باپ کی انمول محبت کا کوئی ثانی نہیں

باپ کی شفقت اور محبت قدرت کا بہترین انعام ہے ۔
ماں کے پاؤں کے نیچے اگر جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے ۔دروازے سے نکل کر ہی جنت میں داخل ہواجاسکتا ہے
باپ کی قدر وہی جانتے ہیں جن کو والد کی محبت نہیں ملی
حضرت یعقوب علیہ السلام ، بیٹے کی جدائی میں اپنی بینائی کھو بیٹھے ،پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتے نے اپنے والد کی آنکھیں ٹھیک کردیں

بچپن میں میرے والد( محمد دلشاد خان لودھی) ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کسی خاندان میں یہ روایت تھی کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کو (جب وہ ضعیف العمری کو پہنچ جاتے) گھر سے لا کر دریا میں پھینک دیتے تھے۔ اس طرح ایک بیٹا اپنے ضعیف باپ کو کندھوں پر اٹھا کر دریا کے کنارے لایا جب پانی میں پھینکنے لگا تو باپ نے بیٹے کو مخاطب ہوکر کہا‘ بیٹا یہاں تو میں نے اپنے باپ کو پھینکا تھا ، تم مجھے اس سے چند قدم آگے پھینکو تاکہ تمہارا بیٹا تمہیں اس سے بھی آگے پھینکے۔ بوڑھے باپ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر بیٹا ٹھہر گیا اور سوچنے لگا کہ اگر یہ خاندانی روایت اسی طرح جاری رہی تو کل کو اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا۔ یہ سوچ کر اس کے دل میں باپ کی محبت جاگ اٹھی ۔اسے اپنا انجام نظر آنے لگا۔اور وہ اسی طرح کندھوں پر بٹھا کر اپنے باپ کو واپس گھر لے آیا۔ یوں یہ بری اور گھٹیا روایت اپنی موت آپ مر گئی۔
یہ خبر میرے لیے بہت بڑا انکشاف تھا کہ چالیس عمررسیدہ باپ اولڈ پیپلزہوم کی دہلیز پر اپنی اولاد کی راہ دیکھ رہے تھے۔ فادر ڈے کے حوالے سے جب صحافی ان کے پاس پہنچے تو ان میں ایک نے کہا کہ باپ کا رشتہ تو اسی دن ختم ہوگیا تھا ۔جب افسر بیٹے نے اسے لاوارث قرار دے کر اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کروادیاتھا۔ ایک اور باپ نے کہا کہ اسے یہاں رہتے ہوئے دو سال کا عرصہ ہوچکا ہے ‘ اس کی نگاہیں ہر وقت دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ بیٹوں کی راہ دیکھ دیکھ کر آنکھوں کی بینائی بھی ماند پڑنے لگی۔ تھوڑی سی آہٹ بھی یہ احساس دلاتی ہے کہ شاید اس کا بیٹا انہیں ملنے کو آیا ہو۔لیکن ہر لمحے یہ انتظار شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک اور بزرگ نے کہا کہ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اچھا رہن سہن دیا‘ جس کی وجہ سے آج اس کا بیٹا خود معاشرے کا معزز رکن ہے اور باپ خیراتی ادارے میں زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ وہ اپنی بہو کو قصور وار نہیں ٹھہراتا بلکہ اصل قصور وار اس کا اپنا بیٹا ہے۔ جس کی آنکھوں پر صرف بیوی کی محبت کی پٹی بندھی ہے۔ اور وہ والدین کی محبتیں اور قربانیاں بھول چکا ہے۔
ان حالات میں ،میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ خبریں ہمارے اسی معاشرے کی ہیں جس کو ہم اسلامی معاشرہ قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے۔ مغربی اقوام میں تو ایسے واقعات‘ معمول کا حصہ ہیں۔ جہاں والدین بھی اولاد سے زیادہ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔ بلکہ بے راہ روی کا عالم یہ ہے کہ وہاں پیدا ہونے والی اولاد کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ہی باپ کی اولاد ہے یا ان کا باپ کوئی اور ہے ۔ لیکن ہمارے اسلاف میں بے شمار واقعات والدین کی فرماں برداری سے بھرے پڑے ہیں جن کو مثال بنا کر ہمیں زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے چند واقعات قارئین کی نذر کرنا ضرور سمجھتا ہوں۔
جب حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منصب خلت پر سرفراز فرمایا تو ملائکہ نے کہا ‘ اے رب کریم اپنے اس بندے کو تو نے مال و زر ‘ فرزند و زن‘ صحت و تندرستی سے سرفراز فرمایا ہے۔ ان نعمتوں پر آزمائش بھی ہونی چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ تمام نعمتیں تیری محبت میں رکاوٹ تو نہیں۔ پروردگار نے کہا کہ اپنے اس بندے کی آزمائش کر لیتے ہیں یہی وہ آزمائش تھی جب فرشتے نے خواب میں آ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا ‘ تمہارے رب تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ اپنے فرزند اسمٰعیل ؑ کو اﷲ کی راہ میں قربان کرو۔ پہلے تو آپؑ اس خواب کو شیطانی وسوسہ تصور کرکے ذہن سے جھٹکتے رہے۔ جب تیسری رات فرشتے نے کہا کہ رب کریم کا حکم ہے اٹھیے اور اپنے بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر دیجیے۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یقین ہوا کہ مشیت الٰہی فرزند کی قربانی کی متقاضی ہے اور بیٹے کی قربانی کا وقت آپہنچا ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے اپنی اہلیہ بی بی ہاجرہؓ سے فرمایا وہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا سر دھوئیں‘ کنگھی کرکے عمدہ لباس پہنا دیں۔ بی بی ہاجرہؓ نے دریافت کیا کہ اس اہتمام کی کیا ضرورت ہے۔ آپ ؑنے فرمایا ‘ ایک دوست کی ملاقات کے لیے جانا ہے۔
پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام رسی‘ چھری اور فرزند کو لے کر پہاڑ کی طرف جا رہے تھے تو ابلیس اپنی روایتی مکاری پر اُتر آیا۔ پہلے ایک ضعیف العمر شخص کی شکل میں بی بی ہاجرہؓ کے پاس آیا ان سے معلوم کیا کہ ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو لے کر کہاں گئے ہیں۔ بی بی ہاجرہؓ نے فرمایا‘ اپنے ایک دوست کو ملانے کے لیے۔ یہ سن کر ابلیس نے کہا غلط وہ تو انہیں ذبح کرنے کے لیے لے کر گئے ہیں۔ بی بی ہاجرہؓ نے فرمایا کہ باپ اپنے بیٹے پر بہت مہربان ہے لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بیٹے کو ذبح کریں گے۔ شیطان نے کہا انہیں گمان ہے یہی حکم ربی ہے کہ بیٹے کو اﷲ کی راہ میں قربان کیا جائے۔ یہ سن کر صابر اور شاکر بی بی نے فرمایا اگر یہ خدا کا حکم ہے تو حکم الٰہی پر ہماری گردن تسلیم خم ہے اور اس کی رضا پر میں راضی ہوں۔ یہ سن کر ابلیس وہاں سے دفع ہوگیا۔ پھر ابلیس ایک سفید پرندے کی شکل میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا‘ اے اسمٰعیل علیہ السلام تمہیں معلوم ہے تمہارے والد تمہیں قتل کرنے کے لیے لے کر جا رہے ہیں۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے فرمایا‘ تم غلط کہتے ہو۔ کہیں دیکھا یا سنا ہے کہ باپ نے بیٹے کو قتل کیا ہو۔ ابلیس نے کہا کہ مجھے گمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس بات کا حکم دیا ہے۔ یہ سنتے ہی اسمٰعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر یہ حکم خداوندی ہے تو حکم الٰہی پر گردن اطاعت خم ہے۔
بہرکیف جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام دونوں دامن کوہ پر آئے۔ باپ نے بیٹے پر یہ راز ظاہر کیا کہ مجھے خواب میں تمہیں ذبح کرنے کا حکم ملا ہے‘ تمہاری کیا رائے ہے۔ اس پر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے سعادت مند بیٹے کی طرح پوچھا کہ اے پدر بزرگوار کیا مجھے ذبح کرنے کا حکم اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ‘ بے شک۔ اے بابا جان آپ کو حکم ملا ہے اس کی بخوشی تتعمیل فرمائیں۔مجھے سعادت مند بیٹے کی طرح آپ صابر و شاکر پائیں گے۔ میری صرف یہی خواہش ہے کہ ہر حال میں آپ کا مطیع و فرماں بردار رہوں اور آپ کا ادب و احترام بجا لاؤں۔آزمائش کی اس گھڑی میں مجھے چند باتیں آپ کے گوش گزار کرنی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ ذبح کے وقت میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ دیں تاکہ ذبح کے وقت میں ہاتھ پاؤں نہ ماروں‘کیونکہ جان کنی کی تکلیف سخت ہوتی ہے۔ مجھے ذبح کرتے وقت اپنے کپڑوں کوسمیٹ لیجیے گا تاکہ میرے خون کے دھبے آپ کے کپڑوں پر نہ پڑیں‘جس کی وجہ سے آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہو۔
ذبح کرتے وقت چھری کو تیز کر لیں تاکہ آسانی سے ذبح ہو نہ مجھے تکلیف ہو نہ آپ کو زیادہ محنت اور پریشانی اٹھانی پڑے۔ ذبح کے وقت میرا چہرہ زمین کی طرف کر دیں تاکہ آپ کی نظر میرے چہرے پر نہ پڑے کہ شفقت پدری غالب آجائے اور حکم الٰہی پورا کرنے میں کوئی کمی رہ جائے۔
پھر وہ وقت بھی آ پہنچا جب فرماں بردار بیٹے کو زمین پر لٹا کر آپ علیہ السلام سرہانے کی طرف آئے اور فرمایا ‘ الٰہی یہ میرا بیٹا میری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے تو نے مجھے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا‘ اس کو تیری بارگاہ میں قربان کر رہا ہوں۔ اے اﷲ! اس قربانی پر مجھے صبر جمیل عطا فرما۔ پھر فرط محبت سے پیشانی اسمٰعیل پر بوسہ دیتے ہوئے فرمایا‘ تیری فرماں برداری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے قیامت تک کے لیے تجھے رخصت کرتا ہوں اور جدائی کے لمحات روز قیامت ختم ہوں گے اور اس وقت تیری صورت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کروں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں سے اس وقت آنسوؤں کی جھڑیاں لگی تھیں۔ اسمٰعیل علیہ السلام نے کہا ‘ ابا جان ان باتوں کو چھوڑیئے اور تعمیل حکم خداوندی میں عجلت نہ کیجیے جس کام سے مالک حقیقی راضی ہو ,اس کو جلد ہی کرنا چاہیے۔کیونکہ میں عتاب الٰہی سے ڈرتا ہوں۔ پھر کہا ‘ اے اﷲ میں نے اپنی جان تیری رضا کے لیے پیش کردی۔تو اس کو قبول فرما لے۔
