ماں باجھوں ہن کجھ نہیں لبھدا

بہت ہی محترم اور بڑے بھائیوں کی طرح شفقت کرنے والے معروف کالم نگار،محقق،شاعر ،تجزیہ نگار ڈاکٹر یوسف عالمگیرین کی اس پنجابی نظم نے مجھے رولا کر رکھ دیا ہے ۔اور یہ حقیقت ہے کہ ماں کے بعد دعاؤں میں وہ اثر نہیں رہتا جو ماں کے ہوتے ہوئے ہوتا ہے ۔سیدنا موسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپؑ اپنی والدہ کی وفات کے بعداﷲ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے کوہِ طور گئے تو آواز آئی اے موسیؑ ،اب ذرا سنبھل کے آنا اور سوچ سمجھ کر گفتگو کرنا ۔سیدنا موسی ؑ نے عرض کی یا باری تعالیٰ وہ کیوں ؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اب تمہارے لیے مجھ سے رحم وکرم کی دعا کرنے والی تمہاری ماں اس دنیا میں نہیں رہی
رب دی سونہہ
رب وی نہیں
سندا
ماں
جے سرِتے
نہ ہووے تے!

31دسمبر1998ء12رمضان المبارک جمعۃالمبارک کادن تھا تقریباًڈیڑھ ماہ سے سورج کامنہ تک نہیں دیکھا تھا، کئی کئی دن دھند کا راج رہتا تھا اس وقت میں چودہ سال اور آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔الحمد اﷲ والدہ ماجدہ جو کہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث شریف کی معروف کتب بخاری شریف اور مشکو ۃ شریف کی بھی حافظہ تھیں انکی تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ جب رمضان المبارک کی آمد آمد ہوتی تو ہم بھائی بہنیں ایسے خوش اور تیار ہوتے کہ جن کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ہم سب کی یہ کوشش ہوتی کہ ہم اس رمضان المبارک میں کوئی ایک روزہ یا نماز نہ چھوڑیں اور بڑھ چڑھ عبادت کریں ۔ایک ہی بیٹا ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ لاڈلہ تھا میری ہر خواہش اولین ترجیح سمجھ کر میری امی پورا کرتیں ۔ایک بار مجھے اچانک پیٹ میں درد ہوئی ڈاکٹر نے Appendix کی درد بتائی اور فوری آپریشن کا مشورہ دیا ۔امی جان فرمانے لگیں کہ میرا بیٹا اسی طرح ہی ٹھیک ہوگا ،اور مجھے گھر واپس لیکر آنے لگیں تو ڈاکٹرز نے واضح الفاظ میں کہا آپ غلط کررہی ہیں ہر قسم کے نقصان کی ذمہ دار آپ ہوں گی ۔انجکشن سے درد کچھ کم تو ہوا تھا مگر ابھی ختم نہیں ہوا تھا ماں مجھے گھر لائیں اور اپنی گود میں میرا سر رکھ کر بولیں کہ ’’اے اﷲ اگر امام بخاری ؒکو انکی ماں کی دعا کی بدولت آنکھوں کی بینائی دے سکتا ہے تو میرے بیٹے کو شفاء کیوں نہیں ؟میں نے اپنے بیٹے کا آپریشن نہیں کروانا‘‘ اس کے بعد مجھے ہوش نہیں آئی اس قدر پرسکون نیند اور جب میں سو کر اٹھا تو اس دن سے لیکر آج تک الحمد اﷲ کبھی مجھے دوبارہ درد نہیں ہوا ۔افطاری کے وقت میری امی جان میری پسند کی ہر چیز تیار کرتیں ۔جب میں سکول یا کہیں اور جاتا تو امی جان آیت الکرسی پڑھ کر مجھے دم کرتیں اوردروازے میں کھڑے ہوکر مجھے دیر تک دیکھتی رہتیں اورجب واپس گھر لوٹ کر آتا تھا تو ہمیشہ اپنی امی جان کو دروازے پر منتظر پاتا ایسا لگتا تھا کہ وہ بس میرے آنے جانے کے انتظار میں رہتیں ہیں۔میں اکثر ایک سوال پوچھتا کہ امی جان آپ کو کیسے علم ہوجاتا ہے کہ میں گھر آنے والا ہوں تو امی جان کہاکرتیں بیٹا ماں کو علم ہو جاتا ہے ،سچ ماں کو علم نہیں ہوتا بلکہ ماں کے سب علم میں ہوتا ہے۔ ماں کی گودایک محفوظ اور مضبوط قلعے سے کم نہیں ہوتی ،ما ں سے بڑا مخلص اور مضبوط رشتہ کوئی اورنہیں ہوتا اسی لیے اﷲ تعالیٰ بھی اپنی محبت کوبھی ماں کی محبت سے تشبیح دیتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے۔اوراسی لیے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی امی جان ہماری خوشیوں کی خاطر بہت سے دکھوں کو خوشی سے جھیل جاتیں ۔