بحرِ بے کراں کا حصول

لیڈرز قوموں کی شکیل کرتے اور انھیں اوجِ ثریا سے ہمکنار کرتے ہیں۔ان کے نظریات و خیالات ایک نئی دنیا کی تخلیق کرتے ،اور اپنی فہم و فراست سے ناممکن کو ممکن بناتے ہیں۔ان کی حریت انگیز آواز سے جبر و کراہ کی آہنی زنجیریں خود بخود ٹوٹتی جاتی ہیں۔جب بھی معاشرہ سے ایسے ہین و فطین اور حقیقی قائدین کو جابرانہ اقدامات سے ٹھکانے لگا دیا جا تا ہے تو پھر معاشرے بے راہ روی اور انتشار کا شکارہو جاتے ہیں ۔ ذولفقار علی بھٹوجیسے انقلابی قائد کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنا یا گیا تھااور انھیں ۴ اپریل ۱۹۷۹؁ کوعدالتی قتل کے ذریعے راستہ سے ہٹا دیاگیاتھا۔ عوام ذولفقار علی بھٹو کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے لہذا انھوں نے جنرل ضیا الحق کے اس سفاکانہ فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ ذولفقار علی بھٹو نے اپنی فکری بلندی سے محروموں کو عزتِ نفس کی دولت عطا کی تھی اور نسلی امتیاز وں کی فلک بوس دیواروں کو ایک ہی جھٹکے سے زمین بوس کردیا تھالہذا قوم ان کی احسان مند تھی۔وہ قوم جو سولہ سالوں تک بے آئین رہی اسے قلیل مدت میں متفقہ آئین سے نوازنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔ ایک ایسا آئین جسے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف بھی منسوخ نہ کر سکے۔انھوں نے اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے اقبالؔ کے اس شعر کو عملی شکل دے دی (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ۔،۔ نیل کے ساحل سے ے کر تا بخاکِ کاشغر) ۔ذولفقار علی بھٹو کو علامہ اقبال سے بے پناہ عقیدیت تھی۔ذولفقار علی بھٹو خود بھی صاحب ِ عقل و دانش تھے ۔منطق ،علم اور دلیل کی قوت سے نوازے ہوئے تھے لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ فلسفہ ،تاریخ اور ادب کے سب سے بڑے دیوتا سے دور رہتے۔اقبالؔ سے ذولفقار علی بھٹو کی محبت کا شاہکار وہ اسلامی کانفرنس تھی جو لاہور میں فروری ۱۹۷۴؁ میں انعقاد پذیر ہوئی تھی۔کس میں اتنی جرات ہے کہ وہ اس طرح کی اسلامی کانفرنس دوبارہ منعقد کرسکے ۔اسلامی کانفرنس اب بھی ہوتی ہے لیکن اس میں عوام کا دل نہیں دھڑکتا۔ذولفقار علی بھٹو کی کانفرنس کا طرہِ امتیاز یہی تھا کہ اس کانفرنس نے پوری اسلامی دنیا کو یکجا کر دیا تھا۔عوامی شرکت کانفرنس کی روح تھی اور روح بالکل زندہ دکھائی دیتی تھی ۔ بقولِ اقبالؔ (دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ۔،۔ کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ )۔ذولفقار علی بھٹو نے فقط یہی کیا تھا کہ صدموں سے چور اور ان دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی امت کے دلوں میں نئی امنگ جگائی تھی اور انھیں احساس دلایا تھا کہ وہ اس کرہِ ارض پر اب بھی محیر العقول کارنامے سر انجام دے سکتی ہے ۔ مسلمان روحانی طور پر اس مسند کے دوبارہ حصول کی خاطر ہر قربانی دینے کیلئے تیار تھے بس انھیں ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو ان کے دلوں کی زبان بولے اور ان کے خوابوں کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہ کرے۔بات یہاں پر رکی نہیں تھی بلکہ اس عظیم فلسفی نے تو برملا کہا تھا۔ (رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ۔،۔ تیرا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لئے )۔ذولفقار علی بھٹو کی آواز اس بحرِ بے کراں کے حصول کی ہی صدائے باز گشت تھی لہذا وہ ہر دل کی صدا بن گئی ۔بڑے اقدامات کی سزا بھی ہوتی ہے اور باجرات قائدین اس سزا کو بھگتنے کیلئے تیار بھی ہوتے ہیں۔منصور حلاج کو بھی علم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو نے والا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ا نکشافات سے دست کش نہیں ہو ئے ۔جو بات تنہائی میں کہی تھی اس بات کو سرِ دار بھی کہا۔اس طرح کا اظہاریہ بڑی غیر معمولی جرات کا متقاضی ہوتا ہے اور بڑے انسان اسی طرح کا اظہاریہ اپناتے ہیں۔ اقبالؔ اسے طاہرِ لا ہوتی کی اصطلاح سے منسوب کرتے ہیں۔(ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے) تو تب کہیں جا کر ذولفقار علی بھٹو جیسا لیڈر پیدا ہوتا ہے جو قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ ایٹمی توانائی جیسا مشکل فیصلہ ان کی گہری اور دور رس سوچ کا مظہر ہے۔اپنی قوم کو بھارتی جارحیت سے بچانے کا اس سے بہتر راستہ کوئی دوسرا نہیں تھا۔ایک ازلی دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کایہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے بھارت خائف رہتاہے اور پاکستان پر یلغار کی جرات نہیں کرتا ۔بھارت پاکستان کے سامنے بے بس ہے تو اس کاکریڈٹ ذولفقار علی بھٹو کی عظیم قیادت کو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قوم اپنے اس عظیم محسن کو آج بھی اپنی دھڑکنوں میں بسائے ہوئے ہے ۔ ،۔

ذولفقار علی بھٹو کی طرح ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹوپاکستانی سیاست کا درخشندہ ستارہ تھیں۔وہ پاکستان کی ایک ایسی لیڈر تھیں جن کا دل عوام کی فلا ح و بہبود اور اس کی ترقی کیلئے دھڑکتا تھا ۔ان کی نظر میں محروم طبقات کو خاص اہمیت حاصل تھی۔مجھے بی بی شہید سے شرفِ باریا بی کا جو اعزاز حاصل ہے اس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ ایک ایسی لیڈر تھیں جو غریبوں کے بارے میں بڑی حساس تھیں اور ان کی حالتِ زار کو بدلنا چاہتی تھیں۔انھوں نے جمہوریت کی خاطر جس طرح زندانوں کو گلے لگایا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ان میں وضعداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،کسی کی تذلیل کرنا یا مخالفین کو برا بھلا کہنا ان کی سیاسی لغت میں نہیں تھا،ان کا لہجہ سلجھا ہوا تھا اور ان کی زبان میں احترام کی جھلک تھی اور یہی وجہ ہے کہ دنیا ان کی جراتمندانہ جدو جہد پر انھیں سلام پیش کرتی ہے۔ جنرل ضیا الحق نے ان پر جس طرح ظلم جبر کے پہاڑ توڑے وہ تاریخِ انسانی کا انتہائی شرمناک باب ہے ۔سکھر جیل میں ۵۰ ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں بی بی شہید کے عزم و استقلال کے سامنے کوہ ہمالیہ بھی سر نگوں ہو گیا تھالیکن اگر کسی کا دل نہیں پسیجا تھا تو وہ جنرل ضیا الحق تھا کیونکہ وہ ا س بے خوف لیڈر کی لاش دیکھنے کا متمنی تھا ۔بی بی شہید کی بے پایاں بسا لتوں پر حبیب جالبؔ نے اسے ْنہتی لڑکی کہا (ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے ) جبکہ محسن نقوی نے انھیں کنیزِ کربلا کا خطاب دیا تھا(ظلمتوں میں گر کئی بنتِ ارضِ ایشیا ۔،۔ لشکرِ یزید میں اک کنیزِ کربلا۔،۔انصاف کی ہے منتظر اک یتیمِ بے نوا)۔ عوامی حاکمیت کی خاطر بی بی شہید نے سالہا سال جیلوں کی اذیتوں کو جس پامردی سے جھیلاوہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ گیارہ سالوں کی خون آشام جدو جہد کے بعد اقتدار نصیب ہوا تو صرف اٹھارہ مہینوں کا ۔کرپشن کے نام پر ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن کرپشن کو کبھی ثابت نہ کیا جا سکا۔ان کے خاوند آصف علی زرداری کو گرفتار کر کے ساڑھے گیارہ سالوں تک جیلوں کی اذ یتوں میں رکھا گیا تا کہ بی بی شہید کو جھکایا جا سکے لیکن ظالموں کا یہ خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکا کیونکہ آصف علی زرداری نے اپنی ثابت قدمی سے زندانوں کو جھکا دیا ۔ اسے جھکانے والے خود ملک بدر ہو گے جبکہ وہ چٹان کی طرح ثابت قدم رہا۔اپنی لاجواب قوتِ برداشت سے وہ مردِ حر بنا۔ اہلِ جہاں نے اسے مفاہمت کے بادشاہ کا خطاب دیا کیونکہ اس کے اندر دوسروں کو معاف کر دینے کا جوہرِ خاص پایا جاتا ہے۔جنرل پر ویز مشرف کے دور میں بی بی شہید کو جلا وطن کیا گیا لیکن انھوں نے پھر بھی فوجی آمریت سے سمجھوتہ کرنے سے انکا رکر دیا۔ ۲۷ دسمبر۲۰۰۷؁ کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن عوامی حاکمیت کی جاندار آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا گیا۔بی بی شہیدکا قتل عوام کے خوابوں کا قتل تھا کیونکہ اس کے بعد قوم حقیقی عوامی لیڈر سے محروم ہو گئی۔ذولفقار علی بھٹو اوربے نظیر بھٹو عالمی سازش کا نشانہ بنے۔انھیں غیر فطری انداز میں راستہ سے ہٹا یا گیا جس نے ان کی عظمت کو مزید بلندی عطا کر دی۔پاکستان کے ان عظیم قائدین کی یادیں اور جمہوریت کیلئے ان کی عظیم جدو جہد ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائیگی۔زند ہے بھٹو زندہ ہے ایک شعر نہیں بلکہ ھقیقت ہے۔بقولِ عباس تابش ؔ ۔ ( عجیب لوگ ہیں خاندانِ عشق کے لوگ ۔،۔ روز ہوتے جاتے ہیں قتل پر کم نہیں ہوتے )۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 447051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.