پھر جب پرور دگار نے اپنے دونوں عظیم اور صالح بندوں کو اپنے راستے پر صابر و شاکر پایا تو اﷲ تعالیٰ کے حکم پر فرشتے قربانی کے لیے مینڈھا لے آئے اور حضرت ابراہیم ؑ نے اس مینڈھے کو قربان کیا‘ جو قیامت تک مسلمانوں کے لیے سنت ابراہیمی بن گئی۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اسلاف میں والدین کا کس قدر احترام اور ادب پایا جاتا ہے۔ کہاں باپ کے کہنے پر جان کی قربانی دینا اور کہاں ضعیف العمری میں والدین کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دینا کہ ان کی وجہ سے گھر میں فساد برپا ہوتا ہے۔ یا گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ مسلمانوں ہونے کے ناطے یہ ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ آج ہم خود کو بیویوں کا غلام بنا کر تمام مقدس رشتوں اور ان سے وابستہ محبتوں کو فراموش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ نصیحت آموز ہے۔
پھر جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سن بلوغ کو پہنچے تو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ نے سفر آخرت اختیار کر لیا اور آپ تنہا رہ گئے۔ قبیلہ جرہم جو آپ کی خدمت کے لیے سرزمین حرم پر ہی آباد تھا۔آپ کی تنہائی اور تکالیف کا خیال کرتے ہوئے عمارہ بنت سعد بن اسامہ جرہمہ سے آپ علیہ السلام کی شادی کرا دی۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملنے سرزمین شام سے مکہ تشریف لائے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اس وقت شکار کے لیے باہر گئے ہوئے تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک عورت باہر آئی۔ آپ علیہ السلام نے ان سے حضرت اسمٰعیل ؑکے بارے میں دریافت فرمایااس خاتون نے جواب دیا کہ وہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ آپ نے گھر کے احوال دریافت کیے تو اس عورت نے تنگ دستی کی شکایت کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹھنے کے لیے بھی نہ کہا اورنہ کوئی توجہ دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے واپسی کا ارادہ فرمایا اور چلتے وقت اس عورت سے فرمایا‘ اپنے شوہر کو میرا سلام کہنا اور کہہ دینا کہ مکان کی چوکھٹ تبدیل کرلیں۔
شام ڈھلے جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام گھر تشریف لائے تو ایک مانوس خوشبو محسوس کی تو اپنی بیوی عمارہ سے دریافت کیا کہ میری عدم موجودگی میں میرے کوئی عزیز ملنے آئے تھے ۔ عمارہ نے کہا‘ ہاں‘ ایک بزرگ تشریف لائے تھے۔ آپ کے حالات معلوم کر رہے تھے۔ میں نے تمام حالات بتا دیئے۔ وہ رخصت ہوتے وقت یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ مکان کی چوکھٹ تبدیل کرلیں۔ یہ سن کر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے وہ مجھ سے فرما گئے ہیں کہ میں تم سے علیٰحدگی اختیار کر لوں لہٰذا میں تمہیں اس وقت طلاق دیتا ہوں۔ یوں عمارہ خاتون نور محمدی کی دولت سے محروم رہ گئیں۔
کچھ عرصہ بعد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے قبیلہ کی حسین ترین عورت ہالہ بنت حارث سے شادی کر لی۔ ان کے ساتھ زندگی کے ایام خوشی و مسرت سے گزرتے رہے۔ ایک دن پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے ۔ اتفاق سے اس دن بھی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام گھر پر موجود نہ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آپ کی اہلیہ ہالہ سے حالات معلوم کیے تو انہوں نے تمام حالات آپ کے گوش گزار کر دیئے۔ آپ نے فرمایا گزر کیسی ہو رہی ہے۔ ہالہ نے کہا ‘ اﷲ کا شکر ہے۔اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ اپنے قدم رنجہ سے ہمارے گھر کو مشرف فرمائیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اترنے کی مہلت نہیں ہے۔ ہالہ نے کہا آپ کے بال الجھے اور غبار آلود ہیں۔آپ اگر اجازت دیں تو میں انہیں دھو کر تیل لگا کر کنگھی کر دوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجازت دی۔ ہالہ ایک پتھر اٹھا کر لائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا ایک پاؤں اس پتھر پر رکھا اور دوسرا رکاب میں رہنے دیا اس طرح سیلقہ مند بہو نے پہلے آپ کا سر داہنی طرف اور پھر بائیں طرف سے دھویا۔
