ہم لوگ سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کر کے سوئیں کہ ہم نے سارا دن کیا غلط کیا تو شائد یہ معاشرہ بگاڑ سے بچ سکے کرپشن سے بچ سکے لیکن یہ مشکل کام ہے اس لئیے کہ ہر دوسرا انسان کرپشن کر کے کہتا ہے کہ میں کرپٹ نہیں ہوں
 

azhar i iqbal
About the Author: azhar i iqbal Read More Articles by azhar i iqbal: 41 Articles with 38604 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.