کان کن کے حقوق و قوانین

دنیا بھر میں رہنے والےلوگ اپنی روزی روٹی کے لیے محنت مشقت کرتے ہیں۔فرق صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ کوئ کم محنت کرتا ہے اور کوئ زیادہ۔کسی کو اس کی محنت کا پھل جلدی اور اچھا مل جاتا ہے اور کچھ کو ہیرا پانے کے لیے پھتر کو مزید تراشنہ پڑتا ہے۔

ہر شعبہ بلکہ یوں کہا جاۓ کہ ایک ایک نوالہ محنت طلب ہوتا ہے۔دنیا بھر میں ان شعبوں اور ان میں کام کرنے والے لوگوں کے لیے کچھ قوانین ہوتے ہیں، ان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو نبھانا حکومت اور اس ملازم کا برابر کا حق ہوتا ہے۔جب ریاست اپنے بناۓ قوانین کے مطابق سلوک کرے گی تو یقینا اس کا جواب بھی مثبت ہوگا تو یہ سب کسی ایک فرد ایک خاندان کے یا صرف اس شعبہ کے لیے نہیں فائدہ مند ہوتا بلکہ پورے ملک کے لیے وہ ایک مثبت بات کارآمد ثابت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر،انجینيئر،صحافی،وکیل اور اس طرح کے بےشمار ایسے پیشہ ہیں جن کے لیے وفاقی سطح پر باقاعدہ وزارتیں ہیں جو ان کے حقوق کا خیال رکھتے اور انکو قانون کے دائرہ کا پابند بناتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح پاکستان میں ایک ایسا شعبہ ہے جو ہر پیشہ سے بڑھ کر محنت بھی کرتے ہیں اور ایک ایک نوالہ کے لیے جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں، وہ محنت کرنے والے ہمارے بھائ کان کن ہوتے ہیں جو اپن ذات کی پرواہ کیے بغیر فقط ایک وقت کے حلا ل نوالے کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر دن بھر محنت مشقت کرتے ہیں اس شعبہ کے لیے بھی باقاعدہ ایک وزارت ہے۔جو وزارت معدنیات کے نام سے جانی جاتی ہے۔اس وزارت کے نیچے مختلف قسم کے لوگ مختلف شعبوں سے منسلک ہوتے ہیں،ہر ایک کا کام بھی مختلف ہے اور حقوق و قوانین بھی۔ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی ضروریات کو پورا کریں۔انکے مسائل اور مشکلات میں انکی ممدد کریں۔

ذکر کیا گیا کان کن بھائیوں کا جو دن دیکھتے ہیں نا موسم کی سختیاں بس اپنے کام میں ایسا جتھ جاتے ہیں کہ انھیں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں رہتی ۔انکی اتنی محنت کے باوجود بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ ریاسست انکے حقوق تو دور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی جسارت نہیں کرتی۔یہ کان کن اپنی ذمہ داریاں نبھاتے کبھی پہاڑ کے اند کھودی کان میں جاتے ہیں کبھی زمین کی تہہ میں جاکر اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں بنیادی چیزوں کی فراہمی بھی ریاست ممکن نہیں بناسکتی اور تو اور ان لوگوں سے جتنا کام لیا جاتا ہے اتنا معاوضہ تک ادا نہیں کیا جاتا۔سارا دن کان کے اندر بغیر آکسیجن کے رہنا اور اسکا معاوضہ محض 500،700 ملنا انتہائ افسوسناک اور شرم کا مقام ہے۔آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے،کان دبنے کی وجہ،بارودی دھماکوں کی وجہ سے ناجانے کتنی جانوں کے چراغ گل ہوجاتے ہیں۔کوئلے کی اندھی کانوں مں ہلاکتوں جیسے سنجیدہ اور دیرینہ مسئال پر اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں ک نہیں رینگتی۔متعلقہ اداروں کی غفلت اور مالکان کی بےحسی کے باعث پاکستان میں کوئلے کی کانیں موت کی وادیاں بن چکی ہیں۔خیبرپختونخواہ میں شانگلہ کے مقام پر رہنے والے 7لاکھ کی آبادی میں سے35ہزار سے زائد لوگ کان کن ہیں۔اسی وجہ سے زیادہ نقصان بھی انھیں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اور کچھ ایسی ہی داستان باقی کانوں میں کام کرنے والےمزدوروں کی ہیں۔ریاست کے قوانین چیخ چیخ کر ایک کان کن کے حقوق کو بتلاتے ہیں مگر حکومتِ وقت ذرہ برابر بھی ان موت کی وادیوں میں جاتے لوگوں کی جانب نظرِ کرم نہیں کرتی۔

ایک ادارہ ALM یعنی وہ ادارہ جو نت نئ جدید طرز کی مشینیری متعارف کرواتا ہے تاکہ کان کن نئ سےنئ دریافت کرکے ملکی ترقی میں حصہ ڈال سکیں لیکن جناب ہمارے ہاں نظام ہی کچھ اور ہے کرسیوں پر اقتدار کے نشے میں دھت حکمرانوں کو اپنی دولت اور آسائش کی پڑی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ انکی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ ہوتا تو کچھ یوں ہے کے یہ لوگ کانوں میں کام کرنے والےمحنتی مزدوروں تک کو نہیں بخشتے انکے حق پر اپناحق سمجھ کر اس کو اپنی جیب کی زینت بنا لیتے ہیں ور وہ بیچارے کان کن انکی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ALM ان کان کنوں کے حقوق کے لیے بھی کام کرتا ہے مگر افسوس کے اس کا بھی ان نشستوں پر براجمان اندھے گونگے حکمرانوں پر کوئ اثر مرتب نہیں ہوتا۔انکے خوابِ غفلت میں ہونے کی وجہ سے ہی اب تک ہزاروں مزدور کرب سے اپنی جانیں جانِ آفریں کے سپرد کرچک ہیں

ارباب اختیار کو چاہیۓ کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھائیں اور جس طرح،جس حد تک قانون ایک کان کن کو تحفظ اور اسکے حقوق فراہم کرتا ہے اسکو عملا یقینی بنائیں تاکہ ملک میں نئ سے نئ دریافت سے ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔اگر ایسا نہ ہوا تو یونہی جانیں جاتی رہیں گی اور نقصان در نقصان ناقبلِ برداشت ہوجاۓ گا۔

 

Momina Tariq
About the Author: Momina Tariq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.