میرا قد اب بھی مسلسل بڑھ رہا ہے٬ کیا سلیمان دنیا کے سب سے لمبے شخص ہو سکتے ہیں؟

image
 
جب میں نے شمالی گھانا میں دنیا کے سب سے لمبے آدمی ہونے کے دعویدار سے متعلق افواہیں سنیں تو میں یہ جاننے کے لیے نکلا کہ آیا یہ سچ بھی ہے۔ مسئلہ صرف ایک ہے، وہ ہے ان کی پیمائش کا۔
 
شمالی گھانا کے ایک مقامی ہسپتال نے اپنے ایک حالیہ چیک اپ کے دوران 29 سالہ سلیمان عبدالصمد کو بتایا کہ ان کا قد 9 فٹ 6 انچ (2.89 میٹر) تک پہنچ چکا ہے۔
 
اگر ایسا ہے تو وہ دنیا کے سب سے لمبے شخص ہیں لیکن اس میں ایک سقم ہے اور وہ یہ کہ دیہی کلینک ان کے قد کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ وہاں ان کے درست قد کو ماپنے کا آلہ موجود نہیں ہے۔
 
سلیمان میں چند سال قبل دیو قامتی ہونے کی تشخیص ہوئی تھی، یعنی ان میں نشو نما کے ہارمونز کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ہڈیوں کا سائز بڑھنے لگا تھا۔ اس لیے وہ اس کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے ہر مہینے ہسپتال کا چکر لگاتے ہیں اور ایسے ہی ایک چیک اپ کے دوران انھیں پیمائش کرنے والے آلے کے پاس کھڑا ہونے کو کہا گیا۔
 
حیرانی کے عالم میں ایک نرس نے ان سے کہا ’تم تو پیمانے سے بھی زیادہ لمبے ہو گئے ہو۔‘
 
سب انھیں ان کے عرفی نام آوچے سے پکارتے ہیں جس کا مطلب ہاؤسا زبان میں ’چلو چلتے ہیں‘ ہوتا ہے۔ اس وقت ان کی وجہ سے جو تماشہ لگ رہا تھا وہ اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
 
وہ یہ سن کر حیران نہیں ہوئے کہ وہ لمبے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی نشو نما کبھی رکی ہی نہیں۔ لیکن ہسپتال کا عملہ اس قسم کی صورتحال کے لیے تیار نہیں تھا۔
 
ڈیوٹی پر موجود نرس نے اپنے ساتھی کو پکارا، اس نے کسی اور کو مدد کے لیے طلب کیا اور پھر نرسوں اور صحت کے معاونین کا ایک گروپ ان کے قد کا تعین کرنے کی پہیلی کو حل کرنے کے لیے جمع ہوا۔
 
ایک نے مشورہ دیا کہ وہ ایک کھمبا تلاش کریں اور اسے پیمائش کرنے والے پیمانے سے جوڑ کر قد ماپیں اور اس طرح وہ سلیمان کے قد کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے۔
 
image
 
’وہ اب بھی بڑھ رہے ہیں‘
حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کرنا کامیابی کے زیادہ امکانات کا باعث بن سکتا ہے۔
 
اس لیے معمے کو سلجھانے کے لیے میں 16 فٹ کی پیمائش کرنے والی ٹیپ سے لیس پچھلے ہفتے گامباگا گاؤں واپس گیا۔
 
منصوبہ یہ تھا کہ وہ دیوار سے لگ کر کھڑے ہوں گے اور اپنے سر کے آخری حصے کے ساتھ نشان لگائیں گے اور پھر ہم ماپنے والی ٹیپ کا استعمال کرتے ہوئے ان کے قد کا تعین کریں گے۔
 
آوچے نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ’جس طرح وہ یہاں میری پیمائش کرتے ہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘ وہ میرے درست طور پر پیمائش کرنے کے منصوبے سے خوش نظر آ رہے تھے۔
 
وہ اپنے محلے کے بیشتر گھروں سے بلند نکلے، لیکن کافی تلاش کے بعد ہمیں ایک مناسب عمارت ملی جس کی دیوار کافی اونچی تھی۔
 
انھوں نے اپنے جوتے اتارے۔ یہ جوتے ان کے لیے ایک موچی نے خاص طور پر کار کے ٹائر اور کیلوں کی مدد سے بنائے تھے کیونکہ ان کی ماپ کے جوتے نہیں ملتے۔
 
