بڑھتی ہوئی غربت کا مقابلہ کیسے کریں
(Engr Shahid Siddique Khanzada, Karachi)
معاشی لوازمات زندگی کے اعتبار سے غربت کی تعریف اس طرح
بھی کی جاسکتی ہے کہ غربت کسی انسان (یا معاشرے) کی ایسی حالت کا نام ہے جس
میں اس کے پاس کم ترین معیار زندگی کے (minimum standard of living) کے لیے
لا محدود وسائل کا فقدان ہو۔ سادہ سے الفاظ میں یہ سمجھا جائے کہ غربت بھوک
و افلاس کا نام ہے. غربت پاکستان کا ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے اس حقیقت کے
ساتھ کہ اکثر لوگوں کے پاس محدود اقتصادی وسائل ہیں اور ان کا معیار زندگی
انتہائی کم ہے۔ غربت خود ایک سماجی مسئلہ ہے کیونکہ غریب لوگ نئے رجحانات
پر عمل کرنے سے قاصر ہیں اور وہ سماجی زندگی میں نئے طریقے اپنانے میں
ناکام و نامراد رہتے ہیں۔
غربت اس وقت وجود میں آتی ہے جب لوگوں کے پاس اپنی بنیادی ضروریات کو پورا
کرنے کے ذرائع نہ ہوں اگرچہ غربت انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے لیکن وقت کے
ساتھ اس کی اہمیت بھی بدل گئی ہے۔
پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30
فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی
ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی
ہے. جنوبی ایشیا میں غربت بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھی جاتی ہے کہ عسکری
برتری کی دوڑ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے عوام کو غربت کی
دلدل میں مسلسل دھکیل رہے ہیں اور ہر سال بجٹ میں دفاعی آلات میں بے انتہا
اضافہ اس کی ایک واضع مثال ہے.
اعدوشمار کے مطابق پاکستان میں غربت حالیہ سالوں اس میں کافی حد تک اضافہ
ہوا ہے جیسے پنجاب میں غربت کی شرح %33.3، سندھ میں %47 ، خیبر پختونخوا
میں % 51.5 اور بلوچستان میں خوفناک بد %73.5 ہے۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق
کے مطابق پاکستان کی %80 سے زائد غریب آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔ پچھلے دو
سالوں میں بڑھتے ہوئے افراط زر خصوصا اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بےتحاشہ
اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے قریب پہنچ گئے ہیں۔
ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کی افراط زر کی وجہ سے
تقریباً 45 لاکھ سے زائد نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں اور حالیہ دنوں میں
بے تحاشہ پیٹرول مصنوعات کی ہوشربا قیمتیں بڑھنے سے جو مہنگائی کا سیلاب
عوام پر سونامی بن کر جو اُکھاڑ پچھاڑ مچارکھی ہے اس سے وطن عزیز میں غربت
کا اندازہ احساس پروگرام کے تحت ملنے والی رقوم کے مراکز اور لنگر کے مراکز
پر موجود لوگوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے غربت اور تنگی کے باوجود ان مراکز کی
طرف رجوع ہی نہیں کیا اور اپنی سفید پوشی کا ستر سنبھالے بیٹھے اُوپر والے
کی کسی اچھی اُمید کی آس لگائے بیٹھے ہیں.
پاکستانی حکمران ہر اپنے ادوار میں اپنے طور پر ملکی اقتصادی صورت حال اور
غربت میں کمی کی بہتری کا۔ ڈھنڈورا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونکس میڈیا میں
پیٹتے ہوئے ہمیشہ نظر آتے رہے لیکن زیادہ تر ان کی کاوشیں کاغذوں میں بظاہر
نظر آتی ہیں مگر میدان میں کوئی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں ہیں . پاکستانی
حکمرانوں اور کچھ علاقائی این جی اوز نے غربت کے خاتمے کی سرکاری پالیسیوں
پر عمل درآمد کرنے کے مقابلے میں لنگر خانے کھول کر 'بھوک کے خاتمے' کو راہ
نجات سمجھا جانے لگا ہے۔ اس سے عوام کیا اندازہ لگائے کہ حکومت کی کیا یہی
وہ بہترین حکمت عملی ہے، جو پاکستانی حکومت اُسوقت اپناسکتی تھیں. اس سے یہ
نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے حکومت اپنی اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے''بیماری کا
علاج نہیں کر رہی بلکہ بیماری چھپا رہی ہے۔ جو آئندہ آنے والے سالوں میں
مشکلات بڑھاتیں جائینگی. اس سے بہتر تو یہ تھا کہ نقد ماہانہ دینے کے ساتھ
ساتھ ان پڑھ نوجوانوں کو کوئی ٹیکنیکل کام جیسے پلمبنگ، الیکٹریشن،
کارپینٹرز، ویلڈینگ، فیریج اینڈ ائیرکنڈیشن رئپرینگ، لیڈیز اینڈ جینٹس
ٹیلرینگ، جدید فوٹو گرافی اس کے علاوہ ہر ہفتہ میں دو دن بیروزگار نوجوانوں
کے لیے اتوار بازار، منگل بازار جیسے اسٹال لگاکر ان کے ہوالے کردیتی یہ
چھوٹے بزنس میں بھی آجاتے اور آن کی خودداری میں کوئی آنچ بھی نہیں آتی
حکومتیں لاکھ غربت مٹاؤ کی اسکیمیں لے آئے وہ نوجوانوں کی غربت ختم نہیں
کرسکتی جب تک ان اسکیموں کو میدان میں آکر انقلابی تدبیروں کا سوچ کا محور
ہر کھر کے آنگن میں نہ پھوٹ سکے..
|
|