روایتی غفلت و لاپرواہی نے ہمارے سرکاری اداروں کو
بلکل برباد کر کے رکھ دیا ہے کوئی بھی سرکاری ادارہ اپنی مکمل زمہ داریاں
نبھانے میں قاصر ہے قانون کی حکمرانی دن بدن کمزور ہوتی جا ہی ہے قانون صرف
عام اور غریبوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے مہنگائی نے غریبوں کا بھرکس
نکال کے رکھ دیا ہے حکومت بھی خاموش متعلقہ سرکاری ادارے بھی خاموش تماشائی
بنے ہوئے ہیں پبلک ٹرانسپورٹرز نے کرائے اتنے زیادہ بڑھا دیئے ہیں کہ ان
میں کمی کرنا متعلقہ اداروں کے بس کی ہی بات نہیں رہی ہے سیکریٹری راولپنڈی
ٹرانسپورٹ اتھارٹی اس طرح غائب ہو گے ہیں جیسے یہ ادارہ موجود ہی نہیں ہے
نہ ہی ضلعی انتطامیہ چپ کا روزہ توڑ رہی ہے جب ڈیزل پیٹرول کی قیمتیں کم ہو
جائیں تو فوری طور پر کرائے بھی کم ہونے ضروری ہیں ڈیزل پٹرول کی قیمتوں
میں تھوڑی کمی ہونے کے باوجود عام عوام کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے
پبلک ٹرانسپورٹ کے کے کرائے جو پہلے ہی کئی گنا زیادہ بڑھائے جا چکے ہیں ان
میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی ہے کلرسیداں سے راولپنڈی پیر ودھائی تک کا
کرایہ تقریبا اڑھائی سو روپے لیا جا رہا ہے روات سے کلرسیداں کا کرایہ 80
روپے لیا جا رہا ہے خاص طور پر کلرسیدان کے دیہات کے عوام کو تو دونوں
ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے کوئی مسافر اگر روات سے گاڑی میں سوار ہو کر
ڈٖھوک میجر اتر جائے تو کرایہ 30 روپے ادا کرنا پڑتا ہے کلرسیداں سے
راولپنڈی چوکپندوڑی،شاہ باغ ،مانکیالہ اور دیگر شہروں کیلیئے کوئی کرایہ
نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے اور کبھی غلطی سے جاری کر بھی دیا جائے تو اس پر
عملدرآمد کروانے والا کوئی نہیں ہوتا ہے ٹریفک وارڈن پولیس بھی اس حوالے سے
کوئی کردار ادا کرتی نہیں دکھائی دے رہی ہے ایک کلو میٹر تک کے سفر کیلیئے
50روپے بھی وصول کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے کلرسیداں کے گرد و نواح کے
تما روٹس کا یہی حال ہے جن کا آج تک کوئی کرایہ نامہ جاری ہوا نہ کوئی
ایکشن لیا گیا ہے ضلعی ، تحصیل انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کو کھل کر ایسے
عناصر کے خلاف کاروائی کرنی چاہیئے جو کرائے کی مد میں غریب عوام کے ساتھ
برا برتاؤ کر رہے ہیں انتظامیہ کو ٹرانسپورٹرز کے ساتھ مشاورت سے ایسے
مناسب کرائے نامے جاری کرنا چاہئیں جن سے ٹرانسپورٹرز بھی اپنا با عزت
روزگار کما سکیں اور غریب عوام کو بھی تھوڑا بہت ریلیف مل جائے یہ کیسا خود
ساختہ قانون ہے کہ کلرسیداں سے چوکپندوڑی کا کریایہ 40 روپے اور مہیرہ
سنگال کا کرایہ بھی 40 روپے ہو یہ سرا سر نا انصافی ہے سب سے زیادہ کرایہ
دیہاتی روٹس پر لیا جا رہا ہے ایک تو کرایہ زائد لیا جا رہا ہے دوسرا اوپر
سے عوام کے ساتھ ایک اور ستم ظریفی پبلک ٹرانسپورٹ کے نہ تو فٹنس
سرٹیفیکیٹس ہیں اور نہ ہی ان کیلیئے سواروں کے بیٹھنے کی کوئی گنجائش مقرر
کی گئی ہے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں لوڈ کیا جاتا ہے خاص طور
پر سکول وین کی حالت تو قابل رحم ہوتی ہے جب سکولوں سے چھٹی ہوتی ہے تو
گاڑیوں کے اوپر نیچے اتنے زیادہ بچے بٹھائے جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا
ہے کہ یہ گاڑی سوزوکی، کیری یا کوئی کوسٹر ہے اﷲ نہ کرے اگر کوئی حادثہ
رونما ہو جاتا ہے تو اس کا زمہ دار کون ہو گا ہے ڈی سی سیکریٹری ٹرانسپورٹ
اتھارٹی کو اس حوالے سے بھی کوئی پالیسی جاری کرنی چاہیئے اور نئے کرائے
نامے بھی جاری کریں تا کہ غریب عوام مزید لٹنے سے بچ سکیں اس کے ساتھ ساتھ
ٹریفک وارڈنز کو بھی ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ بھی اس ھوالے سے اپنے
فرائض ادا کریں گاڑیوں کو چیک کریں اب پیٹرول 10روپے ستا بھی ہو چکا ہے
لیکن ایسی کوئی امید اب بھی نظر نہیں آ رہی ہے کہ کرائے کم ہو سکیں
انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ کلو میٹرز کے حساب سے کرائے نامے جاری کرے اور ان
پر عملدرآمد کروانے کیلیئے بھی اپنا کردار ادا کرے عوام کو ریلیف کون
دلوائے گا ہر طرف اپنی من مرضی جاری ہے نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی
بولنے والا ہے نہ کوئی کنٹرول کرنے والا ہے ہمارے عوام بھی اب بہت عادی ہو
چکے ہیں ان میں تمام قسم کی تکالیف سہنے کی ہمت پیدا ہو چکی ہے وہ بھی اپنے
حقوق پہچاننے سے بلکل عاری ہو چکے ہیں وہ ایک کے بعد دوسری زیادتی کے
منتظررہتے ہیں حالات ایسے بن چکے ہیں کہ بہتری کی کوئی بھی امید نظر نہیں آ
رہی ہے
|