ان کے ایک پڑوسی آوچے کی اونچائی تک پہنچنے کے لیے لکڑی کے سٹول پر چڑھ گئے تاکہ وہ چارکول کے ٹکڑے سے دیوار پر نشان لگا سکیں۔
 
سر کے برابر کے نشان کی تصدیق کرنے کے بعد ہم نے ماپنے والی ٹیپ لگائی اور اسے کھینچ کر زمین تک لے آئے۔ اس دوران آوچے پر امید نظروں سے ہمیں دیکھتے رہے۔
 
میں نے کہا ’آوچے، ماپنے والی ٹیپ 7 فٹ 4 انچ بتا رہی ہے۔‘
 
اپنی بے مثال مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے جواب دیا: 'واؤ، اس کا کیا مطلب ہے؟‘
 
میں نے کہا کہ دنیا کے سب سے لمبے زندہ آدمی کا قد 8 فٹ 2.8 انچ ہے، اور وہ آپ سے بمشکل ایک فٹ اونچے ہیں۔‘
 
میں ترکی کے 40 سالہ سلطان کوسن کا ذکر کر رہا تھا کیونکہ فی الحال دنیا میں لمبے قد کا انھیں کے پاس گنیز ورلڈ ریکارڈ ہے۔
 
آوچے نے کہا ’میرا قد ابھی بڑھ رہا ہے۔ کون جانتا ہے کہ ایک دن میں بھی اتنا لمبا ہو جاؤں گا۔‘ وہ ہسپتال کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کے تضاد سے بالکل پریشان دکھائی نہیں دیے۔
 
انھوں نے کہا ’اگر آپ مجھے تین یا چار مہینے نہ ملیں اور پھر آپ مجھے دیکھیں، تو آپ کو احساس ہوگا کہ میرا قد بڑھ گیا ہے۔‘
 
image
 
پھیلتی زبان
قد میں یہ اضافہ اس وقت نمایاں ہونا شروع ہوا جب وہ 22 سال کے تھے اور دارالحکومت ایکرا میں رہتے تھے۔
 
آوچے ثانوی سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے وہاں منتقل ہوئے تھے۔ وہاں ان کا ایک بھائی پہلے سے رہتا تھا۔
 
وہ ایک قصاب کے ہاں کام کرتے اور ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے پیسے بچاتے تھے۔
 
لیکن وہ ایک صبح پریشانی کے عالم میں اٹھے۔ انھوں نے سوچ کر کہا ’میں نے محسوس کیا کہ میری زبان میرے منہ میں اتنی پھیل گئی تھی کہ میں (صحیح طریقے سے) سانس بھی نہیں لے پا رہا تھا۔‘
 
وہ کچھ دوا لینے کے لیے ایک مقامی فارمیسی پہنچے، تاہم کچھ دن بعد انھیں احساس ہوا کہ ان کے جسم کے ہر دوسرے حصے کا سائز بھی بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔
 
جب ان کے اہل خانہ اور دوست ان کے پاس گاؤں سے شہر آتے تو سب ہی ان کے بھڑتے ہوئے جسم پر تبصرہ کرتے اور اسی دوران انھیں احساس ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ ایک دیو پیکر شخص میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
 
وہ سب سے لمبے ہونے لگے۔ انھوں نے طبی مدد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی کیونکہ اس اضافے سے دیگر پیچیدگیاں بھی پیدا ہو رہی تھیں۔
 
ان کی ریڑھ کی ہڈی میں غیر معمولی طور پر خم ہو گئی ہے۔ اسے مارفن سنڈروم کہا جاتا ہے اور یہ ایک جینیاتی عارضہ ہے جو جسم کے مربوط ٹشوز کو متاثر کرتا ہے اور یہ ان کی اس حالت کی نمایاں علامات میں سے ایک ہے۔
 
اس کا نتیجہ غیر معمولی طور پر لمبے اعضاء ہوتے ہیں۔ زیادہ سنگین پیچیدگیوں میں دل کی خرابیاں شامل ہیں۔
 
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی نشوونما کو روکنے کے لیے ان کے دماغ کے آپریشن کی ضرورت ہے۔
 
