وقت کی قدر کیسے ممکن ہے ؟


اہل قلم قوم کا سرمایہ ہیں ،اہل علم و قلم اپنے طور پر ایک الگ پہچان اور اہمیت رکھتے ہیں ،مجھ جیسے کو اختیار نہیں کہ وہ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں یا بات کریں کیونکہ میں خود طالب علم ہوں ،لیکن پھر بھی آج میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں کہ لکھاری قبیلے کو وقت کی قدر کا احساس ہو اور وہ وقت کی رفتار کے ساتھ بے شک نہ چلیں مگر وقت مقررہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے لکھتے رہنے کا سفر کریں ،
دنیا کی زندگی ،اس کا مال و اسباب عارضی ؤ فانی ہے۔ ہر نفس نے اپنی مقررہ مدت گزارنے کے بعد دارہ آخرت کو کوچ کرنا ہے جو ابدی ٹھکانہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اس دنیا میں غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے،
وقت کی قدردانی ضروری ہے،صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں ۔جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کا کام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
نے صحیح کہا ہے۔
”اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الذَّہَبِ“
وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔
ایک عربی شاعر کہتا ہے:

حَیَاتُکَ اَنْفَاسٌ تُعَدُّ فَکُلَّمَا
مَضٰی نَفَسٌ مِنْہَا اِنْقَضَتْ بِہ جُزْء

تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے۔

لہٰذا وقت کی پوری نگہداشت کرنا چاہئے، کھیل کود میں خرافات میں، ادھر ادھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“
آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔

**لکھنے کا اگر فن آتا ہے تو اللّٰہ کی عطاء سمجھیں اور شکر کیا کریں کہ آپ اپنے اردگرد اور معاشرتی رویوں کو لفظوں میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں ،
**آپ کے لکھے کو اگر کوئی کاپی کرتا ہے ،یا پھر اس میں سے کچھ الفاظ لیتا ہے تو اس کا پرچار نہ کریں بلکہ شکر کریں رب کا کہ اس نے آپ کے الفاظ کو اس قابل سمجھا ،
**ادب کے تمام فورم اور گروپ اہمیت کے حامل ہیں لیکن بہترین کارکردگی کے لیے کسی ایک مقام پر رہنا زیادہ بہتر ہے ،
**ہر دروازے پر دستک دینے سے بہتر ہے کہ آپ کسی ایک اخبار ، رسالہ ، ڈائجسٹ کے لیے ریگولر لکھیں ،
**ہر فورم کے مقابلے میں شرکت کرنے سے بہتر ہے چادر دیکھیں کہ کیا آپ ہر مقابلے میں لکھ سکتے ہیں ،کیا اتنا وقت ہے کہ روزانہ کی زندگی متاثر نہ ہو ،اور وقت کی بے قدری کا تمغہ آپ کے ماتھے کا جھومر تو نہیں بن رہا ،اگر ایسا ہو تو ہر جگہ پر حامی نہ بھریں ،بلکہ جتنا وقت میسر ہے اسی میں رہتے ہوئے شرکت کریں ،
**اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر نہ لکھیں بلکہ اس میں بہتری کی گنجائش رکھیں ،
**اس موضوع پر نہ لکھیں جو آپ خود پسند نہیں کرتے یا آپ کے پاس مکمل علم و معلومات نہیں ،
**ہر صنف میں قسمت آزمائی کی کوشش بھی وقت کی بے قدری ہی ہے لہذا کسی ایک صنف میں لکھتے رہنے اپنا مقام بنائیں ،
**ہر فورم کا لیڈر بننے کی بجائے وہاں سے سیکھنے کی کوشش کریں ،
**اپنے گھر ،کاروبار،بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ لکھنے کا وقت بھی مقرر کریں ،
**میاں بیوی دونوں لکھاری ہیں تو ایک دوسرے کے لیے وقت اور ماحول پیدا کریں،
**اگر بیوی لکھتی ہے اور شوہر اس فن سے محروم ہے تو پہلے شوہر کو لکھنے کی اہمیت سے واقفیت کریں تاکہ گھر کا ماحول بھی خراب نہ ہو اور آپ کا شمار لکھنے والوں میں بھی ریگولر ہوتا رہے ،
**اگر شوہر لکھتا ہے تو بے شک بیوی کو لکھنے کی اہمیت سے واقفیت نہ کروائیں لیکن گھر میں اس کے حصے کا وقت اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے درکار وقت ان کو دینے کے بعد اپنے لکھنے کا وقت مقرر کریں ،
**لکھاری کے لفظوں سے لکھاری کا عمل بولتا ہے لہذا اپنے لکھے پر عمل کریں ،
**اپنے نام کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لیے لکھیں ان شاءاللہ نام خود ہی بن جائے گا ۔
نوٹ!
آپ کا میرے لفظوں سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔اختلاف آپ کا حق ہے لیکن مجھے گزشتہ تین سال سے لکھنے والوں کو وقت کی بے قدری کرتے دیکھا تو مجھے کوئی وجہ محسوس ہوئی وہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے ،امید ہے کہ آپ غیر متفق ہونے کی صورت میں تنقید برائے تعمیر کریں گئے ،
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559049 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More