وہ ہماری خواہشات پر اپنی ضروریات کو قربان کر دیتیں ۔مجھے ناشتے میں بادام، مکھن ،دیسی انڈے کبھی دیسی گھی میں بل والا پراٹھا ساتھ بھنا ہوا گوشت ملتاجو کہ مجھے بہت پسند تھا اور ہے ۔امی جان مجھے کھاتا ہوا دیکھ دیکھ کر خوش ہوتیں میں کہتا امی جان آپ کچھ کیوں نہیں کھاتیں تو وہ فرماتیں جب تو کھاتا ہے تو میرا پیٹ بھر جاتا ہے۔وہ ہروقت قرآن اور احادیث پڑھنے میں مصروف رہتیں وہ دیر تک دعائیں کرتیں جب میں امی جان سے پوچھتا کہ کیا آپ دعا میں کیا مانگتی ہیں تو وہ فرماتیں تمہاری صحت والی طویل عمر اورکامیابیاں ۔ایک شب تیز آندھی چل رہی تھی ۔میں ٹیوشن سے لیٹ ہوگیا توامی جان چھوٹی بہن کے ہمراہ ٹارچ لیے میری طرف چل پڑیں کہیں میرا بیٹا ٹھوکر کھاکر نہ گر پڑے۔یہ یکم جنوری 1999ء رات 2.30منٹ اور تیرہ رمضان المبارک کا ایک منحوس لمحہ تھا جب اچانک امی جان ایک دم اونچی آوازمیں کلمہ طیبہ کا وردکرنے لگیں پھر سورۃ یٰس کی تلاوت کرنے لگیں ہم سب ایک دم نیند سے جاگ گئے امی جان عجیب سے کیفیت میں تھیں کلمہ کا ورد تیز کرتے کرتے اچانک انکے سانس روکنے لگیں پھر اچانک انہوں نے وعلیکم اسلام کہا میں ادھر ادھر دیکھنے لگا اتنے میں امی جان نے آخری سانس لیا اور اپنے خالق حقیقی سے جاملیں ۔اناﷲ واناﷲ الیہ راجعون مجھے احساس ہوگیا تھا کہ اب دعا کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے ساری دنیا خالی خالی سی لگ رہی تھیں اس دن صبح کے وقت سورج بھی خوب چمکا سہ پہر چار بجے امی جان کو قبر میں اتار دیا امی جان خود تو اپنے حقیقی گھر میں چلیں گئیں مگر مجھے سانحات،حوادثات کے حوالے کرگئیں ۔ہم بھائی بہن مسکین ہوچکے تھے سارا زمانہ دشمن بن چکا تھا وہ عزیز واقارب جو امی جان کی موجودگی میں ہمارے پاؤں بھی زمین پر نہیں رکھنے دیتے تھے اب ان کو یہ خوف لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں ہم انکے گھر نہ چلیں جائیں ۔پڑھائی کے ساتھ ساتھ زندگی کا بوجھ اٹھانے اور دوچھوٹی بہنوں کے لیے کبھی بک ڈپو پرتو کبھی ویڈیو گیمزکی شاپ پرتو کبھی میڈیکل سٹورپر ملازمت کرنی پڑی ۔جب تھک کر گھر آتا تھا تو پوچھنے والاکوئی نہیں تھا کہ بیٹا روٹی بھی کھائی ہے کہ نہیں ؟ ۔لگتا تھا کہ سارا جگ بیگانہ ہوگیا ۔اب سمجھ میں آیاتھا کہ زندگی بڑی مشکل چیز کا نام ہے اور ماں رب کا دوجہ نام ہے ۔اﷲ کی قسم یہ جو مائیں ہوتی ہیں ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا او ریہ اولاد کی زندگی ملک الموت کے ہاتھوں سے چھین لاتی ہیں ۔امی جان آج میں پھر سے بہت تھک گیا ہوں ،بہت اداس ہوں ۔آج جب تھک ہار کر گھر آتا ہوں تو مجھے کوئی سینے سے لگا کر میرا ماتھا نہیں چومتا ،مجھے آپکی طرح کھانے کاکوئی نہیں پوچھتا آج جب مہینے کا آخیر ہوتا ہے گھر کا کرایہ ،بجلی ،پانی اور گیس کا بل بچوں کے اخراجات پتہ ہے اﷲ تعالیٰ کے بعد کون یاد آتا ہے ؟ہائے میری ماں ۔امی جان کاش جانے والے واپس آتے ہوتے ۔امی جان کاش آپ واپس آجاتیں ۔امی جان خدارا واپس آجائیں اب آپ کا بیٹا بہت تھک جاتا ہے امی جان اب کئی رمضان المبارک آکر گزر جاتے ہیں آپ نے واپس کب آنا ہے؟ امی جان آپکو علم ہے کہ مجھے آپ کے بعد کبھی پر سکون نیند نہیں آسکی ۔امی جان آپ واپس آجائیں میں آپ کی گود میں سر رکھ کر سونا چاہتا ہوں ۔دسمبر مجھے بڑی اذیت دیتا ہے کیونکہ اس دسمبر نے مجھ سے میری ماں چھین لی تھی ۔
ماں باجھوں ہن کجھ نہیں لبھدا کٹھیاں کراں دعاواں کیکن

 

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 139275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.