ہالہ جب آپ کے بال دھو کر فارغ ہوئیں تو ایک طبق میں پنیر رکھ کر لے آئیں۔ طبق اس وقت تک دونوں ہاتھوں سے پکڑے رہیں جب تک آپ ؑ کھاتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہالہ کی یہ عادات بہت پسند آئیں اور آپ ان پر خوش ہوئے۔ جاتے وقت ہالہ سے کہا کہ اپنے شوہر کو میرا سلام کہنا اور یہ بتا دینا کہ چوکھٹ کو مضبوط کر لیں یہ نہایت مناسب ہے۔ جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شکار سے واپس آئے تو ہالہ نے بتایا کہ ایک بزرگ آئے تھے جو آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ انہوں نے جس پتھر پر پاؤں رکھا پاؤں کا اثر پتھر پر نمایاں ہے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ صفات رکھنے والی شخصیت میرے والد بزرگوار کی ہے۔ ہالہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سلام اور وہ باتیں بتائیں جو وہ جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ اب مکان کی چوکھٹ اچھی ہے اس کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ۔ یہ سن کر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے ہالہ سے کہا ‘ مبارک ہو۔ وہ مکان کی چوکھٹ تم ہو۔ میرے والد تم سے خوش ہوکر گئے ہیں۔ اب تمام عزت و افتخار جو اس خانوادہ کے لیے مخصوص ہے تمہی کو ملے گا۔ اور وہ نور محمدی جو میرے پاس امانت ہے تمہارے حصہ میں آئے گا۔
ہالہ کی اسی سعادت مندی کا یہ صلہ تھا کہ نبی آخرالزمان ﷺ انہی کی نسل سے پیدا ہوئے اور اس کائنات میں سب سے افضل ترین انسان قرار پائے۔
حالانکہ یہ بات اب اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے لیکن اس میں ہم سب مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سبق موجود ہے۔ اگر ہم اس سے استفادہ کریں ‘ اس کو پرانی سوچ قرار دے کر خود کو نئی سوچ کا علمبردار قرار نہ دینے لگیں۔
......................
قارئین کرام نے حضرت یعقوب علیہ السلام اوران کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت کا قصہ بھی سن رکھا ہوگا۔ جب یوسف علیہ السلام کی جدائی میں ان کے والد اور اﷲ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ۔اور یہ بینائی اس وقت واپس آئی جب مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتہ آپ کے پاس لایا گیا تو اسے آپ نے محبت سے آنکھوں سے لگایا ۔ اولاد سے والدین اور والدین سے اولاد کی محبت ہمارے خون میں رچی بسی ہے۔ اور جو بدقسمت لوگ اس انمول محبت سے عاری ہیں ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ اپنے والدین سے کرتے رہے ہیں۔
.................
خدا کا شکر ہے کہ میرا شمار ایسے بدبخت لوگوں میں نہیں جو بڑھاپے میں اپنے والدین کو فالتو چیز سمجھ کر گھر کے کسی کونے میں پھینک دیتے ہیں یا گھر سے باہر نکال کر کسی اولڈ پیپلز ہوم میں داخل کرا دیتے ہیں۔ مجھے زندگی کی وہ راتیں نہیں بھولتیں جب میرے والد کو آشوب چشم نے ایسا گھیرا کہ انہیں دونوں آنکھوں سے نظر آنا بند ہوگیا۔ کہیں جانا تو دور کی بات ہے بیت الخلا تک تنہا جانا بھی ممکن نہ رہا۔ انتہائی محدود وسائل کے باوجود میں نے ان کی آنکھوں کا آپریشن کروانے کا فیصلہ کرلیا۔ بلکہ سروسز ہسپتال کے آئی وارڈ میں والد صاحب کو داخل بھی کروا دیا۔ کہنے کو تو سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کیا جاتا ہے‘ لیکن جب ان سے واسطہ پڑتا ہے تو قدم قدم پر پریشانیاں منہ کھولے کھڑی نظر آتی ہیں۔
مریض تو بیماری کے ہاتھوں پریشان ہوتا ہی ہے۔ ساتھ رہنے والے کو جن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا ذکر بھی الفاظ میں ممکن نہیں۔ دن کے وقت تو والد صاحب کے ساتھ چھوٹے بھائی رہ لیتے تھے ‘ لیکن رات کی ڈیوٹی میں نے اس لیے اپنے ذمے لے لی کہ رات کے وقت اپنے گھر کا سُکھ چین اور آرام چھوڑ کر کوئی بھی سردیوں کی ان سرد راتوں میں ٹھنڈے فرش پر سونا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے چونکہ اپنے والد سے جنون کی حد تک پیار تھا۔اور اس پیار کی مثالیں میری زندگی میں روشن مثال کی طرح آج بھی زند ہ ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دن میں دو ملازمتیں کرتا تھا۔ صبح آٹھ بجے گھر سے نکل کر رات آٹھ بجے گھر پہنچتا۔ رات کا کھانا کھا کر سائیکل پر ہی ہسپتال میں رات گزارنے کے لیے پہنچ جاتا۔ والد بھی اس محبت کو شدت سے محسوس کرتے کہ میں ہی ان کو سب بھائیوں سے زیادہ نہ صرف پیار کرتا ہوں بلکہ ان کی صحت یابی اور آرام کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوں جو میرے بس میں تھا۔ ہسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹروں کا راؤنڈ شروع ہوجاتا ۔ نرسیں اور ماتحت عملہ و ارڈ سے نکل جانے پر مجبور کر دیتا۔ چونکہ اگلی صبح والد صاحب کی ایک آنکھ کا آپریشن تھا۔ اس لیے ڈاکٹروں کی ایڈوائس اور آپریشن کے سامان خریداری کے ساتھ ساتھ آپریشن کا خوف بھی والد صاحب پر طاری تھا۔ ڈاکٹروں کے جانے کے بعد میں رات گئے تک ان کو دباتا رہا۔ ایک اور مصیبت یہ تھی کہ آنکھوں کے علاوہ انہیں پیشاب میں رکاوٹ کا مرض بھی لاحق تھا۔ ڈاکٹر اس مرض کے آپریشن کا مشورہ بھی دے چکے تھے لیکن والد صاحب پہلے آنکھوں کا آپریشن کرواناچاہتے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد جب والد صاحب کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تو ہسپتال کے ننگے فرش پر چادر بچھا کر سویا ہوا میں تھوڑی سی آہٹ پر بیدار ہوجاتا۔ اس لمحے مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ والد پیشاب کو زیادہ دیر روک نہیں سکتیتھے‘لیکن میں یہ بات فخر سے کہتا ہوں کہ مجھے نہ اپنے باپ سے کراہت محسوس ہوئی اور نہ ہی ان کے پیشاب کی بدبو نے مجھے پریشان کیا۔ میں ہسپتال کی راتوں کو دوڑ دوڑ کر اپنے والد کی اس جذبے سے خدمت کر رہا تھا کہ شاید میری خدمت سے ان کی تکلیف کم ہو جائے۔
گھر کے آرام دہ اور گرم لحاف میں سوتے ہوئے ہم نے کبھی یہ احساس نہیں کیا کہ جو لوگ ہسپتالوں میں ہوتے ہیں ان پر کیا گزر رہی ہوتی ہے۔ یہاں میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ سارا دن کا تھکا ہوا میں اس رات صرف ایک گھنٹہ ہی فرش پر سو سکا۔وگرنہ ساری رات درد سے کراہتے ہوئے بیمار لوگوں میں جاگتے ہی گزاری۔ خدا کا شکر ہے کہ ایک آنکھ کا آپریشن کامیاب ہوگیا۔لیکن آپریشن تھیٹر کے باہر گزارا ہوا ایک ایک لمحہ مجھے آج تک نہیں بھولتا جب درد سے کراہنے کی آواز یں باہر آتیں تو مجھے والد صاحب کی فکر لاحق ہوجاتی۔ آپریشن کے بعد جونہی ہوش آیا تو آپریشن کی تکلیف نے انہیں بے حال کر دیا۔ ایک طرف والد صاحب درد سے تڑپ رہے تھے تو دوسری طرف ڈاکٹر وں کی ہدایت پر ہمیں ہر حال میں عمل کرنا تھا۔ کیونکہ آپریشن کی کامیابی اور صحت یابی کے لیے ڈاکٹروں کی نصیحتوں پر عمل ضروری تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ اسی طرح کرب ناک حالات میں میں نے باپ کی تکلیف خود پر طاری کرکے ان کی اذیت کا احساس کیا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپریشن کی وجہ سے والد صاحب دونوں آنکھوں سے پھر سے دیکھنے لگے۔ اب انہیں تنہا چلنے پھرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
......................
اس لمحے میں اپنی اس تکلیف کا موازنہ کر رہا تھا جب میں نے ماں کے منع کرنے کے باوجود اپنے استاد کی نقل اتاری تھی۔ آشوب چشم کی وجہ سے جس کی آنکھیں سوجیں ہوئی تھیں۔ جونہی میں نے نقل اتاری۔ گھرآتے آتے میری آنکھیں نہ صرف سرخ ہوگئیں بلکہ اس قدر سوجھ گئیں کہ کوشش کے باوجود آنکھیں کھلتی نہ تھیں۔ اور دیکھنے میں بھی خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا۔ شام کو چار بجے والد صاحب ڈیوٹی سے واپس آئے تو مجھے اس کیفیت میں مبتلا دیکھا۔ والدہ سے بیماری کی وجہ پوچھی تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ استاد کی نقل اتارنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ بظاہر ماں میری اس حرکت پر مجھے کوس رہی تھی لیکن میں نے محسوس کیا کہ آنکھیں سوج جانے کا دکھ انہیں بھی تھا۔ اندازہ کیجیے ‘ 1962ء کے زمانے میں واں رادھا رام جسے آج کل حبیب آباد کے نام سے پکارا جاتاہے۔ کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر موجود نہ تھا۔ ہسپتال کا توتصور بھی محال تھا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ والدصاحب سارا دن کے تھکے ماندے مجھے بذریعہ ٹرین 20میل دور رینالہ خورد لے جائیں۔ جس کواس وقت لوگ ملیانوالہ کے لقب سے پکارتے تھے۔ حالانکہ رینالہ خورد تک پہنچنے کے لیے سڑک کا راستہ بھی موجود تھا۔ لیکن آج کل کی طرح بسیں زیادہ نہیں چلتی تھیں۔ پھر شام ہوتے ہی ٹریفک بند ہوجاتی تھی کیونکہ سارے پاکستان کی سڑکیں ڈاکوؤں اور رسہ گیروں کی تحویل میں چلی جاتی تھیں۔ پرانے دور میں ٹرین چونکہ سب سے محفوظ ذریعہ سفر تصور کیا جاتا تھا اس لیے ریلوے ملازم کی حیثیت سے میرے والد ٹرین پر ہی سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ چاہے ان کو ٹرین کے انتظار میں سارا دن پلیٹ فارم پر ہی کیوں نہ گزارنا پڑے۔ کچھ یہی حال دوسرے لوگوں کا بھی تھا۔ واں رادھا رام چونکہ پتوکی کے نواح میں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن تھا اس لیے وہاں صرف پسنجر ٹرین ہی رکتی تھی جبکہ ایکسپریس ٹرینیں ہوا میں اڑتے ہوئے گزر جاتی تھیں۔ تیز رفتاری سے دوڑتی ہوئی میل ٹرینوں کو ہم سب بچے بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔
بہرکیف رینالہ خورد جانے والی ٹرین سورج ڈھلے اسٹیشن پر آئی ۔ والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لے کر اور جیب میں پانچ روپے کا نوٹ ڈال کر (یہ پیسے ماں نے نئی کاپیاں اورکتابیں خریدنے کے لیے ہمارے لیے رکھے ہوئے تھے۔) ٹرین پر سوار ہوئے۔ گاڑی کی سیر کا مزا تو بہت آتا تھا لیکن آنکھیں سوجھنے کی وجہ سے مجھ کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم رینالہ خورد ڈاکٹر کے ہاں پہنچے جو ابھی اپنی دوکان بند کر ہی رہا تھا۔ اس نے معائنہ کرکے دوائی دے دی اور آئندہ سے نقل نہ اتارنے کا مشورہ دے کر رخصت کردیا۔ واپسی کی ٹرین رات 9بجے متوقع تھی۔ یہ سارا وقت سخت سردیوں کے عالم میں بغیر کسی گرم چادر کے پلیٹ فارم پر ہی گزرا ۔ سردی کی وجہ سے دانت بج رہے تھے ‘ گھٹنے ہل رہے تھے‘ جسم کانپ رہا تھا۔ مجھے تو والد صاحب نے پھر بھی اپنی آغوش میں لے کر کسی حد تک گرم کر رکھا تھا لیکن زیادہ تر سردی کا شکار میرے والد ہی ہو رہے تھے۔ میں دوائی کھانے سے ٹھیک تو ہوگیا لیکن وہ شام جو والد صاحب نے صرف اور صرف میری وجہ سے سخت اذیت میں گزاری ہمیشہ کے لیے میرے ذہن میں محفوظ ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ سروسز ہسپتال کے ٹھنڈے اور ناہموار فرش پر والد صاحب کے علاج کی خاطر سونا اور بار بار جاگنا مجھے ناگوار نہ لگا۔
....................
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے والد 1964ء میں جب لاہور کینٹ پوسٹ ہوئے تو وہ کانٹے والے سے شنٹنگ پوٹر بنا دیئے گئے۔ شنٹنگ پوٹر کی ڈیوٹی اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ اس کے تصور سے ہی انسان کانپ اٹھتا ہے۔ ٹرین کے دو الگ الگ ڈبوں کو آپس کپلین کے ذریعے ملانا شنٹنگ پوٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ شنٹنگ پوٹر شنٹنگ کرتے ہوئے ریلوے انجن پر سوار اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں دو ڈبوں یا ٹرینوں کوآپس میں ملانا مقصود ہوتا ہے۔ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر شنٹنگ پوٹر کھڑے ہوئے ڈبے کے کیبن کو (جس کا وزن کم از کم ایک من یا تیس کلو سے زیادہ ہو گا) اٹھا کر انجن کی ٹھوکر کا منتظر ہوتا ہے ‘ جونہی انجن متعلقہ ڈبے سے ٹکراتا ہے شنٹنگ پوٹر ہاتھوں میں اٹھایا ہوا کپلین انجن کے ساتھ لگے ہوئے ہک میں ڈال دیتا ہے۔ پھر انتہائی چستی سے اسے کس کر چلتی ہوئی گاڑی کے نیچے سے نکل جاتا ہے۔ اس لمحے چند لمحوں کی بھی تاخیر بھی انسانی جسم کے کئی ٹکڑے کر دیتی ہے۔ میں نے کئی لوگوں کو اس طرح فرائض کی انجام دہی کے دوران ٹکڑے ہوتے بھی دیکھا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب میرے والد دونوں گاڑیوں کے درمیان میں کپلین لگانے کے لیے کھڑے ہوتے تومیں انہیں اس حالت میں دیکھ کر خدائے بزرگ برتر سے ان کی سلامتی کی دعا مانگا کرتا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ والد صرف اور صرف میرے لیے دن میں کئی مرتبہ اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب والد صاحب آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی مکمل کرکے گھر واپس لوٹتے تو ان کا ہر کام میں اتنی پھرتی اور دلچسپی سے کرتا کہ والد صاحب مجھ سے خوش ہوجاتے پھر جب انہیں تھکاوٹ کی وجہ سے نیند نہ آتی تو نہ صرف ان کے پاؤں اور ٹانگیں دباتا پھر ان کے سر پر سینکڑوں کی تعداد میں چٹکیاں بھی کاٹتا تاکہ وہ آرام سے گہری نیند سوجائیں۔
مجھے یہ فخر ہے کہ والد نے مجھے نافرمانی پر کبھی نہیں مارا بلکہ زندگی میں جب بھی تھپڑ رسید کیے ‘صرف پڑھائی کی خاطر کیے۔ اس لمحے بھی ماں درمیان میں کود پڑتی اور والد کا غصہ میری بجائے ماں کی طرف ہوجاتا۔ دراصل والدمجھے اس دنیا میں کامیاب اور مضبوط ترین انسان بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ رات کو مجھے اپنے ساتھ ڈیوٹی پر لے جاتے اور میرے جسم پر سرسوں کا تیل لگا کر سینکڑوں کی تعداد میں ڈنڈ بیٹھیں بھی نکلواتے۔ جب میں تھک جاتا تو لکڑی کے پھٹوں پر ہی مجھے سُلا دیتے۔ لیکن میری ماں ہر ماں کی طرح اپنے اولیانہ جذبوں اورمحبتوں کی بدولت میری ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرتی تھی۔ ماں اور باپ کے درمیان ہر شام اگر نوک جھوک ہوتی تو اس کی وجہ اکثر میری تعلیم ہی ہوا کرتی تھی۔
................