لیکن گھانا کا پبلک ہیلتھ کیئر انشورنس اس کا احاطہ نہیں کرتا، وہ صرف بنیادی علاج فراہم کرتا ہے۔
 
ہر بار ہسپتال کے دورے کے لیے انھیں اب بھی تقریباً 50 امریکی ڈالر درکار ہوتے ہیں۔
 
صحت کے مسائل نے بالآخر انھیں چھ سال قبل اپنے آبائی گاؤں واپس آنے اور ڈرائیور بننے کے اپنے خوابوں کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔
 
انھوں نے کہا ’میں ڈرائیونگ سکول جانے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن جب میں سیٹ پیچھے ہٹاتا ہوں، تب بھی میں اسٹیئرنگ وھیل کو نہیں پکڑ سکتا۔ میں اپنی ٹانگ نہیں پھیلا سکتا کیونکہ میرا گھٹنا پہیے کو چھو رہا ہوتا ہے۔‘
 
انھوں نے کہا ’میں ڈرائیونگ سکول جانے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن جب میں سیٹ پیچھے ہٹاتا ہوں، تب بھی میں اسٹیئرنگ وھیل کو نہیں پکڑ سکتا۔ میں اپنی ٹانگ نہیں پھیلا سکتا کیونکہ میرا گھٹنا پہیے کو چھو رہا ہوتا ہے۔‘
 
وہ اب اپنے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں اور موبائل فون کے کریڈس بیچنے کا ایک چھوٹا سا کاروبار کرتے ہیں۔
 
ان کے قد نے ان کی سماجی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
 
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کسی بھی دوسرے نوجوان کی طرح فٹ بال کھیلتا تھا، میں ایتھلیٹک تھا لیکن اب میں کم فاصلے تک بھی نہیں چل سکتا۔‘
 
image
 
مقامی سیلبریٹی
لیکن آوچے اپنی پریشانیوں کو اپنے سر پر سوار نہیں ہونے دیتے۔ وہ زندگی سے بھرپور ہیں۔ جب ان کا لمبا پتلا جسم گاؤں کے دھول بھرے راستوں سے گزرتا ہے اور لوگ انھیں پکارتے ہیں تو وہ مسکرا دیتے ہیں۔
 
وہ ایک طرح سے مقامی سیلبریٹی ہیں۔
 
ایک شیڈ کے پاس بیٹھے بوڑھوں نے ان کا خیر مقدم کیا، بچے ان کی جانب ہاتھ ہلاتے ہیں، کچھ عورتیں گلے ملنے آتی ہیں اور ان کے ساتھ مزاحیہ باتیں کرتی ہیں۔
 
کچھ لوگ ان کے ساتھ سیلفی لینا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ اجنبی بھی یہ پوچھنے سے نہیں کتراتے کہ وہ وہی دیو ہیکل شخص ہیں جنھیں انھوں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے۔
 
آوچے کہتے ہیں ’میں عام طور پر کہتا ہوں، کہ ہاں قریب آ جاؤ، ہم کھڑے ہوتے ہیں اور اچھی تصویریں بنواتے ہیں۔‘
 
وہ اپنے خاندان کے جذباتی سپورٹ کے لیے سب سے زیادہ شکر گزار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے تین بھائیوں سمیت کسی دوسرے رشتہ دار کو بھی اس قسم کی کوئی علامت نہیں ہے۔
 
’ان میں سے کوئی بھی لمبا نہیں ہے، صرف میں ہی سب سے لمبا آدمی ہوں۔‘
 
وہ ایک دن شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن پہلے وہ اپنی صحت کو ٹھیک کرنے پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔
 
ان کی پہلی ترجیح اعضاء کی زیادہ نشوونما کی وجہ سے ایک ٹانگ، ٹخنے اور پاؤں کی جلد کی بری حالت سے نمٹنے کے لیے پلاسٹک سرجری کے لیے رقم جمع کرنا ہے۔
 
لیکن اپنے پٹی بندھے پاؤں کے انگوٹھے کو دیکھ کر بھی وہ ہمت ہارنے کو تیار نہیں ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں ’اللہ نے میرے لیے اسی کا انتخاب کیا ہے، میں ٹھیک ہوں، مجھے اللہ نے جس طرح پیدا کیا ہے اس سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: