دنیا کے سب سے بڑے تجارتی اتحاد کے ثمرات

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ (آر سی ای پی) کو اپنے اقتصادی حجم اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ کہا جاتا ہے۔گزشتہ سال یکم جنوری 2022 سے نافذ العمل ہونے والے اس معاہدے کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران،اس معاہدے نے تجارت کی لاگت کو کم کیا ہے، صنعتی چینز کے انضمام میں سہولت فراہم کی ہے، اور خطے میں صارفین کو فائدہ پہنچایا ہے. اس کے نفاذ سے ایشیا بحرالکاہل کی معاشی بحالی میں مدد ملی ہے ، جس نے سست روی کی شکار عالمی طلب ،وبائی صورتحال کے سنگین چیلنج ، روس ۔ یوکرین تنازع اور دیگر عالمی و علاقائی مسائل کے تناظر میں عمدہ پیش رفت دکھائی ہے۔

اس معاہدے میں ایشیا بحرالکاہل کی 15 معیشتیں شامل ہیں جن میں دنیا کی چند بڑی معیشتیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ بھی آتے ہیں۔اسی طرح آبادی کے اعتبار سے بھی چین کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا جیسے بڑے آبادی کے حامل ممالک اس کا حصہ ہیں۔آر سی ای پی اپنی نوعیت اور دیگر امور کے حوالے سے موجودہ کئی آزاد تجارتی معاہدوں سے بالکل الگ ہے۔ اسے ایک جامع آزاد تجارتی معاہدے کی عمدہ مثال قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔اس میں اعلیٰ آمدنی والے ممالک جیسے جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سنگاپور کے ساتھ ساتھ چین، انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن جیسی بڑی ابھرتی ہوئی معیشتیں اور کم آمدنی والی معیشتیں جیسے میانمار، لاؤس اور کمبوڈیا بھی شامل ہیں . یوں جنوب مشرقی ایشیا، شمال مشرقی ایشیا اور ایشیا پیسفک کا احاطہ کرنے والا ایک ممتاز آزاد تجارتی بلاک وجود میں آ چکا ہے۔ آر سی ای پی کے تحت سروس ٹریڈ، سرمایہ کاری، دانشورانہ املاک کے حقوق، ای کامرس وغیرہ کے حوالے سے متعلقہ ضابطے بنائے گئے ہیں، جو دنیا میں موجود اعلیٰ ترین معیارات کے عین مطابق ہیں۔
اس معاہدے کو آگے بڑھانے میں چین کا کردار انتہائی نمایاں ہے جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ آر سی ای پی شراکت داروں کے ساتھ چین کی تجارت 2022 کے پہلے 11 مہینوں میں سال بہ سال 7.9 فیصد اضافے سے 11.8 ٹریلین یوآن (تقریباً 1.69 ٹریلین امریکی ڈالر) ہو چکی ہے ، جو چین کی مجموعی غیر ملکی تجارتی قدر کا 30.7 فیصد ہے۔چین کی یہ خوبی بھی اُسے دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ کبھی بھی ترقی کو صرف چینی عوام تک محدود کرنے کا خواہاں نہیں رہا ہے بلکہ اپنے کھلے پن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ممالک کی ترقی کے سفر میں ان کا شراکت دار رہا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ اپنی انتہائی وسیع مارکیٹ کی بنیاد پر آر سی ای پی کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر علاقائی اقتصادی اور تجارتی ثمرات کو وسعت دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ بیرونی کمپنیاں چینی مارکیٹ کی ترقی سے ثمرات حاصل کر پائیں۔

یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ ماسوائے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے دنیا میں شاید ہی کوئی اور قواعد پر مبنی تجارتی فریم ورک ہو ، جس میں کم آمدنی والی معیشتیں خود سے ترقی یافتہ شراکت داروں کے ساتھ سامان اور خدمات کی تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے یکساں اصولوں کے تحت موجود ہوں ، لیکن آر سی ای پی کے تحت یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک کی مانند یکساں بنیادوں پر مارکیٹ رسائی کے فریم ورک کا حصہ بنیں اور آزادانہ تجارتی قوانین سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین پُرامید ہیں کہ آر سی ای پی معاہدہ کم ٹیرف، مضبوط سپلائی چین اور پیداواری نیٹ ورکس کے ذریعے علاقائی اقتصادی انضمام کو تیز کرے گا اور خطے میں مزید مضبوط تجارتی ماحولیاتی نظام تشکیل دے گا۔آر سی ای پی کے بنیادی اصول یہ طے کرتے ہیں کہ کسی بھی رکن ملک کے "پروڈکٹ اجزاء" کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا، خطے کے اندر "سورسنگ آپشنز" میں اضافہ کیا جائے گا، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لئے علاقائی سپلائی چین میں ضم ہونے اور کاروباری اداروں کے لئے تجارتی اخراجات کو کم کرنے کے لئے مزید مواقع پیدا کیے جائیں گے۔یوں 15 رکن ممالک میں سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لئے ، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد میں بھی اضافے کی توقع ہے کیونکہ خطے میں بڑے سرمایہ کار موئثر سپلائی چین تشکیل دینے کے لئے مہارت کو بڑھا رہے ہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ یہ معاہدہ ترقی کے فرق کو کم کرنے اور خوشحالی کے جامع اور متوازن اشتراک میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، کم متوسط آمدنی والے ممالک میں آر سی ای پی شراکت داری کے تحت اجرت میں نمایاں ہو گا ،ویتنام اور ملائیشیا میں حقیقی آمدنی میں 5 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے ، اور اس کی بدولت 2035 تک 27 ملین مزید افراد متوسط طبقے میں داخل ہوجائیں گے۔

آر سی ای پی جہاں علاقائی اقتصادی بحالی کو فروغ دینے کا ایک انجن ہے ، وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین اپنی مضبوط کھپت کی صلاحیت اور طاقتور پیداوار اور جدت طرازی کی صلاحیت کے ساتھ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر ، آر سی ای پی کو مزید آگے بڑھانے میں ایک قوت محرکہ فراہم کر رہا ہے۔آر سی ای پی میں ترقیاتی مراحل کے اعتبار سے معیشتوں میں ایک تنوع پایا جاتا ہے ، لہذا چین اپنی لچکدار اور مضبوط معیشت کی بدولت دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کی مدد کرسکتا ہے جبکہ معاہدے میں شامل ترقی یافتہ معیشتیں بھی اس عمل سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔چین مختلف تجارتی امور کو حل کرنے کے لیے ممبران کے درمیان تعمیری مشاورت کی بھی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔یہ امید ظاہر کی جا سکتی ہے کہ اس معاہدے کی بدولت ایشیابحرالکاہل خطے میں مصنوعات کی تجارت کو بڑھانے اور علاقائی سپلائی چین کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی ، ممبران کو ایک دوسرے کی منڈیوں تک ترجیحی رسائی میسر آئے گی جس سے انہیں سرمایہ کاری کو بڑھانے، ٹیکنالوجیز کا اشتراک کرنے اور نئی نسل کی صنعتی سپلائی چین کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 618476 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More