میں جب سوچتا ہوں کہ ہمارے ہی معاشرے کے لوگ اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ والدین کی محبت تو انسانی خون میں ایسی رچ بس جاتی ہے کہ ان کی تھوڑی سی تکلیف راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ پھر وہ ایسے کون سے بدقسمت لوگ ہیں جنہوں نے اس وقت اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیا جب ان کواولاد کی بے پناہ محبت‘ نگہداشت کی ضرورت تھی۔ سابق صدر محمد رفیق تارڑ سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ بوڑھے والدین کے سامنے اولاد کواس طرح نظر یں جھکا کے کھڑا ہونا چاہیے ,جیسے بادشاہ کے روبرو کوئی غلام کھڑا ہوتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں غلام کی طرح کھڑا ہونا تو دور کی بات ہے والدین کے دکھ درد میں شامل ہونا بھی محال ہوچکا ہے۔ جب سے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ عام ہوا ہے ہر شخص اپنی ذات کو بچا کر دوسروں کو تڑپنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ چاہے ان کے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
سچ تو یہ ہے والد کی محبت نے زندگی کے ہر دور میں مجھے اپنے حصار میں لیے رکھا ہے۔ لیکن بچپن کا یہ واقعہ ایک روشن مثال کے طور پر میری زندگی میں تابندہ ہے کہ سکول میں جب داخل ہوا تو میری شرط ہوتی کہ امتحان کے وقت والد صاحب کی صورت مجھے نظر آتی رہے۔ (ان دنوں پانچویں تک امتحانات ایک ہی دن ہو جایاکرتے تھے) کچی‘ پکی‘ پہلی‘ دوسری جماعتوں کا امتحان میں نے اس لیے پاس کر لیا کہ امتحان کے وقت والد مجھے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔ تیسری جماعت کے امتحان کے دن والد صاحب کوشش کے باوجود سکول نہ پہنچ سکے۔ جب نتیجہ نکلا تو میں فیل ہوگیا۔
والدصاحب کو جب میرے فیل ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے ہیڈ ماسٹر سے دوبارہ امتحان لینے کی درخواست کی۔ پہلے تو ہیڈ ماسٹر ہچکچائے پھر اصرار پر اجازت دے دی۔ والد صاحب کی موجودگی میں استاد نے جو سوال پوچھے میں نے ٹھیک ٹھیک بتا دیئے۔ اس طرح میں کامیاب قرار دے دیا گیا۔ اس موقع پر ہیڈ ماسٹر نے میرے والد کے روبرو کہا کہ اس بچے کی نفسیات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے یہ بچہ باپ کے بغیر زندگی کیسے گزارے گا‘جو اس کے بغیر امتحان نہیں دے سکتا۔بہرکیف بچپن میں تو سارے ہی بچے والدین سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اس محبت کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب بیوی کے روپ میں ایک اور عورت گھر کی دہلیز عبور کرتی ہے۔ نہ جانے کیوں ہمارے نوجوانوں کی محبتوں کا رخ صرف اور صرف اپنی بیوی اور بچوں کی طرف ہوجاتا ہے۔حالانکہ بیوی بچوں کی محبت سے کسی کو انکار نہیں اور نہ ہی کسی ذی شعور انسان کو ایسی محبت سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن جگر کا لہو پلا پلا کر جن والدین نے ہمیں پروان چڑھایا ہوتا ہے‘ ہم پر ان کا بھی کوئی حق ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد بار بڑھاپے میں والدین کے احترام کا حکم دیاگیا ہے تاکہ اسلامی معاشرے میں محبتوں اور چاہتوں کا توازن قائم رہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ والدین جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو ان کی نگہداشت ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ شخص جو خود چل پھر بھی نہیں سکتا۔ کھا پی بھی نہیں سکتا۔ باتھ روم میں بھی نہیں جاسکتا۔ اس کی نگہداشت کے لیے ایک نہیں کئی افراد کی ضرورت ہوتی۔ ایسے لوگ جو دونوں میاں بیوی ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ اپنی معاشی ذمہ داریوں کی بناء پر بوڑھے والدین کی خدمت سے قاصر رہتے ہیں۔ اور جس طرح پروفیشنل والدین اپنے بچوں کو کیئر سنٹر میں داخل کروا دیتے ہیں اسی طرح ایسے مصروف لوگ والدین کو بھی اولڈ ہوم میں جمع کروا دیتے ہیں۔جہاں ان کو مناسب نگہداشت مل سکتی ہو۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان دنوں معاشی پریشانیوں نے بھی ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ گھر کی آمدنی کا بڑا حصہ یوٹیلٹی بلز کی نذر ہوجاتاہے۔ گھر‘ تعلیم کے اخراجات پورا کرنا درد سر بن چکا ہے۔اس لیے معاشی پریشانیوں میں مبتلا لوگ بھی والدین کو گھر کی دہلیز پر بے بسی سے مرنے کے بجائے اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ جہاں کم از کم ان کو دو وقت کی روٹی اور سہولتیں میسر آجاتی ہیں۔ بیشک یہ دونوں آراء اپنی جگہ وزن رکھتی ہیں لیکن میری ذاتی رائے میں جس طرح کوئی باپ اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کی وادی اترتا نہیں دیکھ سکتا اور حتی المقدور اسے بچانے کی جستجو کرتا ہے۔ اسی طرح جب باپ ایسی ہی صورت حال کا شکار ہوتا ہے تو اولاد کو بھی والدین کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دینا چاہیے۔ یہی ہماری روایت تھی اور یہی ہماری معاشرتی قدریں ہیں۔
..................
اس وقت شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں ماں یا باپ میں سے کوئی ایک توجہ کا محتاج نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں ماں ہو یا باپ دونوں میں سے جب کوئی ایک دنیا سے چلاجاتا ہے تو زندہ رہنے والا بزرگ اس لیے اولاد کی زیادہ توجہ اور محبت کا مستحق ہوتا ہے کہ ایسے بوڑھے لوگ تنہائی اور مایوسی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ 3 اگست 2004ء کے انصاف اخبار میں یہ حیران کن واقعہ شائع ہوا کہ مریدکے کے کئی قدیم قبرستانوں کو پراسرار طوفان اور بارش نے گھیر لیا۔ پہلے شدید آندھی آئی پھر پراسرار طوفان شروع ہوا۔ بعدازاں تیز بارش کی وجہ سے قدیم قبرستانوں حدوکی‘ داؤ کی ٹبہ کوٹ یعقوب‘ ریانپورہ اور 28 چک میں درجنوں قبریں زمین بوس ہوگئیں جبکہ ایک قبر سے آگ کے شعلے نکلتے دیکھے گئے۔ عینی شاہدوں کے مطابق یہ قبر ماں باپ کے گستاخ کی ہے۔
.......................
آج جہاں والدین‘ اولاد کی بے توجہی کا شکار نظر آتے ہیں وہاں چند ایک واقعات ایسے بھی سننے میں آتے ہیں کہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میں اپنے ایک بزرگ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک نوجوان بڑی عجلت میں ان کے پاس آیا اور وہاں موجود لوگوں کا احساس کیے بغیر کہنے لگا کہ حضرت جی میری ماں کے لیے کوئی اچھا سا رشتہ تلاش کریں۔ اس نوجوان کی بات سن کر ہم سب لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے کہ شاید اس نوجوان کی زبان سے غلط لفظ نکل گیا ہے۔ لیکن جب اس نے دوبارہ یہی فقرہ دہرایا تو بزرگ بولے کم بخت تو دنیا کا پہلا شخص ہے جو خود اپنی ماں کا رشتہ ڈھونڈنے نکلاہے۔ اس نوجوان نے شرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ باپ مرنے کے بعد ماں گھر میں بات بات پر فساد برپا کیے رکھتی ہے۔ ہم سب نے یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے کہ ماں کی شادی کر دیں تاکہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
یہ واقعہ مذاق میں اڑانے والا نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ اور اضطرابی کیفیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ اولاد نے ماں یا باپ کو گھر سے اس لیے باہر نکال دیا کہ وہ اولاد کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فادر ڈے یا مدر ڈے منانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہمیں معاشرے میں پھیلتی ہوئی بے راہ روی‘ نافرمانی کو نہ صرف ہر حال میں روکنا ہے بلکہ معاشرے میں مثبت قدروں کے فروغ کے لیے اپنا بھرپور کردار بھی ادا کرنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو لاہور میں دو کی بجائے لاتعداد میں اولڈ ہوم قائم کرنے پڑیں گے۔ اور آج جو نوجوان اپنے والدین کو اولڈ پیپلزہومز کے سپرد کر رہے ہیں چند سال بعد ان کا ٹھکانہ بھی اولڈ پیپلز ہوم میں ہی ہوگا۔کیونکہ جو سلوک وہ اپنے والدین سے اس وقت کر رہے ہیں اسی سلوک کی توقع انہیں اپنی اولاد سے بھی کرنی چاہیے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665660 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.